• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

(گزشتہ سے پیوستہ) 


رابرٹس کلب اور ماضی کے رابرٹس انسٹیٹیوٹ کے تاریخی ریکارڈ کو موجودہ خوبصورت لائبریری کی صورت دینے کا سہرا سابق ایڈیشنل آئی جی ناصر خان درانی مرحوم ( کے پی کے معروف آئی جی) کے سر جاتا ہے۔ یہ 142سالہ قدیم ریکارڈ آج جس انداز میں رکھا گیا ہے، ہمیں دیکھ کر بہت حیرت ہوئی، ہم نے کئی الماریاں کھول کر دیکھیں اور کئی رپورٹس پڑھیں۔ اللہ تعالی کی ذات پاک ناصر خان درانی کے درجات بلند فرمائے اور انہیں جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا کرے، آمین! ہمارے تو وہ کلاس فیلو بھی تھے۔ رابرٹس کلب کی تاریخی عمارت کو بڑے بےڈھنگے انداز میں تباہ و برباد کردیا گیا حالانکہ اگر اُس وقت کی حکومت تھوڑی بہت سمجھداری دکھاتی تو اس رابرٹس کلب کے سامنے گورنمنٹ کالج لاہور کا بےبی گراؤنڈ (کرکٹ گراؤنڈ) اور کچھ فاصلے پر یونیورسٹی کا گراؤنڈ تھا۔ اس سارے علاقے کو خوبصورت اسپورٹ کمپلیکس میں تبدیل کیا جا سکتا تھا۔ رابرٹس کلب کے ساتھ بڑا وسیع ٹینس کورٹ موجود تھا مگر ماضی کی کئی حکومتوں خصوصاً شہباز شریف نے جس بھونڈے انداز سے لاہور شہر کے تاریخی، تہذیبی اور ثقافتی حسن کو تباہ کیا، وہ تاریخ میں اچھے الفاظ سے یاد نہیں کیا جائے گا۔ دکھ اور افسوس کی بات یہ ہے کہ شہباز شریف اور نواز شریف دونوں لاہوریے تھے حالانکہ آئے تو وہ امرتسر سے تھے مگر لاہور کو لوہے، سریے، ریت اور سیمنٹ کا ایک بدشکل شہر بنا دیا۔ اس اورنج ٹرین اور میٹرو بس نے پورے لاہور شہر کی خوبصورتی کو تباہ و برباد کر دیا ہے۔ رابرٹس کلب میں DSRیعنی Daily Situation Report کے مطابق برطانوی پنجاب کی حدود شملہ اور چندی گڑھ تک تھیں۔ اور گوروں کے زمانے میں پنجاب کا رقبہ 97209مربع میل تک پھیلا ہوا تھا۔ اتنا بڑا صوبہ پورے ہندوستان میں شاید ہی کوئی ہو مگر نظامِ پولیس، نظامِ عدل و قانون کی پاسداری اور ایڈمنسٹریشن کمال کی تھی۔ آج ہم ایک مری میں ایڈمنسٹریشن نہیں سنبھال پا رہے۔ دوسری طرف انگریز بہادر لاہور میں بیٹھ کر چندی گڑھ، شملہ اور ڈیرہ غازی خان تک ایڈمنسٹریشن چلا رہا تھا۔ اس زما نے میں کوئی موبائل فون نہیں تھا اور کوئی وڈیو لنک میٹنگز نہیں ہوتی تھیں۔ انگریز کے دور میں میٹنگز تو برائے نام تھیں۔ آج سارا دن دفتر لاٹ صاحب میں تمام افسر سارا دن میٹنگ میٹنگ کھیلتے رہتے ہیں اور عوام سڑکوں پر ذلیل ہوتے رہتے ہیں، اسی پنجاب کے پانچ ڈویژنوں میں 29اضلاع شامل تھے اور ہر اہم سیاسی، مذہبی اور دیگر صورت حال کا روزانہ کی بنیاد پر جائزہ لے کر رپورٹ تیار کی جاتی تھی۔ انگریز سرکار نے یہاں حکومت درست معلومات اور انصاف کی بنیاد پر کی تھی۔ رابر ٹس کلب کے اس خوب صورت ہال میں جہاں ہم بڑی دیر تک کھڑے ماضی کے واقعات کو اپنے تصور میں سوچتے رہے، اس تاریخی ہال کے اندر جہاں کبھی ڈانس ہوتا تھا، تاش کھیلی جاتی تھی۔ آج برطانوی پنجاب اور موجودہ پاکستان کے صوبہ پنجاب کی سیاسی سماجی مذہبی اور دیگر معلومات پر مبنی ایک ایسا خزانہ ہمارے سامنے پڑا تھا کہ اگر کوئی ریسرچ کرنے والا ہو تو دنیا کی بہترین کتاب لکھی جا سکتی ہے مگر آج لائبریری میں کوئی نہیں سوائے عملے کے افراد کے۔

یہاں موجود رپورٹوں میں حکومت کے باغیوں کے نام اور ان کی سرگرمیاں بھی بیان کی گئی تھیں، جرائم پیشہ افراد کا احوال بھی ہے، اخبارات کے مضامین اور اشتہارات کا بھی ذکر ہے۔ سی آئی ڈی ان تمام رپورٹوں کا ایک خلاصہ بنا کر گورنر چیف کمشنر اور صوبہ پنجاب کے تمام سیکرٹریوں کو بھی بھیجتی تھی۔ سی آئی ڈی کے اس دفتر میں معلومات کا ایک ایسا خزانہ ہے جس سے لاہوریے بےخبر ہیں۔ کاش پنجاب یونیورسٹی اور گورنمنٹ کالج کے طلبا اس پر ریسرچ کریں تو اس دور کی تہذیبی، ثقافتی اور تاریخی معلومات شہر لاہور اور پنجاب کی صورت حال سامنے آجائے گی۔ لاہور میں برصغیر کا قدیم ترین اور لاہور کا پہلا تھانہ آج بھی کافی حد تک اپنی اصل شکل میں موجود ہے۔ ویسے تو بھاٹی گیٹ چوکی اور کوتوال بھی اپنی انتہائی پرانی عمارت میں قائم ہے۔ یہ تھانہ 1860میں قائم ہوا تھا، اس کی عمارت پر آج بھی اس کی تاریخ درج ہے۔

اس تاریخی تھانے میں غازی علم الدین شہید، راج گرو، سکھ دیو اور بھگت سنگھ کے مقدمات کے ریکارڈ آج بھی محفوظ ہیں۔ اس تھانے میں غالباً فارسی اور گور مکھی زبان میں پہلی ایف آئی آر درج ہوئی جو آج بھی یہاں ہے۔ یہ بڑی دلچسپ حقیقت ہے کہ پرانی انارکلی سے دفتر لاٹ صاحب تک چرچ روڈ اور لاج روڈ پر جس قدر تاریخی عمارتیں ہیں، وہ لاہور کی کسی اور سڑک پر نہیں۔ تھانہ انارکلی اور آئی جی آفس دونوں مغلیہ دور کی تعمیرات ہیں، لاہور کا پہلا چرچ بھی دفتر لاٹ صاحب میں تھا جس کی بنا پر اس کو چرچ روڈ کہتے ہیں، لاہور میں پہلی صلیب بھی مقبرہ انار کلی میں نصب کی گئی تھی، وہ جو آج بھی محفوظ ہے اور اب کیتھڈرل چرچ میںنصب کر دی گئی ہے۔ تھانہ انار کلی 1860میں قائم کیا گیا تھا جبکہ 1861میں پولیس ایکٹ نافذ کیا گیا تھا، آج بھی اس تھانے میں پہلی ایف آئی آر نہ صرف محفوظ ہے بلکہ اس کی لکھائی بھی بڑی واضح اور روشنائی بھی بالکل صاف ہے۔ اس تھانے میں 162سال کا ریکارڈ آج بھی موجود ہے۔ تاریخ میں درج ہے کہ تھانہ انارکلی کی جگہ مغل بادشاہ جہانگیر کی بیوی نور جہاں کے والد مرزا غیاث الدین کی تھی جو انہوں نے فوج کو دی تھی۔ (جاری ہے)

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین