شہرِ یثرب اپنی قسمت پہ نازاں: وہ ایک حسین ودل آویز روشن صُبح تھی۔ شہر ِقدس کی فضائیں نسیمِ سحر کے جھونکوں سے معطّر تھیں۔ یثرب کے پہاڑ و صحرا، برگ و شجر، شام و سحر، شمس و قمر، جِن و بشر، ارض و فلک، دشت و دریا، چرند پرند خوشی سے گل نار و سرشار تھے۔
چمنستانِ طیبہ میں جشن کا سماں تھا۔ شوقِ دیدارِ مصطفیٰ ﷺ جنون و وارفتگی میں تبدیل ہوچُکا تھا۔ شہرِ یثرب کے گلی کُوچے تقدیس و تحمید کے زمزموں سے گونج رہے تھے۔ شہرِ یثرب مجسّم انتظار تھا۔
بازار، راستوں میں خدّام و نوجوان اور گھروں کی چھتوں پر خواتین اور بچّیاں فرطِ مسرّت میں دَف بجا کر نغمہ سرا تھیں۔ قریشِ مکّہ بدقسمت تھے کہ دین و دنیا کی سعادت و خوش بختی سے محروم رہے اور یہ عظیم سعادت یثرب کے باسیوں کے نصیب میں آئی۔
مکّہ کے اپنے قریشی، خون کے پیاسے تھے، تو یثرب کے اجنبی، انصار آپؐ پر اپنا جان و مال نچھاور کرنے کو تیار تھے۔ قریش نے مسلمانوں کو بے گھر و بے آسرا کیا، تو انصارِ مدینہ نے اپنے گھر بار اور مال و دولت مہاجرین کے قدموں میں ڈھیر کردیے۔
شہرِ یثرب کے ہر فرد کی دلی آرزو تھی کہ اللہ کے رسولﷺ اُن کے یہاں قیام فرمائیں۔ آنحضرت ﷺنے فرمایا’’یہ اونٹنی اللہ کے حکم پر مامور ہے۔‘‘ آپ ؐ نے خود بھی ناقہ کی نکیل چھوڑ دی۔ ناقہ قصویٰ، حضوراکرمﷺ کے ننھیال ’’بنومالک بن نجار‘‘ کے محلّے میں اُس جگہ جاکر بیٹھ گئی، جہاں اِس وقت مسجد نبوی ؐ ہے۔ (صحیح بخاری۔3906)۔
میزبانیِ رسولؐ اعزازِ عظیم ہے: حضرت انسؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہﷺ اونٹنی سے اتر کرنیچے تشریف لائے اور فرمایا۔ ’’کس کا گھر سب سے زیادہ قریب ہے؟‘‘ حضرت ابو ایوب انصاریؓ جلدی سے آگے بڑھے اور عرض کیا۔ ’’یارسول اللہﷺ! یہ ساتھ ہی میرے گھر کا دروازہ ہے۔‘‘ اللہ کے نبیؐ نے فرمایا۔’’تو پھر تم جاؤ اور ہمارے لیے قیلولہ کا انتظام کرو۔‘‘
ابو ایوب انصاریؓ نے عرض کیا۔’’آپ ؐ تشریف لے چلیں، اللہ برکت عطا فرمائے گا۔‘‘ (صحیح بخاری، حدیث نمبر 3911) چناں چہ سرکارِ دو عالم ﷺ کی میزبانی کا شرف حضرت ابوایوب انصاریؓ کے نصیب میں آیا۔ حضرت ابو ایوب ؓ کا مکان دو منزلہ تھا۔ انہوں نے آنحضرتؐ سے بالائی منزل پر قیام کی درخواست کی۔ آپؐ نے فرمایا۔ ’’میرے پاس ملاقات کے لیے لوگ آتے رہیں گے، مَیں نچلی منزل پر رہوں گا، تو سب کے لیے آسانی رہے گی۔‘‘ چناں چہ آپؐ نے نیچے ہی قیام فرمایا۔
حضرت ابو ایوب انصاریؓ دونوں وقت آپؐ کی خدمتِ اقدس میں کھانا لے کر حاضر ہوتے اور آپؐ جو کھانا چھوڑ دیتے، وہ حضرت ابوایوب انصاریؓ اور ان کی اہلیہ کے حصّے میں آتا۔ کھانے میں جہاں آنحضرتؐ کی انگلیوں کے نشان پڑے ہوتے، حضرت ابو ایوب انصاریؓ بھی تبرکاً وہیں سے کھانا کھاتے۔
حضور نبی کریم ﷺ نچلی منزل پر قیام فرماتھے۔ حضرت ابوایوب انصاریؓ بالائی منزل پر۔ ایک رات اتفاق سے بالائی منزل پر پانی کا برتن ٹوٹ گیا۔ حضرت ابو ایوب انصاریؓ کو اندیشہ ہوا کہ کہیں پانی ٹپک کر نیچے نہ گرجائے اور اس سے حضوراکرم ﷺ کو تکلیف ہو۔
گھر میں اوڑھنے کے لیے صرف ایک ہی لحاف تھا، اسے حضرت ابو ایوب انصاریؓ نے پانی پر ڈال کر جلدی جلدی پانی خشک کیا اور دونوں میاں بیوی ساری رات ایک کونے میں بیٹھے رہے۔ حضرت ابو ایوب انصاریؓ نےآنحضرتؐ کی خواہش پر بالائی منزل میں بادل نخواستہ رہائش اختیار تو کرلی تھی، لیکن متفکر رہتے۔
ایک رات انہوں نے اپنی اہلیہ سے کہا۔ ’’اے، ایوب کی ماں! رسول اللہﷺ اوپر قیام فرمانے کے زیادہ حق دار ہیں، کیوں کہ آپؐ کے پاس ملائکہ آتے ہیں اور آپؐ پر وحی نازل ہوتی ہے۔‘‘ حضرت ابوایوب انصاریؓ فرماتے ہیں کہ’’اس خیال سے نہ مَیں رات کو سوسکا اور نہ اُمِّ ایوبؓ۔ صبح مَیں نے حضورؐ سے یہ ماجرا عرض کیا۔
آپؐ نےفرمایا۔ ’’نیچے کا مکان میرے لیے زیادہ آرام دہ ہے۔‘‘ مَیں نے عرض کیا۔ ’’قسم ہے اُس ذات کی، جس نے آپؐ کو حق کے ساتھ بھیجا۔ مَیں ایسے بالاخانے میں نہیں رہ سکتا، جس کے نیچے آپؐ قیام فرما ہوں، غرض مَیں نے اتنی التجا کی کہ آپؐبالائی منزل میں رہنے پر راضی ہوگئے۔‘‘ رسول اللہ ﷺ حضرت ابو ایوب انصاریؓ کے گھر میں سات مہینے مقیم رہے۔ (سیرت سرور عالمؐ 3/55)۔
نام ونسب: حضرت ابوایوب انصاریؓ کا نام خالد بن زید اور کنیت ابوایوب۔ سلسلۂ نسب یوں ہے۔ خالد بن زید بن کلیب بن ثعلبہ بن عبدعوف خزرجی۔ ان کا تعلق قبیلہ خزرج کے خاندان بنو مالک بن نجار سے ہے، جو آنحضرتؐ کے دادا، جناب عبدالمطلب کا ننھیال ہے۔
یہ خاندان انصار کے تمام قبائل میں ممتاز حیثیت رکھتا ہے۔ حضرت ابو ایوب انصاریؐ اس خاندان کے رئیس تھے۔ اور ان70افراد میں سے ایک تھے، جنہوں نے بیعت عقبہ کے موقعے پر حضوراکرم ﷺ کی بیعت کی اور عہد کیا کہ آپؐ کی حمایت سے دست بردار نہیں ہوں گے۔ آپؓ576عیسوی میں مدینہ منورہ میں پیدا ہوئے۔ 674عیسوی میں 98 سال کی عمر میں رومیوں کے شہر قسطنطنیہ میں دورانِ جہاد انتقال ہوا اور وہیں تدفین ہوئی۔
عشق نبیؐ میں سر شار گھرانا: مسجد ِنبوی ؐ کی تعمیر کے دوران آنحضرت ؐنے مسجد سے متصل دو حجرے تعمیر کروائے۔ ایک اُمّ المؤمنین حضرت سودہؓ کے لیے اور دوسرا اُمّ المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ ؓ کے لیے۔ ان کے ساتھ ہی غریب مہاجرین کے لیے ’’صفہ‘‘ کا چبوترا بھی تعمیر کروایا، جس پر بے گھر صحابیؓ دن رات قیام کرتے۔ حضور اکرم ﷺ، حضرت ابو ایوب انصاریؓ کے گھر سات ماہ قیام کے بعد اپنے گھر منتقل ہوچُکے تھے، لیکن اکثر حضرت ابوایوبؓ کے گھر قیام کے حسین دنوں کو یاد فرماتے اور اُن کی خدمات کا بڑی محبت سے ذکر فرماتے۔
آپؐ کا حضرت ابو ایوبؓ اور ان کے اہل وعیال سے بڑا گہرا دلی تعلق قائم ہوگیا تھا۔ اُمِّ ایوب اصرار کے ساتھ آپؐ اور ازواجِ مطہراتؓ کی دعوت کرتیں اورکھانے کی بہترین اشیاء دعوت میں پیش کرتیں۔ ویسے بھی انصارِ مدینہ کی مہمان نوازی پورے عرب میں مشہور ہے اور یہ اہلِ مدینہ کا طرّئہ امتیاز ہے۔
ہجرت کے بعد آنحضرت ؐ نے انصار و مہاجرین کے درمیان بھائی چار ے کا رشتہ قائم فرمایا اور حضرت انسؓ کے گھر پر انصار و مہاجرین کو جمع فرماکریہ فریضہ سر انجام دیا، جب کہ حضرت ابو ایوبؓ کے مہاجر بھائی، یثرب کے سب سے پہلے معلّم و مبلّغ، حضرت مصعب بن عمیرؓ کو مقرر فرمایا۔
خون سے سینچا ہے، اسلام کا گلشن ہم نے: حضرت ابو ایوب انصاریؓ نے 2ہجری میں شروع ہونے والے غزوات کے سلسلے میں بھرپور حصّہ لیا۔ غزوئہ بدر، غزوۂ اُحد، غزوۂ خندق اور بیعتِ رضوان سمیت تمام غزوات میں آنحضرت ؐ کے ہم رکاب رہے۔ رسول اللہؐ کے وصال کے بعد بھی اپنی زندگی کا تمام ترحصّہ اللہ کی راہ میں جہاد کرتے ہوئے گزارا۔
سیّدنا ابوبکر صدیقؓ اور سیّدنا عمر فاروق ؓ کے دورِ خلافت میں ہونے والی جنگوں میں بھر پور حصّہ لیا۔ حضرت عثمانؓ کی شہادت کے بعد آپؓ مسجدِ نبوی ؐ میں نمازوں کی امامت فرماتے رہے اور لوگوں کو انتشار وبدنظمی سے باز رہنے اور امن وامان برقرار رکھنے کے لیے وعظ و نصیحت فرماتے رہے۔ حضرت عثمانؓ کی شہادت سے عالمِ اسلام لرز کررہ گیا تھا۔
مدینۂ منورہ پر باغیوں کا قبضہ تھا۔ افراتفری، بغاوت اور انتشار کے ان نازک ترین لمحات میں مرکزیتِ اسلام کو بچانے اور وحدت المسلمین کے تحفّظ کے لیے صحابۂ کرامؓ کی نظروں میں صرف ایک ہی شخصیت، دامادِ رسول، حضور اکرمؐ کے چچازاد بھائی اور فاتحِ خیبر، شیرِ خدا سیّدنا علی مرتضیٰ ؓکی تھی، جو فہم وفراست، حکمت و دانائی اور بہادری و شجاعت کا خزینہ تھے۔ جن کی افضلیت، لیاقت اور تدبّر میں کسی کو شبہ نہ تھا۔ اللہ کے نبی ؐ نے فرمایا۔ ’’میں عِلم کا شہر ہوں اور علیؓ اس کا دروازہ ہیں۔‘‘ شمعِ رسالتؐ سے اس قدر گہرا تعلق، اس بلند مرتبہ ہستی کو نصیب ہوا، جن کا نام سیّدنا علی مرتضیٰ بن ابی طالبؓ تھا۔
میزبانِ رسولؐ اور بزرگ صحابی، حضرت ابوایوب انصاری ؓ، دیگر صحابہ کرامؓ کے ساتھ حضرت علیؓ سے اصرار کرتے رہے۔ سیّدنا علی مرتضیٰؓ نے پہلے تو منع فرما دیا کہ’’ میری طرف سے اجازت ہے، جسے چاہو، خلیفہ بنالو۔‘‘ لیکن پھر اُمّتِ مسلمہ کو مزید انتشار اور خوں ریزی سے بچانے کے لیے آپؓ نے یہ ذمّے داری قبول فرمالی۔ حضرت ابوایوب انصاریؓ ،سیدنا علی مرتضیٰؓ سے بڑی عقیدت رکھتے تھے۔
حضرت ابو ایوبؓ نے سیّدنا علی مرتضیٰؓ سے بیعت لینے میں سبقت حاصل کی اور سیّدنا علی مرتضیٰؓ کے دورِ خلافت میں لڑی جانے والی تمام جنگوں میں بڑھ چڑھ کر حصّہ لیا۔ سیّدنا علی مرتضیٰؓ کی معتدل مزاجی کا یہ عالم تھا کہ وہ خوارج جیسے خوں خوار دشمنوں کو بھی جنگ کے بجائے راہ ِراست پر لانے کی کوششیں کرتے رہتے، یہاں تک کہ جب انہیں اطلاع ملی کہ خوارج بہت بڑے لشکر کے ساتھ حملہ آور ہونے کو ہیں، تو آپؓ نے حضرت عبداللہ بن عباسؓ کو اپنا سفیر بناکر خوارج کی جانب روانہ کیا۔
حضرت عبداللہ بن عباسؓ نے خوارج کی فوج کو قران و حدیث کی روشنی میں اس بات پر قائل کیا کہ وہ خلیفۃ المسلمین کے خلاف بغاوت اور جنگ سے باز آجائیں، لیکن خوارج تو مرنے مارنے پر تُلے بیٹھے تھے، انہوں نے فیصلہ کرلیا کہ مزید گفتگو نہیں ہوگی اور دونوں گروہوں کی قسمت کا فیصلہ تلوار کرےگی، لیکن اس کے بعد بھی حضرت علیؓ یکے بعد دیگرےان کی جانب سفیر بھیج کر انھیں سمجھانے کی کوشش کرتے رہے۔
خوارج میدانِ جنگ میں صف آرا تھے۔ حضرت علیؓ نے پیادہ فوج کی کمانڈ حضرت ابو ایوب انصاریؓ کو سونپی اور جنگ شروع ہونے سے پہلے اتمامِ حجّت کے طور پر ایک بار پھر میزبانِ رسولؐ، بزرگ اور برگزیدہ صحابیؓ حضرت ابو ایوب انصاریؓ کو خوارج کے پاس وعظ ونصیحت کے لیے بھیجا، تاہم خوارج لڑنے ،مرنے کے علاوہ کوئی بات سُننےکو تیار نہ تھے۔
آخرکار، جنگ شروع ہوئی۔ حضرت ابو ایوب انصاریؓ کی پیادہ فوج نیزے تان کر اُن پر پِل پڑی۔ خوارج کا زور جلد ہی ٹوٹ گیا اور سب کے سب میدانِ جنگ میں مارے گئے۔ خوارج کے ساتھ یہ جنگ شعبان38 ہجری میں ہوئی تھی۔ سردی کا موسم تھا۔
خوارج کی سر کوبی کے بعد حضرت علی مرتضیٰؓ کوفہ تشریف لائے اور پھر عُمر کے باقی دو برس وہیں گزارے۔ حضرت ابو ایوب انصاریؓ کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ سیّدنا علی مرتضیٰؓ نے اپنی خلافت کے ابتدائی دَور میں انہیں مدینہ منورہ کا گورنر مقرر فرمایا تھا۔ (استیعاب 14/324)۔
کب تک رہے گی محکومی انجم میں مری خاک: قیصرِروم کے پایۂ تخت قسطنطنیہ (استنبول) کے محاذ پر جہاد کرنے والے لشکر کے لیے حدیثِ مبارکہ میں مغفرت اور جنّت کی بشارت دی گئی ہے۔ اسی لیے صحابۂ کرامؓ اس فتح کو بہت اہم سمجھتے تھے۔ یہ شہر تین اطراف سے سمندر میں گِھرا ہوا ہے، چناں چہ اس کی جغرافیائی حد بندی نے اس شہر کو کسی حد تک محفوظ کردیا تھا۔ 50 ہجری میں مسلمان افواج کے ایک بڑے لشکر نے رومی پایۂ تخت قسطنطنیہ کو پامال کرنے کا پروگرام بنایا۔
حضرت ابو ایوب انصاریؓ عُمر رسیدہ ہوچکے تھے، لیکن جہاد پر جانے کے لیے ہمیشہ تیار رہتے تھے۔ اللہ کی راہ میں جہاد اُن کی زندگی کا مقصدِ حیات تھا۔ احباب نے مشورہ دیا کہ اب آپ ضعیف ہوچکے ہیں، آرام فرمائیں۔ جواب دیا۔ ’’تم مجھے جہاد پر جانے سے روکتے ہو، جب کہ ارشادِ ربانی ہے۔’’جہاد کے لیے نکلو، خواہ ہلکے ہو یا بوجھل۔‘‘(سورئہ توبہ، آیت نمبر41)۔ ’’اور مَیں ان ہی دو حالتوں میں سے ایک میں ہوں۔‘‘ (مستدرک حاکم۔ 5930)قسطنطنیہ کے لیے جانے والا لشکر کئی ماہ کی مسافت طے کرکے ایشیائے کوچک سے ہوتا ہوا قسطنطنیہ جاپہنچا۔
طویل اور کٹھن راستہ تھا۔ دورانِ سفر حضرت ابوایوب انصاریؓ بیمار پڑگئے۔ آپؓ نے مجاہدین سے فرمایا۔ ’’مجھے اپنے ساتھ ہی لے کر چلو، اگر مَیں منزلِ مقصود پر پہنچنے سے پہلے مرجاؤں، تو غسل اور کفن کے بعد اپنے درمیان ہی لٹالینا اور دشمن کے مُلک میں جتنا ممکن ہو، اندر لے جاکر دفن کردینا۔‘‘
علماء فرماتے ہیں کہ حضرت ابو ایوب انصاریؓ نے یہ وصیت اس لیے کی تھی تاکہ وہ دشمن کے قریب ترجاکر جہاد کا زیادہ سے زیادہ ثواب حاصل کرسکیں۔ چند دن بعد حضرت ابو ایوبؓ اللہ کو پیارے ہوگئے۔ حضرت ابو ایوب انصاریؓ کی وصیت کے مطابق مجاہدین ان کے جسدِ خاکی کو لے کر آگے بڑھتے رہے، یہاں تک کہ قسطنطنیہ کی فلک بوس فصیل کے قریب پہنچ گئے۔ اور انہیں فصیل کی دیوار کے ساتھ خاموشی سے دفنادیا۔ (طبقات ابن سعد 4/324)
صحابیِ رسول ؐ کی کرامت، رومیوں کی تعظیم: رات کا درمیانی پہر تھا، مجاہدین ابھی تدفین سے فارغ ہی ہوئے تھے کہ ان کی قبر ِمبارک سے روشنی کی ایک لہر نکلی اور آسمان تک چلی گئی۔ یہ عجیب منظر رومی سپاہیوں نے بھی دیکھا اور حیرت زدہ رہ گئے۔ اگلے دن صبح رومیوں کے سفیر نے آکر پوچھا۔ ’’یہ کون شخص ہے، جسے تم نے رات میں دفنایا ہے؟‘‘
جواب دیا گیا۔ ’’یہ ہمارے نبی آخر الزماں حضرت محمد مصطفیٰﷺ کے اصحاب میں سے ایک ہیں۔‘‘ یہ کرامت دیکھ کر رومی فوج کے حاضر سپاہیوں میں سے بہت سے مسلمان ہوگئے۔ اس واقعے کے بعد رومیوں کو حضرت ابو ایوب انصاریؓ سے ایسی عقیدت ہوگئی کہ وہ صدیوں تک نہ صرف ان کی قبر کی تعظیم وتکریم کرتے رہے، بلکہ قحط سالی کے موقعے پر وہ یہاں آکر دُعائیں بھی کرتے تھے۔ مسلمان ایک مدّت تک قسطنطنیہ کا محاصرہ کیے رہے، لیکن کام یابی نہ ہوئی، آخر کار واپسی اختیار کرنی پڑی (تاریخ، امّتِ مسلمہ 2/388)
857 ہجری 1453عیسوی میں سلطا ن محمد فاتح نے 21سال کی عُمر میں عظیم شہر قسطنطنیہ فتح کرکے اسے سلطنتِ عثمانیہ میں شامل کیا۔ اور اس کا نام ’’اسلام بول‘‘ رکھا، جو بعد میں استنبول پڑگیا۔ 1458عیسوی میں سلطان محمد فاتح نے حضرت ابوایوب انصاریؓ کی قبرِ مبارک پر ایک یادگار قائم کی اور مسجدِ ایوب سلطان کی بنیاد رکھی۔ حضرت ابو ایوب انصاری کی قبر مبارک آج بھی استنبول میں زیارت گاہِ خاص و عام ہے، جہاں ہر قوم و ملّت کے لوگ ہمہ وقت حاضر رہتے ہیں۔