• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ایک منصوبے کے تحت فرقہ واریت کو ہوا دی گئی، تو کئی اندرونی و بیرونی جنگوں سے بھی دوچار ہے
ایک منصوبے کے تحت فرقہ واریت کو ہوا دی گئی، تو کئی اندرونی و بیرونی جنگوں سے بھی دوچار ہے

خُوب صُورت لوگوں کا چھوٹا سا، خُوب صُورت مُلک، لبنان، شمال اور مشرق کی طرف سے شام، جنوب کی سمت سے اسرائیل، مغرب کی جانب بحرِ متوسّط ابیض (Mediterranean Sea) میں گھِرا ہوا ہے، جب کہ ساحل سے کچھ فاصلے پر قبرص ہے۔ یہ مُلک 1516عیسوی میں خلافتِ عثمانیہ، تُرکیہ کے تابع آیا اور جنگِ عظیم اوّل تک، یعنی تقریباً چار سو سال اُس کا حصّہ رہا۔ کوہستانِ لبنان کے علاقے پر عثمانی خلافت نے اکثر اپنی گرفت ڈھیلی رکھی، لیکن وہاں کبھی بغاوت کی کوئی صُورت پیدا ہوئی اور نہ ہی کسی قسم کے فرقہ ورانہ فسادات ہوئے۔

دروز عقیدے کے لوگوں سے باقاعدہ ٹیکس ادائی کے سوا کوئی مطالبہ نہیں کیا جاتا تھا، جب کہ دروز مذہبی و سیاسی رہنما ٹیکس اکٹھا کر کے تُرکی خلافت کو پہنچا دیتے۔ جنگ میں تُرکی کی شکست کے بعد مغربی اتحادیوں میں ’’سائیکس پیکو‘‘ معاہدے کی صُورت ایک خفیہ معاہدہ ہوا، جسے روس اور اٹلی کی حمایت حاصل تھی۔ اِس معاہدے کے تحت ہونے والی بندربانٹ میں لبنان پر فرانس کا قبضہ ہو گیا۔لبنان کے تمدّن پر تُرک اور فرانسیسی اثرات غالب رہے۔ 

فرانس کے ماتحت لبنان پر مغربی کلچر کا رنگ غالب آ گیا، لیکن اس کا علمی و ادبی پہلو برقرار رہا۔مصر کے بعد سب سے زیادہ علمی، ادبی اور ثقافتی سرگرمیاں، خاص طور پر اشاعتِ کتب کا کام لبنان میں ہوتا رہا ہے۔ بے حد مقبول اور کثیرالاشاعت عربی، انگریزی قاموس(ڈکشنری) المُنجد کی تیاری، لبنان کے دو عیسائی پادریوں کا کارنامہ تھا۔

متعدّد ممتاز اہلِ فکر ودانش، شعراء و ادباء کے علاوہ ’’ لما ذاتاخر المسلمون ولماذا تقدم غیرھم‘‘ (مسلمان پس ماندگی کا شکار کیوں ہوئے اور دوسری قومیں ترقّی کیسے کر گئیں)، جیسی بلند پایہ کتاب کے مؤلف، ممتاز علمی و فکری شخصیت، امیر البیان امیر شکیب ارسلان لبنان ہی کے آسمان کا تابندہ تارہ تھے۔

لبنان کو فرانس کے چنگل سے آزاد ہوئے 77سال ہو چُکے ہیں، لیکن اس کے بڑے اقتصادی، معاشرتی اور سیاسی مسائل فرانس کے قبضے ہی کا نتیجہ ہیں۔ لبنانی مؤرّخ، خالد الجندی نے لکھا ہے کہ عثمانی خلافت کے دَوران لبنان کے تمام مذہبی اور سیاسی فرقے باہم امن و اتفاق کی فضا میں زندگی گزارتے تھے۔سُنّی، شیعہ اور عیسائی تفرقے یا شدید تصادم تک پہنچ جانے والے اختلافات، فرانس کے زیرِ سایہ پختہ ہوئے۔

مسلمان، فرانس سے مکمل آزادی کے لیے جدوجہد کر رہے تھے، جب کہ عیسائیوں کی ترجیح فرانس کے تابع رہنا اور لبنان کا عربی تشخّص ختم کرنا تھا۔فرانس کے مینڈیٹ کے عرصے میں لبنان میں آبادی کے تناسب میں فرق پڑا اور سُنّی مسلمان سب سے بڑی اقلیت بن گئے۔

اُن کی اکثریت بڑے شہروں مغربی بیروت، طرابلس، صیدا، بعبلک اور ہرمل وغیرہ یا ساحلی شہروں میں آباد ہے۔ اثنا عشری شیعوں کی زیادہ تعداد جنوبی لبنان، بقاع کی وادی اور بیروت کے بعض حصّوں میں رہائش پذیر ہے، جب کہ دروز آبادی زیادہ تر پہاڑی وادیوں میں آباد ہے۔ فلسطینیوں کی وجہ سے، جو 1948ء اور 1967ء میں لبنان آئے، مسلمانوں کی آبادی کے تناسب میں کچھ اضافہ ہوا۔حکومت اکثر مارونی عیسائیوں کی مال دار اشرافیہ کے زیرِ اثر ہوتی ہے۔ 

ایک گروہ اپنے آپ کو دستوری کہتا تھا، جسے برطانیہ کی حمایت حاصل تھی۔ یہ دراصل1943 ء میں صدر بشارہ الخوری اور وزیرِ اعظم ریاض الصلح کی قیادت میں طے پانے والا میثاقِ وطنی، ایک ڈھیلا ڈھالا دستوری ضابطہ تھا۔ یہ مارونی عیسائیوں، سُنّیوں اور شیعوں کے درمیان سیاسی مفاہمت کی ایک دستاویز تھی اور اس میں تقسیمِ اختیارات کا فارمولا طے ہوا تھا کہ لبنان کا صدر مارونی عیسائی، وزیرِ اعظم سُنّی اور پارلیمنٹ کا اسپیکر شیعہ ہوگا، جب کہ ڈپٹی اسپیکر اور نائب وزیرِ اعظم یونانی آرتھوڈکس عیسائی فرقے سے ہوں گے اور افواج کے جنرل اسٹاف کا چیف دروز فرقے سے ہوگا۔

دنیا کی شاید ہی کوئی اور ریاست ایسی ہو، جس کی تشکیل میں فرقہ پرستی اور نسلی امتیازات کے اِتنے اجزا شامل ہوئے ہوں، جتنے لبنان میں ہم دیکھتے ہیں۔ گویا بقول شاعر؎’’میری تعمیر میں مضمر ہے اِک صُورت خرابی کی۔‘‘ سینٹ مارون کے پیروکار قبرصی عیسائی مارونی (Maronists) گروہ کا دعویٰ تھا کہ اُن کے آباء و اجداد شام و لبنان سے ہجرت کر کے یونان گئے تھے، اِس لیے اُنہیں لبنان میں فوقیت ملنی چاہیے۔پھر یہ کہ تھوڑے بہت مسلکی اختلافات کو فرانسیسی استعمار نے بہت گہرا کر دیا تھا۔

فرانس نے جس فرقہ پرستی کے بیج بوئے تھے، اُس کا نتیجہ یہ ہوا کہ آزادی کے بعد یہ فرقے آپس میں ٹکرانے لگے۔ 1976ء کی خانہ جنگی جدید لبنان کی تاریخ کا انتہائی الم ناک باب ہے۔ یہ خانہ جنگی1990ء تک، یعنی کم و بیش پندرہ سال جاری رہی، جس میں ڈیڑھ لاکھ افراد مارے گئے اور اَسّی ہزار کے قریب بے گھر ہوئے۔ اِس تباہ کُن خانہ جنگی میں مارونی عیسائی اپنی طاقت اور اثر و رسوخ بڑھانا چاہتے تھے، تو شیعہ امل ملیشیا اور حزب اللہ بھی اقتدار میں زیادہ حصّے کی طلب گار تھیں۔

تنظیمِ آزادیٔ فلسطین کا فلسطین کے باہر پہلا مرکز اُردن کا سرحدی شہر، کرامے بنا تھا۔ شاہ حسین نے اُنہیں سرگرمیاں جاری رکھنے کی اجازت دے رکھی تھی، لیکن اُس کے روس کے زیرِ اثر اشتراکی دھڑوں نے خود شاہ حسین کا تختہ اُلٹنے کی سازشیں شروع کر دی تھیں۔ شاہ حسین نے کچھ عرصے تک اِس تنظیم کی سرگرمیاں برداشت کیں، لیکن پی ایل او کے ایک دھڑے نے Swiss Air, TWAاور Pan Am کی تین بین الاقوامی پروازیں اغوا کر کے اُردن میں اتاریں، مسافروں کو یرغمال بنایا اور بین الاقوامی پریس کے سامنے جہازوں کو آگ لگا دی، تو اِس پر شاہ حسین کا صبر جواب دے گیا اور سخت فوجی کارروائی کے ذریعے پی ایل او کو اُردن سے نکال دیا گیا۔

اردن کے بعد تنظیمِ آزادیٔ فلسطین نے لبنان کو اپنا مرکز بنایا۔وہاں خانہ جنگی میں اِس تنظیم کی وجہ سے کشیدگی میں بہت اضافہ ہوا اور یہ ایک سیاسی فریق بن گئی۔ 1982ء میں اسرائیل نے اس کے خلاف سخت آپریشن کیا۔ صابرہ اور شتیلا کے فلسطینی کیمپس پر اسرائیلی بم باری نے ایک ہول ناک المیہ جنم دیا، جس کی یادیں آج بھی رونگٹے کھڑے کر دیتی ہے۔ اس کے بعد تنظیمِ آزادیٔ فلسطین کو لبنان چھوڑنا پڑا اور اُس نے یہاں سے نکل کر تیونس میں اپنے دفاتر قائم کرلیے۔

شام کا ڈکٹیٹر، حافظ الاسد بھی پی ایل او کا خاتمہ چاہتا تھا۔ لہٰذا، اُس نے فلسطینیوں کو کچلنے کے لیے لبنانی مارونی عیسائیوں اور اسرائیل کی حمایت میں اِس خانہ جنگی میں حصّہ لیا۔Gemayel، لبنان میں مارونی عیسائی فرقے کا ایک سیاسی کردار تھا۔ یہ جرمنی گیا اور وہاں ہٹلر سے بھی ملا، جہاں اُسے وہاں کی نازی پارٹی کے تنظیمی ڈسپلن نے بہت متاثر کیا۔ لبنان آ کر اُس نے نازی پارٹی کی طرز پر عیسائی ملیشیا’’فلنجے‘‘ (Phalange) کی بنیاد رکھی۔

فلنجے کا ایک مطلب پلٹن یا رجمنٹ بھی ہے۔ اِس ملیشیا نے اسرائیل کے ساتھ مل کر فلسطینیوں کو قتل کیا۔Gemayel کے دو بیٹے، بشیر جمائل اور امین جمائل لبنان کے صدر بنے اور قتل ہوئے۔ خانہ جنگی سے لبنان میں انسانی جانوں کے اتلاف کے علاوہ اِس کی معیشت بھی تباہ ہوئی اور انفرا اسٹرکچر کو سخت نقصان ہوا۔وزیرِ اعظم اور حکومتی ادارے بے اثر ہو کر رہ گئے، جس کے نتیجے میں نظامِ مملکت ٹھپ ہو گیا۔

سیاسی عدمِ استحکام تو یہاں ہمیشہ رہا، لیکن خانہ جنگی نے سارا سیاسی عمل ہی معطّل کردیا۔ پھر معاملات نے ایک اور رُخ اختار کیا اور شام نے لبنان پر قبضہ کر لیا، جو 2005ء تک جاری رہا۔ اُدھر اسرائیل نے جنوبی لبنان کو سن2000ء تک اپنے قبضے میں رکھا۔ اِسی عرصے میں شیعہ تنظیم ’’حزب اللہ‘‘ وجود میں آئی۔شروع میں یہ اسرائیل کے خلاف ایک عسکری مزاحمتی گروہ کی صُورت میں سامنے آئی تھی، لیکن بعد میں اس نے سیاسی کردار بھی ادا کرنا شروع کر دیا اور مجموعی طور پر ساری سیاست اُس کی یرغمال بن گئی۔

نئے اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ حالیہ کئی برسوں سے لبنان کی غریب مسلمان آبادی میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اِس کی وجہ یہ ہے کہ شام میں بشارالاسد نے ایران اور روس کی مدد سے مسلمان رعایا کے بے تحاشا قتل کا جو بہیمانہ سلسلہ جاری رکھا، اُس کے نتیجے میں ہزاروں مسلمان خاندان شام سے لبنان آ کر بس گئے تھے۔اُن خستہ حال خاندانوں کی وجہ سے غریب آبادی کی شرح میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ لبنان کو عرفِ عام میں غریب مُلک شمار نہیں کیا جاتا۔

فوربز میگزین کی فراہم کردہ معلومات کے مطابق لبنان کے چھے افراد/خاندان کھرب پتی ہیں، لیکن اُن کی دولت کا بڑا حصّہ مُلک سے باہر کے بینکوں میں پڑا ہوا ہے۔ 2019ء سے لبنان سخت معاشی بحران میں مبتلا ہے۔ساٹھ فی صد آبادی خطِ غربت سے نیچے زندگی گزار رہی ہے۔ سابق وزیرِ اعظم رفیق الحریری، جنہوں نے تقریباً پندرہ سال کی خانہ جنگی کے بعد طائف معاہدے کے تحت امن قائم ہونے پر وزارتِ عظمیٰ کا منصب سنبھالا تھا اور پھر کئی بار اِس منصب پر منتخب ہوئے تھے، حزب اللہ کے جنگ جُو کے ہاتھوں ایک بم دھماکے میں ہلاک ہوئے۔ اُن کا تعلق لبنان کے امیر ترین سُنّی خاندان سے تھا۔ بعدازاں، اُن کا بیٹا، سعد حریری بھی وزارتِ عظمیٰ کے منصب پر فائز ہوتا رہا۔ نیز، موجودہ وزیرِ اعظم، نواف سلام بھی اشرافیہ کے اِسی طبقے سے تعلق رکھتے ہیں۔

لبنانی معیشت کے کئی رُخ ہیں۔ بینکنگ، سیّاحت اور صنعت کے علاوہ زراعت وہاں کی معیشت کا اہم سیکٹر ہے اور جی ڈی پی کے تین اعشاریہ ایک فی صد کا اِسی سیکٹر پر انحصار ہے۔ اس سیکٹر کے لیے محنت کش افراد کی ضرورت شام سے آئے لوگ پوری کرتے ہیں۔ گندم، جَو، پھل، سبزیاں، زیتون، انگور، بھیڑ کا گوشت اور تمباکو کا شمار بھی زرعی پیداوار میں ہوتا ہے، جب کہ وہاں حشیش کی پیداوار پر بھی پابندی نہیں ہے۔

حالیہ معاشی بحران نے زراعت پر بالواسطہ طور پر نہایت منفی اثرات مرتّب کیے ہیں۔ جس طرح پاکستان میں گندم کاشت کرنے والے کسانوں کو کھاد اور فصلوں کے بیج کی بھاری قیمتیں ادا کرنی پڑتی ہیں، جب کہ پیداوار کی مارکیٹ میں قیمت لاگت سے کم ملتی ہے، اِسی طرح کی صُورتِ حال سے لبنانی زرعی شعبہ بھی دوچار ہے۔

فلسطین کی جنگ کے اثرات لبنانی معیشت کے ہر شعبے پر نمایاں ہیں۔کئی سال تک شام میں قتل و خون اور مہاجرت و دربدری کے حالات سے پڑوسی کی حیثیت سے بھی وہ متاثر ہوا کہ شامی مہاجرین بڑی تعداد میں لبنان آ بسے تھے۔پھر حال ہی میں اسرائیل نے حزب اللہ کے خلاف جو وحشیانہ اقدامات کیے، اُن کی وجہ سے غزہ کی جنگ، لبنان میں بھی داخل ہو گئی اور جس سے اس کی معیشت کو شدید نقصان پہنچا۔

نیز، جنگوں کی وجہ سے عوام کی ذہنی کیفیت، نفسیات بھی بُری طرح متاثر ہوتی ہے، جس کے اثرات سماج کے ہر شعبے پر مرتّب ہوتے ہیں، خصوصاً پیداواری صلاحیتیوں کو بے طرح مجروح کرتے ہیں۔ (مضمون نگار، لگ بھگ 40 برس تک شعبۂ تعلیم سے وابستہ رہے۔ معروف مذہبی اسکالر اور کئی کتب کے مصنّف ہیں)