امریکہ کی سابق خاتون اول آج کل انتخابی میدان میں مصروف ہیں اور امریکی صدارت کا الیکشن لڑ رہی ہیں۔ انہیں انتخابی میدان میں وہی مشکلات پیش ہیں اور انہی قوانین کا سامنا ہے جو ایک عام آدمی کو پیش آسکتے ہیں۔ وہ پبلک جلسوں سے خطاب کر رہی ہیں، انہیں انہی سوالات کا سامنا ہے جو ان کے شوہر کی پالیسیوں کی وجہ سے پیدا ہوئے وہ بین الاقوامی امور اور خارجہ پالیسی جیسے مسائل اور مشکلات کا جواب بھی جلسوں میں دے رہی ہیں۔ امریکہ جو بین الاقوامی معاملات میں سپر پاور کی حیثیت رکھتا ہے اور مملکتوںکے مشکل تعلقات کو بہتر انداز میں سمجھتا ہے۔ امریکی صدارتی امیدواروں سے لوگ اپنے سوالات کا جواب بھی چاہتے ہیں، امریکی صدر بین الاقوامی تعلقات میں ہمیشہ فیصلہ کن کردار کرتا ہے یہ بات قابل ذکر ہے کہ امریکہ کے صدارتی انتخابات میں جو بھی امیدوار ہومرد یا خاتون ۔الیکشن قوانین کی جس طرح پابندی کرائی جاتی ہے اور کرائی جارہی ہے وہ قابل ستائش ہے۔ ہمارے یہاں اس کا تصور بھی ناپیدہے۔ ہمارے ہاں بھی صدارتی انتخابات ہوئے محترمہ فاطمہ جناح قائد اعظم محمد علی جناح کی ہمشیرہ تھیں اور فیلڈ مارشل ایوب خان جو اس وقت صدر مملکت تھے، ان دونوں کے درمیان مقابلہ تھا، مشرقی اور مغربی پاکستان میں اسی ہزار بنیادی جمہوریت کے اراکین کو ووٹ کا حق حاصل تھا، میں نے قائد اعظم کی ہمشیرہ کو جن مشکلات کا سامنا تھا انہیں اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے۔ ایوب خان طاقت کے زور پر اقتدار میں آئے تھے، ان کو انتخاب میں حصہ لینے میں بہت سی آسانیاں حاصل تھیں، جبکہ قائد کی ہمشیرہ فاطمہ جناح کو بے حد مشکلات کا سامنا تھا، قائد کی ہمشیرہ جب پبلک جلسوں میں خطاب کےلئے آتی تھیں تو ان کے حمایت یافتہ سیاسی کارکنوں کو بے حد مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ، آرمی سٹیڈیم میں ایوب خان اور قائد اعظم کی ہمشیرہ محترمہ فاطمہ جناح کو خطاب کی دعوت دی گئی جہاں ایوب خان کے ساتھیوں اور حمایت یافتہ افراد کو پوری رعایتیںحاصل تھیں۔وہاں قائد کی ہمشیرہ فاطمہ جناح کے ساتھیوں کو قدم قدم پر مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ اس جلسے میں صرف بیسک ڈیمو کریٹ کے اراکین کو بلا یا گیا تھا میں بھی ان میں تھا، قائد کی ہمشیرہ کے حامیوں کو نظر بند کر دیا گیا ہمیں ایک اعلیٰ افسر نے یہ کہا کہ تم خواہ مخواہ ’’جھک ‘‘ مار رہے ہو۔ ایوب خان نکو جیت جانا ہے اور واقعی جب مشرقی پاکستان کے ایک ضلع کا پہلا انتخابی نتیجہ آیا تو ایوب خان جیت گیا تھا اور ہمیں یقین ہوگیا کہ ہم ہار چکے ہیںجبکہ شیخ مجیب الرحمٰن اور ان کے رفقا کار بھی مکمل طور پر فاطمہ جناح کے ساتھ تھے، پاکستان کی تاریخ انتخابی معاملات میں بے حد مایوس کن رہی ہے۔ مگر اب بھی ہم نے اپنے انتخابی معاملات کو شفاف نہ بنایا، تو پاکستان اور جمہوریت کا چلنا مشکل ہوجائے گا۔ہوش کیجئے۔