• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اچھی حکمرانی کا سب سے بڑا وصف حکمرانوں ، عوام کے نمائندوں اور سرکاری حکام کا عوام کی بات سننے اور اُن تک اپنی بات پہنچانے کے لیے دستیاب رہنا ہے۔ آج کے حالات میں سادہ سوال یہ ہے کہ کیا گیارہ مئی کے انتخابات کے بعد قائم ہونے والی مرکزی اور صوبائی حکومتوں کے والی موالی عام آدمی کو دستیاب ہیں۔ عوام ہماری طاقت کا سرچشمہ ہیں اور اُن کی تقدیر بدل دینے کے نعرہ باز سیاست دان  اِن دنوں منہ چھپائے پھرتے ہیں کہ اُن کا حقائق سے آنکھیں چار کرنے کا حوصلہ اُکھڑتا جا رہا ہے اور اُن کی عملی زندگی اُن کے دلکش وعدوں کی نفی کر رہی ہے۔ عوام تک پہنچنے کے دو ہی معروف راستے ہیں  ایک سیاسی جماعتیں اور دوسرا ابلاغِ عامہ کے ذرائع۔ مسلم لیگ نون کی طرح پیپلز پارٹی اور تحریکِ انصاف بھی عام لوگوں کے اندر اپنا اثرونفوذ کھوتی جا رہی ہیں۔ وزیراعظم نوازشریف اور وزیراعلیٰ پنجاب شہبازشریف اپنی جماعت کے مرکزی اور صوبائی صدر ہیں اور انتخابات سے پہلے محترمہ مریم نواز خواتین اور نوجوانوں میں بے حد سرگرم تھیں اور نئی نسل میں ولولہٴ تازہ اُبھارنے کا محرک بنی تھیں۔ اب یہ تینوں شخصیتیں سیاسی قائدین کے طور پر اپنا وجود قائم رکھنے میں بہت کم دلچسپی لے رہی ہیں۔ یہی حال پیپلز پارٹی کا ہے جو عام انتخابات میں بھی قیادت سے محروم تھی اور آج بھی وہ میرِ کارواں سے محروم چلی آ رہی ہے۔ صوبوں میں تو اِس کی کوئی قابلِ ذکر شخصیت نظر ہی نہیں آتی۔ تحریکِ انصاف کی قیادت نے اپنے آپ کو ایک تماشہ بنا رکھا ہے اور اِس اصولی فیصلے کے باوجود کہ حکومتی اور پارٹی عہدے الگ الگ کر دیے جائیں گے  ایک ایسی کھچڑی پک رہی ہے جس میں سیاسی جماعت کا کردار دن بدن زوال پذیر ہے۔
مزید پریشان کن بات یہ کہ سیاسی جماعتیں جدید اصولوں اور سائنٹفک بنیادوں کے بجائے قبائلی اور شخصی انداز میں چلائی جا رہی ہیں۔ ضمنی انتخابات میں اُمیدواروں کو جس بے ہنگم طریقے سے ٹکٹ دیے گئے  اُس نے فیصلہ سازی کے ادارے کا سارابھرم کھول دیا ہے۔ باقاعدہ مشاورت اور غوروخوض کے بغیر ایک حلقے میں نہایت بے ڈھنگے پن سے چار بار اُمیدوار تبدیل کیے گئے اور تحریکِ انصاف کے چیئرمین جناب عمران خاں نے پشاور کے نہایت اہم حلقے میں ایک منجھے ہوئے سیاست دان کے مقابلے میں ایک انتہائی غیر معروف شخص کو ٹکٹ دے دیا۔ اسلام آباد کے انتخابی حلقے میں مسلم لیگ نون کے پارلیمانی بورڈ نے اپنی جماعت کے قومی سطح پر معروف اور وفاداری اور ایثار کی درخشندہ روایات کے حامل جناب صدیق الفاروق کو ٹکٹ دینے کے بجائے ایک ایسے وکیل کو میدان میں لا کھڑا کیا جس نے چند ہفتے پہلے ہی مسلم لیگ نون میں شمولیت اختیار کی تھی اور قومی سطح پر اُن کی کوئی شناخت بھی نہیں تھی۔ اِن غیر دانش مندانہ رویوں سے پارٹی کے وفادار کارکنوں کی حوصلہ شکنی ہوئی اور اُن کے اِس احساس کو شدید ضعف پہنچا ہے کہ اِن کی اپنی حکومت قائم ہے اور اِس کے حق میں اُنہیں رائے عامہ ہموار کرتے رہنا ہے۔ سیاسی قائدین جو اب ماشاء الله وزارتی عہدے سنبھالے ہوئے ہیں  اُن کے پاس سیاسی کارکنوں کی تنظیم اور سیاسی تربیت کے لیے وقت ہی نہیں اور سیکورٹی کے خدشات نے اُنہیں اپنی خواہشات کی پناہ گاہوں میں تقریباً قید کر دیا ہے۔ دکھ کی بات یہ کہ وزیراعظم پبلک آفس جہاں سے قوم کو تازہ ترین حالات میں سیاسی راہنمائی ملنی چاہیے تھی  وہاں مشاورت کے لیے کوئی جہاں دیدہ  متحرک اور بالغ نظر شخصیت دستیاب ہی نہیں۔ شنید ہے کہ ڈاکٹر آصف کرمانی وزیراعظم کے پولیٹیکل سیکرٹری ہیں جن کو عملی سیاست کا سرے سے کوئی تجربہ ہی نہیں۔
باعث ِحیرت امر یہ بھی ہے کہ وزیراعظم ہاوٴس اور وزیراعظم پبلک آفس میں کوئی ایسی بلند قامت شخصیت نظر نہیں آتی جو میڈیا کو خوش اسلوبی اور کمال حکمت ِعملی سے ہینڈل کر سکے۔ وہاں اِن دنوں غلام محی الدین وانی جائنٹ سیکرٹری ہیں۔ چارج سنبھالتے ہی وزیراعظم کے پریس سیکرٹری جناب شفقت جلیل فارغ کر دیے گئے جو تعلقات بنانے کے فن میں زبردست شہرت رکھتے ہیں  چنانچہ اب وانی صاحب ہی پریس کے معاملات دیکھتے ہیں۔ اِس سے پہلے وہ پنجاب میں کئی سال سیکرٹری اطلاعات رہے  مگر وہ میڈیا سے قابلِ رشک تعلقات بنانے میں کم ہی کامیاب ہوئے تھے۔ وزیراعظم پبلک آفس کے دوسرے سینئر افسر جناب فواد حسن ہیں جو بہت ساری خوبیوں کے باوجود انسانی عزتِ نفس کا خیال نہیں رکھتے۔ وہ جب پنجاب میں محکمہٴ صحت کے سیکرٹری تھے  تو ڈاکٹر صاحبان کے ساتھ ایسا درشت رویہ اختیار کیا کہ اُن کی ہڑتال پورے صوبے میں پھیل گئی اور وزیراعلیٰ شہباز شریف کو اپنا دورہ مختصر کر کے لندن سے لاہور آنا  معاملات اپنے ہاتھ میں لینا اورجناب فواد حسن کو سیکرٹری شپ سے فارغ کرنا پڑا۔ غالباً اِسی بنیاد پر جناب محی الدین وانی بھی سیکرٹری اطلاعات کے منصب سے ہٹائے گئے تھے۔ اب یہ دونوں اعلیٰ افسر جناب وزیراعظم کے دست و بازو ہیں اور ڈر یہ ہے کہ اُن کی میڈیا سے بیزاری حکومت کو مزید الگ تھلگ نہ کر ڈالے۔ ہم دیکھ رہے ہیں کہ نوازشریف ہر ہفتے دو روز کے لیے لاہور آتے ہیں  مگر میڈیا سے اُن کا میل ملاپ نہیں ہو رہا  حالانکہ جب سابق وزیراعظم سید یوسف رضاگیلانی ہفتے اور اتوار کے روز لاہور میں قیام کرتے تھے  تو بالالتزام سینئر صحافیوں اور اینکر پرسنز سے بے تکلف ملاقاتوں کا سلسلہ جاری رکھتے تھے۔
میڈیا پر حکومت کی کارکردگی کا نقش جمانا بنیادی طور پر وزارتِ اطلاعات و نشریات کی ذمے داری ہے جس کا قلمدان جناب پرویز رشید کے پا س ہے۔ وہ ایک دھیمے اور ٹھنڈے مزاج کے آزمودہ کار سیاست دان اور ابلاغیات کے رمز شناس ہیں  مگر حکومت کے ترجمان ہونے کی حیثیت سے اُنہیں زیادہ وقت وزیراعظم کے ساتھ رہنے اور سیاسی مسائل کی گتھیاں سلجھانے کے لیے دینا پڑتا ہے  اِس لیے وہ پی ٹی وی پر کماحقہ توجہ دے رہے ہیں نہ ریڈیو پاکستان کی عظیم الشان ایمپائر پر۔ اخبارات اور الیکٹرانک میڈیا تک بروقت اطلاعات پہنچانے اور اُن کے ساتھ خوشگوار تعلقات رکھنے کے لیے اُنہیں ایک وزیرِ مملکت کی ضرورت ہے۔ جناب طارق عظیم جو ایک زمانے میں اطلاعات کے وزیرِ مملکت رہے اور اُنہوں نے انتخابات کے زمانے میں قومی اور بین الاقوامی میڈیا کو بڑی عمدگی سے ہینڈل کیا  جناب وزیراعظم کو اُن کی خدمات سے فائدہ اُٹھانا چاہیے۔ ملک میں اعلیٰ پیشہ وارانہ صلاحیتوں سے مالامال اور افراد بھی موجود ہیں۔
جنرل ضیاء الحق کے اسلوبِ حکمرانی سے بہت اختلاف کیا جا سکتا ہے  مگر اُن کی اِس دوراندیشی اور فراست کو اپنا لینے کی ضرورت ہے کہ وہ ایک وسیع حلقے میں خیرخواہوں کی بات سننے اور اپنی بات اہم حلقوں تک پہنچانے کے لیے دستیاب رہتے تھے۔ رات آٹھ بجے کے بعد اہم بات پہنچانے کے لیے اُنہیں ٹیلی فون کیا جا سکتا تھا جس کے جواب میں اُسی رات یا دوسری رات اُن کا فون آجاتا تھا۔ اِس طرح یہ احساس رہتا تھا کہ وہ آپ کی دسترس میں ہیں اور اُن تک عوامی احساسات پہنچائے جا سکتے ہیں۔ اب ایم پی ایز  ایم این ایز  وزرائے کرام اور وزرائے اعلیٰ کو اپنے ٹیلی فون کھلے رکھنے اور عوام کے ساتھ رابطے بڑھانے چاہئیں۔ اِسی طرح وزیراعظم کو بھی بیوروکریسی کے حصار سے نکل کر ایسے انتظامات کرنے چاہئیں کہ وہ اِس انتہائی سادہ سوال کا مثبت جواب دے سکیں کہ کیاوہ اپنے خیر خواہوں کی بات سننے اور اُن تک اپنی بات پہنچانے کے لیے دستیاب ہیں۔
تازہ ترین