• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اسمال اینڈ میڈیم انٹرپرائزز سیکٹر (ایس ایم ای) کسی بھی ملک کی ترقی میں انتہائی اہم کر دار ادا کرتا ہے۔ دنیا میں اس وقت جتنے بھی ترقی یافتہ ممالک ہیں ان کی یہ ترقی 'ایس ایم ای سیکٹر کو فروغ دینے سے ہی ممکن ہوئی۔ پاکستان میں کہنے کی حد تک اس حوالے سے ماضی میں ہر حکومت نے بلند بانگ دعوے اور اعلانات تو ضرور کئے لیکن کسی نے اس سیکٹر کو درپیش مسائل حل کرنے اور چھوٹے ودرمیانے درجے کے کاروباری اداروں کو فروغ دینے کے لیے طویل المدتی پالیسی تشکیل نہیں دی۔ ماضی کی اس روش کے برخلاف تحریک انصاف کی حکومت نے نہ صرف ایس ایم ای پالیسی تشکیل دے کر وفاقی کابینہ سے اس کی منظوری حاصل کی بلکہ وزیر اعظم پاکستان عمران خان نے اس پالیسی کو باقاعدہ طور پر لانچ کر کے اس پر عملدرآمد کا آغاز بھی کر دیا ہے۔ قبل ازیں تحریکِ انصاف کی حکومت صنعت وتجارت اور سرمایہ کاری کے فروغ کی خاطر اہم قانونی اصلاحات متعارف کروا چکی ہے جس کی وجہ سے عالمی بینک کے کاروبار میں آسانیوں سے متعلق انڈیکس میں پاکستان 136ویں سے 108ویں نمبر پر آ چکا ہے۔ علاوہ ازیں کورونا کی وبا کے باعث معیشت کو پہنچنے والے نقصانات پر قابو پانے اور صنعتی و تجارتی اداروں کی معاونت کے لیے گزشتہ ڈیڑھ برس کے دوران 12 کھرب روپے معاشی بحالی پیکیج کے ذریعے فراہم کئے گئے ہیں جس کے اثرات اب ترقی کی شرح پانچ فیصد سے زیادہ ہونے کی شکل میں سامنے آنا شروع ہو گئے ہیں۔ واضح رہے کہ پاکستان میں چھوٹے اور درمیانے درجے کے تجارتی و صنعتی اداروں کی تعداد 50 لاکھ سے زیادہ ہے جبکہ مینوفیکچرنگ سیکٹر میں 'ایس ایم ایز کا شیئر 90 فیصد سے زائد ہے۔ علاوہ ازیں یہ سیکٹر جی ڈی پی میں 40 فیصد اور کل برآمدات میں 25 فیصد حصہ ڈالتا ہے۔ اسی طرح ٹیکسٹائل، لیدر، جوتا سازی، آلات جراحی، کھیلوں اور انجینئرنگ کی مصنوعات تیار کرنے والے زیادہ تر ادارے یا کاروبار بھی اسی کیٹیگری میں آتے ہیں۔ یہ سیکٹر روزگار کی فراہمی اور کاروباری سرگرمیوں کے فروغ میں اہم کردار ادا کر رہا ہے۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو اس شعبے کو بینکوں کی مالی اعانت کا ایک بڑا حصہ ملنا چاہیے لیکن اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی ایک رپورٹ کے مطابق بینکوں کی جانب سے نجی شعبے کو کاروبار کے لیے دیئے جانے والے قرضوں میں ایس ایم ای سیکٹر کو دیے جانے والے قرضوں کی شرح آٹھ فیصد سے بھی کم ہے۔ اسی بات کو مدنظر رکھتے ہوئے حکومت نے چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروباری اداروں کی مالیاتی وسائل تک رسائی بڑھانے کے لیے مراعات، محصولات کے سادہ قوانین اور دیگر قواعد وضوابط کو آسان بنانے کے لیے 'ایس ایم ای پالیسی متعارف کروائی ہے۔نئی ایس ایم ای پالیسی کے تحت بینک کم از کم 30 ہزار چھوٹے و درمیانے درجے کے کاروباری اداروں کو نو فیصد کی رعایتی شرح سود پر ایک کروڑ روپے فی کس تک کے ضمانتی قرضے فراہم کریں گے۔ اس کے علاوہ خسارے میں چلنے والی ایس ایم ایز کی بحالی کے لیے 23.5 ارب روپے کا فنڈ مختص کیا گیا ہے۔ اس پالیسی کے تحت انفارمیشن ٹیکنالوجی کے شعبے سمیت چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروباری اداروں کو سرمایہ کاری کے حصول میں آسانی فراہم کرنے کے لیے 'وینچر کیپٹل کے ضوابط کو بھی آسان کیا جائے گا۔ نئی ایس ایم ای پالیسی کے تحت چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروباری افراد کو آسان اقساط پر 42 ہزار ایکڑ پر مشتمل 19 ہزار 500 پلاٹ بھی فراہم کئے جائیں گے۔ اس سلسلے میں مزید یہ کیا جا سکتا ہے کہ اس کا بڑا حصہ ان ایس ایم ایز کو دیا جائے جن کے مستقبل میں ترقی کے امکانات زیادہ ہیں جیسا کہ ایگریکلچر انوویشنز، انفارمیشن ٹیکنالوجی، آٹوموبائلز اور موبائل فون مینو فیکچرنگ وغیرہ۔ اس پالیسی کی ایک اور اہم خوبی خواتین کی زیر قیادت کام کرنے والے چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروباری اداروں کی خصوصی سپورٹ ہے۔ ایسے اداروں کو دیگر مراعات کے علاوہ ٹیکس میں بھی 25 فیصد چھوٹ دی گئی ہے۔ پاکستان میں چھوٹے کاروباری اداروں کو اپنے کاروبار کے فروغ کے حوالے سے جن مشکلات کا سامنا ہے ان میں سب سے بڑی مشکل کمرشل بینکوں سے قرضوں کا حصول ہی ہے۔ اس کے برعکس امریکہ کی سلیکون ویلی کی مثال دیکھیں تو پتہ چلتا ہے کہ وہاں نہ صرف حکومت اور کاروباری اداروں نے چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروباری اداروں اور نئے کاروباری آئیڈیاز پیش کرنے والے نوجوانوں کے خیالات کو عملی جامہ پہنانے کے لیے سرمایہ فراہم کیا بلکہ نجی سرمایہ کاروں کی سرمایہ کاری کی بدولت امریکہ کئی عشرے قبل ٹیکنالوجی کا انقلاب برپا کر کے ترقی کی دوڑ میں سب سے آگے نکل چکا ہے۔ اس حوالے سے خوش آئند بات یہ ہے کہ پاکستان میں بھی اب اس طرز پر نئے کاروباری آئیڈیاز پیش کرنے والے نوجوانوں اور چھوٹے و درمیانے درجے کے کاروباری اداروں کو بیرونی سرمایہ کاروں سے سرمایہ کاری حاصل ہونا شروع ہو گئی ہے۔ اس طرح ملکی سطح پر گاڑیوں کی صنعت کو فروغ دینے اور ان کی برآمد میں اضافے کے لیے مراعات پر مشتمل نئی آٹوموبائل پالیسی تشکیل دی جا رہی ہے۔ پاکستان سے ٹریکٹر اور موٹرسائیکل بالخصوص برقی موٹرسائیکلیں برآمد کرنے کے وسیع امکانات موجود ہیں۔ حکومت کو غیر ملکی سرمایہ کاری سے متعلق پالیسی میں برآمدی شعبوں اور ٹیکنالوجی پر مرکوز شعبوں پر خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ اس حوالے سے گزشتہ سال متعارف کروائی گئی موبائل مینوفیکچرنگ پالیسی ایک اہم مثال ہے۔ اس اقدام کے ذریعے نہ صرف پاکستان میں موبائل فونز کی تیاری اور اسمبلنگ شروع ہو چکی ہے بلکہ رواں مالی سال کے پہلے چھ ماہ میں پاکستان نے 12.27 ملین اسمارٹ فون مقامی سطح پر تیار کئے جبکہ اسی عرصے کے دوران 8.29 ملین موبائل فون درآمد کئے ہیں۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ موبائل فون انڈسٹری میں پاکستان کی اہم صنعت بننے کی صلاحیت موجود ہے اور یہ ملک کی معاشی ترقی میں نمایاں کردار ادا کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ یہ انڈسٹری مستقبل میں پاکستانی انجینئرز، پروفیشنلز اور تربیت یافتہ ہنرمندوں کے لیے روزگار کے وسیع مواقع مہیا کرنے کی استعداد رکھتی ہے۔

تازہ ترین