• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جس خطّے میں پاکستان واقع ہے، وہاں حالیہ مہینوں میں بہت سے ایسے واقعات رونما ہوئے، جنہوں نے علاقے پر دیرپا اثرات مرتّب کیے، تو دوسری طرف، عالمی منظر نامہ بھی اُن سے متاثر ہوا۔ یہ کہنا مناسب ہوگا کہ یہ تبدیلیاں کچھ اِس نوعیت کی تھیں کہ خطّے کے ہر مُلک کو نئی حکمتِ عملی مرتّب کرنی پڑی۔ تو پھر یہ کیسے ممکن تھا کہ ایسی تیز رفتار اور ہمہ گیر تبدیلیوں سے پاکستان متاثر نہ ہو؟مشرقِ وسطیٰ، وسط ایشیا اور مغربی ایشیا سب ہی اُن تبدیلیوں کی زد میں آئے اور یہی وہ علاقے یا مُمالک ہیں، جن سے ہمارے تعلقات اونچ نیچ کا شکار رہتے ہیں۔ 

گزشتہ سال جو کچھ ہوا، اُس کے فوری اثرات سامنے ہیں، لیکن ان حالات سے جن نئے چیلنجز نے جنم لیا، وہ پاکستان سے خارجہ، داخلہ اور معاشی پالیسیز میں بہت سی تبدیلیوں کے متقاضی ہیں۔ کچھ پالیسیز میں تو فوری نوعیت کی تبدیلیاں درکار ہیں تاکہ وہ جھٹکوں کی صُورت میں کشن کا کردار ادا کرسکیں، جب کہ ایسی طویل المدّتی حکمتِ عملی کی تشکیل بھی ضروری ہے، جو دنیا سے ہمارے تعلقات کی سمت کا تعیّن کرسکے۔خطّے کے معاملات کیا ہوں گے؟ مشرقِ وسطیٰ کے ممالک سے روابط کی نوعیت کیا ہو؟ اور جنوب مشرقی ایشیا کے بدلتے حالات میں کیا کچھ ممکن ہے؟

پاکستان کو ان تمام امور پر انتہائی سنجیدگی اور غور و فکر کے بعد پالیسی تشکیل دینی ہوگی۔پھر اس پر بھی غور ضروری ہے کہ اب تک جو پالیسیز اپنائی گئیں، کیا اُن کے وہی نتائج برآمد ہوئے، جن کی توقّع تھی یا اُن پالیسیز سے ہماری مشکلات میں اضافہ ہوا؟یہ خود احتسابی اِس لیے بھی اہم ہے کہ اس کے نتائج کی بنیاد پر ماضی کی غلطیوں سے بچا جاسکتا ہے۔ پاکستان گزشتہ تین برسوں سے شدید معاشی مشکلات سے گزر رہا ہے۔ 

قرضوں کے بڑھتے بوجھ اور بے قابو منہگائی کے سبب حکومت کو بہت سے ایسے سمجھوتے کرنے پڑ رہے ہیں، جن سے عوام کی روز مرّہ کی زندگی پر شدید دبائو پڑا ہے۔عوام، خاص طور پر مِڈل کلاس اور غریب، فوری ریلیف چاہتے ہیں،جو حکومت کے لیے ممکن نہیں ہو پا رہا۔ وزیرِ اعظم، عمران خان کہتے ہیں کہ منہگائی تو پوری دنیا میں ہے، اُن کی حکومت کیا کرے؟تاہم، حقیقت یہی ہے کہ مُلک کی بگڑتی معاشی صُورتِ حال تمام پالیسیز پر اثر انداز ہو رہی ہے۔ اس کے تدارک کے بغیر ترقّی اور عوام کو ریلیف دینا ممکن نہیں۔ سامنے کی بات یہی ہے کہ رواں برس بھی معیشت ہی تمام پالیسیز پر حاوی رہے گی۔

افغانستان، طالبان حکومت کے لیے ایک بڑی آزمائش بن چُکا ہے۔امریکا کے جانے کے بعد جس سکون اور بہتری کی توقّع تھی، وہ عنقا ہے۔مُلکی گورنینس درہم برہم ہے۔طالبان کے لیے سب سے بڑی مشکل بدترین معاشی صُورتِ حال ہے، جو خود طالبان حکومت کے مطابق، انسانی المیہ بن چُکی ہے۔شدید سردی نے وسائل اور گورنینس کی غیرمعمولی کمی کے سبب حالات بُری طرح بگاڑ دیے۔طالبان حکومت ہر فورم پر دنیا سے امداد کی درخواست کر رہی ہے۔

جب کہ عالمی ادارے بھی، جو ریلیف کے کاموں سے تعلق رکھتے ہیں، تباہی کی کالز دے رہے ہیں۔ یہاں تک کہ سلامتی کاؤنسل نے بھی اپنے ایک غیر معمولی اجلاس میں دنیا کی اس انسانی المیے کے خوف ناک اثرات کی جانب توجّہ مبذول کروائی، جس کے بعد امریکا نے امداد کا وعدہ کیا۔پاکستان دو سال سے افغانستان کے معاملات سلجھانے میں سہولت کار کا کردار ادا کرتا چلا آ رہا ہے۔ظاہر ہے، وہ بھی اِس المیے کی جانب بھرپور انداز میں دنیا کو متوجّہ کرنے کی کوشش کر رہا ہے، لیکن اسے اس مشن میں کس حد کام یابی ہوئی؟ اس کے متعلق کچھ کہنا قبل از وقت ہوگا۔

یقیناً پاکستان اِس حد تک تو کام یاب رہا کہ امریکی انخلا کے بعد وہ خون ریزی نہ ہو، جس کا خدشہ ظاہر کیا جارہا تھا۔نیز، پڑوسی ممالک مہاجرین کے ممکنہ سیلاب سے بھی محفوظ رہے۔دوسرے الفاظ میں سرحد بہت حد تک پُرسکون رہی۔لیکن طالبان سے وابستہ یہ اُمیدیں کہ اُن کے اقتدار میں آنے سے بہت سے معاملات پاکستان کے حق میں چلے جائیں گے، پوری ہوتی نظر نہیں آرہیں، کم ازکم فوری طور پر تو ایسا کچھ نہیں ہے۔اب سوال یہ ہے کہ ہمیں افغانستان کے معاملات میں مزید کتنی دِل چسپی لینی چاہیے اور کیا کچھ علاقائی اور عالمی طاقتوں پر چھوڑیں ؟ 

اِس پر پالیسی سازوں کو غور کرنا ہوگا۔ امریکا اور مغربی ممالک سے توقّع کی جارہی تھی کہ وہ افغان مذاکرات میں سہولت کاری پر پاکستان کے شُکر گزار ہوں گے اور افغان صُورتِ حال جَلد معمول پر لانے میں مدد کریں گے، خاص طور پر امریکا، افغانستان کے منجمد فنڈز جاری کرکے باقی مُمالک کے لیے امداد کی راہ نکالے گا، لیکن کسی نے بھی اِن معاملات پر توجّہ نہیں دی۔

جہاں امریکا اور مغرب، افغانستان میں نمایندہ حکومت کے قیام اور حقوقِ نسواں پر لچک دِکھانے کو تیار نہیں، وہیں، چین، روس، ایران، وسط ایشیا، مشرقِ وسطیٰ کے ممالک اور تُرکی بھی امریکا کے ہم نوا بنے ہوئے ہیں۔انسانی المیے کی دہائی بھی کام نہیں آرہی۔ یوں لگتا ہے کہ یہ ممالک، طالبان حکومت تسلیم کرنے کے لیے مزید ضمانتیں چاہتے ہیں۔اِس صُورتِ حال سے پاک، امریکا تعلقات متاثر ہوئے اور مغربی ممالک کی بھی وہ گرم جوشی نظر نہیں آرہی، جس کی توقّع کی جارہی تھی۔آئی ایم ایف اور ایف اے ٹی ایف وغیرہ کے رویّے پر غور کیا جائے، تو بہت سی باتیں واضح ہوجائیں گی۔

پاک، امریکا تعلقات صدر جو بائیڈن کے اقتدار میں آنے کے بعد سے مسلسل تنزّلی کا شکار ہیں اور بہتری کے راستے نکالنے مشکل ہو رہے ہیں۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ امریکا کی خطّے سے جانے کے بعد پاکستان میں وہ دِل چسپی نہیں رہی، جو پہلے کبھی ہوا کرتی تھی۔ اُسے مغربی ایشیا میں ہماری ضرورت ہے اور نہ ہی مشرقِ وسطیٰ میں۔اُس کے جنوب مشرقی ایشیا میں بھارت سے تعلقات مضبوط تر ہوتے جارہے ہیں۔ یہ کہنا تو آسان ہے کہ ہم کسی دوسرے بلاک میں شامل ہوکر اپنے مفادات کا تحفّظ کرلیں گے، لیکن کیا فوری طور پر ایسا ممکن ہے؟ 

جب کہ ایک طرف تو امریکا سُپر پاور ہے اور دوسری طرف، ہمارے اقتصادی مفادات بھی اُس سے وابستہ ہیں، جو ایک اندازے کے مطابق، مجموعی تجارت کا 34 فی صد ہیں۔تاہم، خراب تعلقات کے باوجود، دونوں مُمالک کے درمیان ورکنگ ریلیشن شپ اِتنا بُرا بھی نہیں کہ مایوس ہوا جائے۔حال ہی میں امریکی قونصل جنرل نے اپنے ایک انٹرویو میں بتایا کہ گزشتہ دو برسوں میں امریکا نے سب سے زیادہ سویلین امداد پاکستان کو دی۔

اُن کے مطابق، اس امداد میں ترقّیاتی کاموں سے لے کر طلبہ کو تعلیمی سہولتوں کی فراہمی تک شامل ہیں۔اس کا مطلب یہ ہوا کہ امریکا، پاکستان سے بہتر تعلقات رکھنے کا خواہش مند ہے۔ پاکستان کی جانب سے گزشتہ سال تواتر سے امریکا سے متعلق تلخ بیانات آتے رہے۔ خود وزیرِ اعظم نے امریکا کو بار بار تنقید کا نشانہ بنایا۔ صدر بائیڈن کی فون کال بھی ایک مسئلہ بنی رہی، لیکن یہ بھی کہا جاتا رہا کہ پاکستان، امریکا سے بہتر تعلقات کا خواہاں ہے۔اِس امر میں کوئی شک نہیں کہ افغانستان سے امریکی انخلا بہت سے سنجیدہ دوطرفہ اور علاقائی مسائل کا سبب بنا ہے، لیکن مُلکی معاشی صُورتِ حال کا تقاضا ہے کہ وہ مسائل امریکا سے تعلقات کی راہ میں حائل نہ ہونے پائیں۔یہ بھی واضح ہے کہ بلاکس کی سیاست کا دَور گزر چُکا اور اب سب اپنے اقتصادی مفادات ہی کے تحت تعلقات بناتے ہیں۔ 

لہٰذا، اگر اس کے باوجود ہم کوئی دوسرا ایسا راستہ اپناتے ہیں، جو متروک ہو چُکا ہے، تو اندیشہ ہے کہ کسی نئی مشکل میں نہ پھنس جائیں۔ چین اور روس دونوں ہی امریکا کے نشانے پر ہیں، لیکن وہ فوجی تصادم کی طرف ہرگز نہیں جا رہے۔ بڑی طاقتیں سمجھتی ہیں کہ پوسٹ کورونا دَور میں اصل مقابلہ اقتصادی میدان ہی میں ہوگا۔ اِسی لیے بڑی طاقتوں کی ایک کے بعد دوسری ورچوئل سمٹ ہو رہی ہے۔ امریکا، روس اور چین کوئی ایسا رسک لینے کو تیار نہیں، جس سے عالمی معاشی توازن بگڑ جائے۔

کوشش یہی کی جا رہی ہے کہ تنائو اور تصادم کا سبب بننے والے تنازعات پر بیانات کی حد تک تو تلخی رہے، یعنی اُن پر فی الحال سمجھوتا ممکن نہیں، جیسے یورپ میں یوکرین، انڈو پیسفک میں تائیوان ہیں، تاہم، کسی بھی فوجی کارروائی سے بچا جائے۔ مقابلے اور مسابقت کا کُھلا میدان معیشت ہی ہوگا، جس میں پنجہ آزمائی کے لیے سب تیار ہیں۔ پاکستان، چین کا سب سے قریبی دوست ہے اور سی پیک منصوبہ معیشت کے لیے غیر معمولی اہمیت کا حامل ہے۔دوسری طرف، ہم روس سے بھی تعلقات بہتر بنانے کی کوشش کر رہے ہیں، جس میں کام یابیاں بھی ہوئی ہیں، لیکن اس پیش رفت کو علاقے کے وسیع تر تناظر، خاص طور پر بھارت، روس تعلقات کے پس منظر میں دیکھنا ہوگا۔

اگر مشرقِ وسطیٰ کی بات کی جائے، تو وہاں بھی بہت سے واقعات نے نئی صُورتِ حال پیدا کر دی ہے۔ اسرائیل، عرب تعلقات میں تیزی اور سعودی عرب، ایران کے درمیان بات چیت سے ایک نیا مشرقِ وسطیٰ جنم لے رہا ہے۔پھر یہ کہ امریکا کا دوبارہ ایران نیوکلیئر ڈیل میں شامل ہونا بھی ایک اہم واقعہ ہے۔ ایران نے اِس مرتبہ عالمی طاقتوں کے ساتھ سولو فلائٹ کرنے کی بجائے اپنے ہم سائے عربوں کے تحفّظات بھی دُور کرنے کی کوشش کی۔اگر دیکھا جائے تواِن اقدامات سے آیندہ برسوں میں مشرقِ وسطیٰ کی سیاست یک سر تبدیل ہوجائے گی۔یہی وجہ ہے کہ تُرکی نے بھی سعودی عرب سے تعلقات بہتر کرنے کی کوششیں شروع کردی ہیں۔ 

صدر اردوان اگلے ماہ ریاض کا دورہ کریں گے اور وہاں کی اعلیٰ قیادت سے مل کر بہت سے معاملات سُلجھانے کی تدابیر کریں گے، جو کچھ عرصے سے خاصے اُلجھے ہوئے ہیں۔ اس نئے منظر نامے کا ایک نتیجہ یہ بھی نکلے گا کہ مشرقِ وسطیٰ میں مختلف مُمالک کے درمیان بالادستی کی دوڑ ختم ہوجائے گی، جس سے ایک دوسرے کے خلاف شکایات میں کمی آئے گی اور اگر شکایات ہوں گی بھی، تو براہِ راست بات چیت سے اُن کا ازالہ ممکن ہوسکے گا، جس سے تنائو کم ہوجائے گا۔انہی تبدیلیوں کے ذریعے فلسطین اور یمن جیسے تنازعات بھی کسی حل کی طرف بڑھیں گے۔

علاقائی طاقتوں کے آپس میں ہم آہنگ ہونے کی وجہ سے بڑی طاقتوں کی فوجی مداخلت کے امکانات کم سے کم ہوتے جائیں گے۔علاقائی فورمز تشکیل پائیں گے، جہاں اقتصادی تعاون پر بات ہوگی۔اِن دنوں مشرقِ وسطیٰ کے تمام ممالک تیل کی قیمتوں کی وجہ سے شدید دبائو میں ہیں۔ اُن کی خوش حالی اور ترقّی خطرے میں ہے۔ ان مُمالک میں سعودی عرب، ایران اور قطر بھی شامل ہیں۔ نیز، تُرکی بھی دو برسوں سے معاشی مشکلات سے گزر رہا ہے۔اُس کی کرنسی بھی ہچکولے کھاتی رہی ہے۔اِن حالات نے صدر اردوان کو اپنا گھر درست رکھنے کی پالیسی اختیار کرنے پر مجبور کیا، اس سے پہلے کہ وہ خارجہ اُمور میں پیش قدمی کریں۔

تُرکی کی گزشتہ برسوں میں سعودی عرب سے برآمدات میں نمایاں کمی دیکھی گئی۔خطّے میں نئے تشکیل پانے والے نظام کا تعلق براہِ راست معیشت سے ہے۔ اب تمام ممالک اسی کو اپنی پالیسی گائیڈ لائن بنا چُکے ہیں۔ تعلقات میں کمی یا گرم جوشی کا بنیادی محور یہی ہوگا کہ کس سے کتنا فائدہ پہنچ سکتا ہے؟خالی خولی دوستی، بھائی چارے اور برادر مُلک کے دعوے بیانات کی حد تک تو چلتے رہیں گے، لیکن اُن کا ٹھوس پالیسی معاملات سے شاید ہی کوئی تعلق ہو۔

پاکستان کے مشرقِ وسطیٰ کے مُمالک سے بہت ہی قریبی روابط ہیں، بلکہ اُسے اکثر تعلقات میں توازن قائم رکھنے کے لیے مشکل صُورتِ حال سے بھی گزرنا پڑتا ہے، کیوں کہ اُس کی ہمیشہ سے یہی خواہش رہی ہے کہ وہ خطّے میں پوری قوّت سے موجود رہے۔ تاہم، اس کی ایک ٹھوس وجہ اقتصادی معاملہ بھی ہے۔وہ کہ پاکستانی تارکینِ وطن میں سے ستّر فی صد عرب ممالک میں ملازمت کرتے ہیں، جو زرِ مبادلہ کا سب سے بڑا ذریعہ ہیں۔ حکومتی ذرایع کے مطابق،وہ تارکینِ وطن 30 ارب ڈالرز تک مُلک میں بھیجتے ہیں۔

اِن حالات میں پاکستان کو غور کرنا ہوگا کہ اُس کی پالیسی کا مرکز کیا ہو۔ ہم جن معاشی مشکلات سے دوچار ہیں اور ہمارے اطراف معاشی مقابلے کا جو رُجحان بنتا جا رہا ہے، اُس میں ہمیں بھی اپنی اقتصادی پالیسی کو ہر پالیسی پر فوقیت دینی ہوگی، کیوں کہ آخر ہم کب تک قرضوں اور بیرونی امداد پر گزارہ کرتے رہیں گے؟

عوام کو سہولتوں کی فراہمی حکومت کی بنیادی ذمّے داری ہے، باقی معاملات ثانوی ہیں۔ منہگائی نے عوام کی کمر توڑ ڈالی ہے اور اُنھیں کچھ سمجھ نہیں آرہا کہ کس سے فریاد کریں اور کب تک’’ جلد بہتری‘‘ کے وعدوں پر زندگی گزاریں؟وہ یہ بھی سوچتے ہیں کہ کیا خراب حالات چند اشخاص کی کرپشن کی وجہ سے ہیں، جیسا کہ موجودہ حکومت ساڑھے تین سال سے دعویٰ کر رہی ہے یا ہماری بنیادی پالیسیز ہی میں کوئی خرابی ہے؟ کیا ہم ابھی تک اپنی درست ترجیحات طے نہیں کر پائے کہ بائیس کروڑ آبادی کے مُلک کو کیسے چلایا جائے؟نعرے، بیانات اور سہانے خواب تو بہت ہیں، لیکن اُن کی تعبیر دُور دُور تک نظر نہیں آتی۔

سنڈے میگزین سے مزید