• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کُتب خانوں سے بے گانگی، ایک سماجی المیہ

انجینئر قدر پرواز، واہ کینٹ

جب یقین متزلزل ہونے لگے اور ذہن وسوسوں کی آماج گاہ بن جائے، تو شمعِ علم کے حصول کے لیے کُتب خانے سے رجوع لازم ہوجاتا ہے۔ ویسے کسی شے کی اصل قدروقیمت کا اندازہ اُس کی تاریخ سے ہوتا ہے، یعنی ماضی میں اُس کی حیثیت کیا رہی ہے اور اِس تناظر میں لائبریری یا کُتب خانے کا مقام خاصا معتبر نظر آتا ہے۔ 

گرچہ عصرِحاضر نے ترقّی کی بلندیاں چُھو لی ہیں، مگر آج بھی لائبریری کی معنویت و افادیت مسلمہ ہے۔ جب دُنیا میں کاغذ تھا نہ قلم، تب مٹّی کی تختیوں پر اسٹائلس نُما آلات سے لکھنے کا آغاز ہوا اور یہی عمل لائبریری کے ابتدائی خدوخال کا پیش خیمہ ثابت ہوا۔ اِس کے بعد کے زمانے میں اسکرول، کوڈیکس اور بالآخر کتاب کی صُورت علم کی ترسیل کے نئے انداز اپنائے گئے، مگر اِن تمام مراحل میں کُتب خانے کا وجود کبھی معدوم نہیں ہوا۔

تاریخ، تہذیب، مذہب یا کوئی بھی تمدّنی عُنصر ہو، کُتب خانہ ہر دَور ہی میں علم کا امین و محافظ رہا ہے۔ اگر ہم انسانی تاریخ کے دو عظیم کُتب خانوں، ’’بیت الحکمہ‘‘ اور’’کُتب خانۂ اسکندریہ‘‘ پرنگاہ ڈالیں، تو پتا چلتا ہے کہ گرچہ زبانوں میں امتیاز رہا، کہیں عربی کا غلبہ تو کہیں یونانی کا، مگر اُن کی اصل خُوبی افکار کی آمیزش، نظریات کی کُشادگی اور احترامِ علم میں پنہاں تھی۔

یاد رہے، کُتب خانہ وہ مقدّس مقام ہے کہ جہاں تہذیبیں جنم لیتی ہیں اور جہاں اختلافِ رائے کو تصادم نہیں بلکہ تفہیم سمجھا جاتا ہے۔ وہاں بحث برائےبحث کی گنجایش نہیں ہوتی، بلکہ علم کی جستجو ہی مطمحِ نظر ٹھہرتی ہے۔ یہی وہ مقام ہے کہ جہاں دلائل کی بنیاد پر خیالات کو قبول یا رَد کیا جاتا ہے اور ہر زبان، تہذیب اور تاریخ کو ایک جگہ سمو دینے کی سعی کی جاتی ہے۔

انگریزی کی ایک قدیم کہاوت کا مفہوم کچھ یوں ہے کہ ’’اگر انسان شک اور وہم کی دلدل میں پھنس جائے، تو یقین و عرفان کی دولت کے حصول کے لیے کُتب خانوں کا دَر کھٹکھٹانا چاہیے۔‘‘ گویا لائبریری کی اہمیت پر بات، گویا سورج کو چراغ دکھانے کے مترادف ہے، کیوں کہ یہ نہ صرف وقت کا بہترین مصرف ہے، بلکہ ذہنی و روحانی صحت کے لیے ایک لاجواب تریاق بھی۔ اور یہ دو صفات ہی کسی شے کی افادیت تسلیم کرنے کے لیے کافی ہیں۔

اکیسویں صدی کے پاکستانی طالبِ علم اور کُتب خانے کا باہمی تعلق ایک ایسی فکری بحث ہے، جس پرغور و فکر ناگزیر ہے۔ بقول بزرگ نسل، ’’دورِ حاضر کا طالبِ علم بھلا کیا جانے کہ لائبریری کس بلا کا نام ہے۔‘‘ گو کہ یہ رائے کسی حد تک مبالغے پر مبنی محسوس ہوتی ہے، لیکن بہرکیف، اس میں وہ تلخ حقیقت پوشیدہ ہے، جو ہماری تعلیمی و فکری زبوں حالی کی آئینہ دار ہے۔ حقیقتاً، آج کا طالبِ علم لائبریری کی اہمیت و افادیت سے صرف ناواقف ہی نہیں بلکہ شعوری طور پر اس سے دُور ہے اور اِس کے پسِ پردہ کئی اسباب ہیں، جن کا سنجیدگی سے جائزہ لینا ازحد ضروری ہے۔ سو، ہم باری باری کچھ اہم اسباب کا جائزہ لیتے ہیں۔

درحقیقت، ہم نے اپنے بچّوں کی ذہانت و قابلیت کو صرف اُن کے نصابی نتائج سے منسلک کر کے ایک ایسا پیمانہ وضع کرلیا ہے کہ جو ذہنی دباؤ اور فکری جمود کو جنم دیتا ہے۔ بچّے کے اسکول میں پہلا قدم رکھتے ہی اُسے ایک ذہنی سانچے میں قید کر دیا جاتا ہے، جہاں اُسے یہ باور کروایا جاتا ہے کہ کام یابی صرف اچّھے نمبرز میں پوشیدہ ہے، جو امتحانات کے بعد ’’رزلٹ‘‘ کے نام پر اس کےحصّےمیں آتے ہیں۔

یہ دباؤ بچّوں میں دو قسم کے رویّے پیدا کرتا ہے۔ پہلا یہ کہ بچّہ نصاب کے حصار میں یوں قیدہوجاتا ہےکہ نہ صرف غیرنصابی سرگرمیوں بلکہ تہذیبی شعور، خاندانی اقدار اور رشتوں کے احترام سے بھی محروم ہوتا چلا جاتا ہے۔ وہ دن رات صرف نمبرز کی دوڑ میں جُتا رہتا ہے۔ دوم یہ کہ وہ اس مسلّط کردہ نظامِ تعلیم میں خُود کو ناکام سمجھ کے ہارمان لیتا ہے، اپنی صلاحیتوں کو بےوقعت تسلیم کربیٹھتا ہے، حالاں کہ وہ اِس طے شدہ رسمی نظام سےہٹ کر بھی کئی جہات میں مہارت حاصل کرسکتا تھا۔

تو یہ کہنا بےجا نہ ہوگا کہ دراصل والدین، اساتذہ ہی اپنے بچّوں کو لائبریری جیسے علمی سرچشمے سے دُور کرتے ہیں اور جب تک ہم اس سوچ سے باہر نہیں آتے، نہ ہمارے بچّوں کا ذہنی اُفق وسعت پائے گا اور نہ ہی لائبریری جیسی عظیم علمی روایت کو اُن کی زندگیوں میں وہ مقام حاصل ہو پائے گا، جس کی وہ مستحق ہے۔

پاکستانی طلبہ کو لائبریری سے دُور کرنے کا دوسرا سبب سوشل میڈیا کا روز افزوں بڑھتا اثر ونفوذ ہے۔ آج کا طالبِ علم نہ صرف اسکرین کا عادی ہو چُکا ہے بلکہ اُس کی ساری توجّہ کا مرکز صرف وہی مواد ہے، جو سطحی، تفریحی اور اکثر اوقات غیرمعیاری ہوتا ہے، جب کہ کُتب خانے جیسے سنجیدہ، پُرسکون اور فکری ماحول کا کوئی متبادل سوشل میڈیا پرموجود ہی نہیں اور یوں وہ علمی دِل چسپی سے یک سَر محروم ہورہا ہے۔

اِسی طرح اداکاری، موسیقی اور فنونِ لطیفہ کی دیگر اصناف میں بھی طلبہ کی پسند اب فکری گہرائی کی بجائے بازاری قسم کے مواد کی طرف زیادہ ہے، جو کہ ذہن کو وقتی طور پر مصروف تورکھتا ہے، مگر سیراب نہیں کرتا اور اِس کا سب سے خطرناک نتیجہ یہ نکل رہا ہے کہ آج کا طالبِ علم صرف ’’سُنے سُنائے علم‘‘ تک محدود ہے۔

وہ تحقیق کرتا ہے اور نہ مطالعے کی زحمت۔ چوں کہ لائبریری، جو کہ علم کا اصل منبع ہے، وہ اُس سے کوسوں دُور ہے، تو اس کی فکری بنیادیں کم زور پڑگئی ہیں۔ نتیجتاً، مذہب، سائنس، فلسفے یا تاریخ سمیت ہرشُعبےمیں اس کا ذہن ایک غیر ضروری قسم کی لچک کا شکار ہے اور وہ تنقیدی سوچ کے بغیر ہر نظریے کو بلا چُون و چرا قبول کر لیتا ہے۔ چوں کہ آج کے طالبِ علم کے پاس اپنا کوئی علمی سرمایہ نہیں، اِس لیے وہ کسی بھی رَو کے ساتھ بہ آسانی بہہ جاتا ہے۔

یہی وہ مقام ہےکہ جہاں لائبریری کی عدم موجودی، محض علمی خلا نہیں، بلکہ فکری زوال کی علامت بن جاتی ہے۔ یقیناً سوشل میڈیا سے کُلی اجتناب موجودہ دَور میں نا ممکن ہے اور شاید غیر سُود مند بھی، کیوں کہ بہرحال یہ ڈیجیٹل تعامل کا دَور ہے اور اِس سے لاتعلقی طالبِ علم کو تنہائی کی طرف لےجا سکتی ہے۔ تاہم، ضرورت اس اَمر کی ہے کہ ہم وقت کی تقسیم کاری کے ذریعے کُتب بینی اور سوشل میڈیا کے استعمال میں توازن پیدا کریں۔

مطالعے، تحقیق اور غورو فکر کے لیے وقت مخصوص کریں، تاکہ سوشل میڈیا کی یلغار میں علم و دانش کا دامن ہاتھ سے نہ چُھوٹے۔ یہی وہ حکمتِ عملی ہے کہ جو موجودہ دَور کے طالبِ علم کو اسکرین کی چکا چوند اور کتاب کی روشنی کے درمیان ایک معتدل راستہ اختیار کرنے کی صلاحیت دے سکتی ہے۔

تیسری نہایت اہم اور فکری لحاظ سے قابلِ غور وجہ، جو پاکستانی طالبِ علم کو لائبریری جیسے فکری منبع سے دُور رکھے ہوئے ہے، وہ اُس کی ’’ترجیحات کا انحراف‘‘ ہے۔ ہم اکثر اپنے علمی حلقے میں یہ جملہ دہراتے ہیں اوراس پر طنزو تنقید بھی سہنی پڑتی ہے کہ ’’آج کے معاشرے میں ’’طالبِ علم‘‘ خال خال ہی دکھائی دیتاہے،جب کہ ’’طالبِ ڈگری‘‘، ’’طالبِ ملازمت‘‘، ’’طالبِ نفع و نمود‘‘ اور "طالبِ شہرت و اقتدار‘‘ ہرسُوعام ہیں۔‘‘

علم، اب محض کام یابی، مفاد یا معاشرتی مقام کے حصول کا ایک وسیلہ بن کے رہ گیا ہے، حالاں کہ اگرعلم ہی کو مقصدِ اُولیٰ بنایا جائے، تو یہ ساری چیزیں اُس کے طبعی ثمر کے طور پر خود بخود حاصل ہو جاتی ہیں، لیکن افسوس کہ آج علم کی تعریف محدود ہو کر محض کتابی معلومات یا فنی مہارت تک رہ گئی ہے، جب کہ علم کا جوہر تو خود شناسی، مقصدِ حیات اورکائناتی ربط کے شعور میں پوشیدہ ہے۔

علم وہ آئینہ ہے، جس میں انسان اپنا حقیقی چہرہ دیکھتا ہے کہ مَیں کون ہوں؟ میرے وجود کا مصرف کیا ہے؟ میری فکری و عملی جہت کیا ہونی چاہیے؟ میری ذات کن کے لیے باعثِ نفع اور کن کے لیے سببِ ضرر ہے؟ اور المیہ یہ ہے کہ ان سوالات کے جوابات آج کے انجنیئر، معالج یا منتظم سے کم ہی ملتے ہیں، بلکہ کبھی کسی خاک نشین درویش، کسی گُم نام بزرگ، کسی مسجد کے امام یا کسی چھٹی جماعت کے معصوم وبےدار ذہن بچّےکی زبان سے پھوٹتے ہیں۔

اپنے آپ کو صرف ایک فن یا پیشے سے منسلک کرکے باقی تمام امکانات ترک کردینا نہ صرف فکری جمود کوجنم دیتا ہے بلکہ انسان کو شرفِ انسانیت سے بھی محروم کردیتا ہے۔ اپنی ذات کو دریافت کرنا، اپنے ہُنر کوجِلا دینا، اپنے شعور کو بےداراور باطن کو زندہ رکھنا ہی علم کی اصل رُوح ہے اور یہی وہ رُوح ہے کہ جس سے آج کا طالبِ علم مسلسل فاصلہ بڑھا رہا ہے۔

چوتھی بڑی اور فکری لحاظ سے نہایت افسوس ناک وجہ خُود کُتب خانوں کا ابتر ماحول ہے۔ جامعات میں موجود بیش تر لائبریریز نہ صرف نظم و ضبط سے عاری ہیں بلکہ اُن کا علمی و اخلاقی وقار بھی ریزہ ریزہ ہوچُکا ہے۔ علم کے یہ خزانے، جو کبھی فکری ارتقاء کا سرچشمہ ہوا کرتے تھے، اب وقت کی گرد میں گُم گشتہ کُتب کا ملبہ محسوس ہوتے ہیں۔ وہ کتابیں کہ جن پر کسی گُم شُدہ عہد کی مٹی نے اپنا ٹھکانہ بنا رکھا ہے۔

انیسویں صدی کے بعد علم گاہوں میں کُتب خانے کی ترویج کا سلسلہ یکایک تھم گیا اور اب صرف چند گِنےچُنے ادارے ہی ہیں، جہاں کُتب کو بدلتے ہوئے فکری رجحانات کے مطابق ترتیب دیا جاتا ہے۔ اکثر کُتب خانے ایک جامد ماضی کے نمائندہ بن چُکے ہیں، جہاں نئی فکر کی کرن داخل ہوتی ہے اور نہ کوئی ذہن انگیختہ تحریک۔ دَورِ حاضر میں انسانی ذہن ارتقا کی منزلیں طے کرتے نِت نئی فکری زمینوں پر بیج بو رہا ہے، مگر افسوس کہ کُتب خانے ان زرخیز ذہنوں کو سیراب کرنے کی بجائے کسی متروک شے کی مانند خاموشی سے زوال کے کُتبے تلے دفن ہوتے جا رہے ہیں۔

کُتب خانوں میں عصری تقاضوں سے ہم آہنگ کُتب کی شمولیت ناپید ہے اور موجود مواد بھی ناقص دیکھ بھال اور غیرفعال ترتیب کی نذر ہو چُکا ہے۔ کتابیں، جو کبھی فہم وفراست کی کُنجی ہوا کرتی تھیں، اب الماریوں میں مقفّل ایسی مخلوق بن چُکی ہیں کہ جن پر وقت کا زنگ اور بےنیازی کی دُھول جمی ہے۔ یوں لگتا ہے، جیسے لائبریری محض اینٹوں اور ریکس کا ایک گودام ہے۔

ایک المیہ یہ بھی ہے کہ لائبریری کی انتظامیہ ایک بدذوق اور فکری لطافت سے محروم طبقے پر مشتمل ہے، جو خُود اس مقدّس ادارے کے فکری وقار اور مقصد سے ناآشنا ہے۔ ہماری دانست میں تو محافظِ کُتب خواہ محض چوکیدار ہی کیوں نہ ہو، اُسے بھی مقامِ کُتب کے علمی تقدّس کا امین ہونا چاہیے۔ مگر پاکستان کے بیش تر کُتب خانوں میں کاؤنٹر پر بیٹھا شخص بھی لائبریری کے احترام اور مقصد سے نابلد دکھائی دیتا ہے۔ 

یہ رویّہ طلبہ کے فکری رجحان کو گہرا نقصان پہنچاتا ہے۔ جب علم بانٹنے والے ہاتھ ہی شوقِ علم سے خالی ہوں، تو سیکھنے والا ذہن یا تو سردمہری اختیار کرتا ہے یا پھر کسی اور رُخ بھٹک جاتا ہے۔ یوں شوقِ مطالعہ پژمردگی کا شکار ہوکر ذہنی جمود میں ڈھل جاتا ہے اور کُتب خانہ اپنے فکری و تہذیبی وقار سے محرومی کی راہ پر گام زن ہو جاتا ہے۔

ان کے علاوہ بھی چند ایسے اسباب ہیں کہ جو بظاہر کم اثر دکھائی دیتے ہیں، مگر درحقیقت یہ بھی آج کےطالبِ علم کوکُتب خانےسے بے گانہ کرنے میں ایک خاموش مگر مضبوط کردار ادا کررہے ہیں۔ اُن میں نصاب کی فکری تنگ دامنی، اساتذہ کی فکری محدودیت، مطالعے پر مبنی ثقافت کا فقدان اور تیزرفتار، نتیجہ پسند طرزِ زندگی کی طرف شدید میلانات شامل ہیں۔ یہ وہ عناصر ہیں کہ جو طالبِ علم کے ذہنی اُفق کو محدود کرتے اور اُسے فکر کی وسعت، علم کی گہرائی سے دُور لے جاتے ہیں۔

معاشرتی سطح پر والدین اور اساتذہ کو اس زوال پذیر رجحان کے سدِباب کے لیے فعال کردار ادا کرنا ہوگا۔ گھریلو ماحول میں مطالعے کی فضا قائم کرکے، بچّوں کے اذہان میں کتاب سے اُنسیت پیدا کرنی ہوگی۔ اساتذہ کو محض تدریسی ہدایات تک محدود رہنے کے بجائے، طلبہ کو فکری رہنمائی کاذوق بھی دینا ہوگا۔ اِسی طرح کلاس کے دوران علمی و فکری مکالمے کا آغاز، گھروں میں انفرادی لائبریریوں کے قیام کی حوصلہ افزائی اور کتاب کو بطورِتحفہ رواج دینا بھی اِس سمت میں چھوٹے مگر دیرپا اقدامات ثابت ہوسکتے ہیں۔

ناقابلِ اشاعت نگارشات اور اُن کے تخلیق کار برائے صفحہ ’’متفرق‘‘

شعری تصویری نمائش (آمنہ بنتِ عبدالرشید) لاالہ کے دیس میں (منیبہ اختر اعوان، لاہور) کمالِ صبر میں کردارِ مصطفیٰ اور صف بستگی (حسن عسکری کاظمی)اقوام متحدہ کا مذاق(سحرش حیا)ایرانی فضائیہ غزہ جنگ سے دُور کیوں؟، کورین فوجی یوکرین جنگ میں(محمد کاشف، کراچی) اسلام میں عید کا فلسفہ اور پس منظر (ارشد مبین احمد)، کراچی میں حادثات(ایم شمیم نوید، گلشنِ اقبال، کراچی) شکریہ میرواعظ(آصف اشرف، روالا کوٹ) میرے قتل میں کون شامل نہیں(جبیں نازاں) یوم تکبیر، عہدساز دن، فیلڈ مارشل عاصم منیر ،قرب الہی کا حقیقی ذریعہ (پروفیسر حکیم سید عمران فیاض) بلوچستان کی بگڑتی معاشی صورت حال، غزہ سے اٹھتی فریادیں، سوشل میڈیا کا استعمال (عبدالصمد حقیار)٭ خطبہ حجۃ الوداع (بتول آرائیں، سکھر) ٭ صحابہ اور میرا ایمان ،یوم تکبیر ، بنام ڈاکٹر عبدالقدیر( لطیف النسا، ناظم آباد ، کراچی) ٭عید الاضحی، سنت ابراہیمی زند ہ کرنے کا دن (رانا اعجاز چوہان) صبح کا پہلا مسافر (ارم نفیس ، ناظم آباد کراچی) قدرتی اثاثوں، جنگلی حیات کا تحفظ(مرزا محمد رمضان) کم عمری کی شادی ، یوم تکبیر (ڈاکٹر رحمت عزیز خان چترالی) مثالی نمونہ عمل (سیدذوالفقارحسین نقوی، نیو رضویہ سوسائٹی، کراچی) عیدا الاضحیٰ، تہوار، خوشی کا اظہار(صبا احمد، کراچی)۔