• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان میں سرِدست کوئی ایسا سیاسی لیڈر ہے جس کے بارے میں یہ سوچا جا سکے کہ اس کا نظریہ اہم ہے؟ ہمارے سیاسی لوگ عموماً نظریاتی نہیں ہوتے اور اُن کی عام زندگی میں زیادہ فہم و فراست بھی نظر نہیں آتی۔ آج ان سب لوگوں سے پاکستان کے لیے کسی نظام کی بات کریں تو ان کا جواب قابلِ اعتبار نہ ہوگا۔ الزام نہیں، حقیقت ہے کہ ہمارے سیاسی لوگ نظام کے ہاتھوں یرغمال ہیں۔ ان کی اپنی کوئی منشا اور مرضی نہیں، مجھے اس کا خیال کیوں آیا، میں آج کل نارتھ امریکہ یاترا پر ہوں اور بہت سارے صاحبِ کمال لوگوں سے ملنے کا حسنِ اتفاق ہو رہا ہے۔ ان صاحبِ رائے لوگوں میں اتفاق سے میرا بیٹا جنید بھی شامل ہے، چند دن پہلے اس نے مجھ سے پوچھا اگر آپ کو کسی شخص سے ملنے کا موقع ملے تو آپ کس کو ملنا پسند کریں گے؟ مجھے اس کا سوال بالکل نہ بھایا، میں نے کہا عہدِ حاضر کے حالات میں عمران خان سے ملنا پسند کروں گا۔ اس نے میرا جواب سنا اور بولا عمران خان ان دس لوگوں میں شامل نہیں جن سے میں ملنا پسند کرتا ہوں۔ مجھے معلوم ہے کہ وہ کپتان عمران کو پسند کرتا ہے اور وزیراعظم عمران پہ تنقید کرتا ہے، اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ ہمیں صرف ان باتوں کا اظہار کرنا چاہیے جو حق اور سچ ہوں، اب لگتا یہ ہے سچ بولنے والا بھی حق پر نہیں ہو سکتا۔

مجھے خیال آیا سچ اور حق میں نظریاتی تصادم رہتا ہے، جیسا کہ جمہور کا سچ ان کا حق نہیں دلوا سکتا آج کے پاکستان میں جو بےیقینی ہے اس کی وجہ بھی سمجھ میں نہیں آتی بقول حضرت غالب؎

صادق ہوں اپنے قول کا غالبؔ خدا گواہ

کہتا ہوں سچ کہ جھوٹ کی عادت نہیں مجھے

کچھ لوگوں کا خیال تھا کہ عمران خان سچ پر ہے اور کرکٹ کے متوالے سمجھتے تھے کہ وہ حق پر ہے۔ ہاں اس نے کبھی ہار نہیں مانی اور مقابلہ جاری رکھا، اب کیا ہوا کہ وہ خوف زدہ سا ہے اور اس کو کہنا پڑا ’’حکومت سے نکلا تو زیادہ خطرناک ہوں گا‘‘۔ میرا خیال ہے کہ اس دفعہ گراؤنڈ مین نے پِچ اُن کی مرضی کی نہیں بنائی اور بتایا یہی کہ پچ بہت فرینڈلی ہے، کچھ لوگ اس میچ کے معاملات کو ایمپائرز کے تناظر میں دیکھتے ہیں۔ سننے میں آیا ہے کہ جہانگیر ترین اور علیم خان نے پی ٹی آئی کی سیاست کے لیے خاصا سرمایہ فراہم کیا تھا مگر دونوں حضرات کو مایوسی اور شرمندگی ہوئی۔ اُن دونوں نے اعلیٰ ظرفی کا مظاہرہ کیا، اب جہانگیر ترین سوچ رہے ہیں کہ ان کو اعلیٰ عدالت کے فیصلہ کے خلاف اپیل کرنی چاہئے۔

پاکستان میں اپوزیشن گزشتہ تین سال سے پی ٹی آئی حکومت کو گرانے کی کوشش میں ہے اور یہ اس کا حق ہے کہ وہ اسمبلی میں حکومتِ وقت کو پریشان رکھے اور وہ خوب کامیاب و کامران ہےلیکن نقصان عمران خان کا ہوا اور نہ ہی اپوزیشن کا، نقصان ہوا تو جمہور کا ہوا۔ان کے حقوق کا ہوا، ملک میں قوانین کے سلسلہ میں توجہ کی ضرورت ہے مگر کپتان عمران خان کے پاس اتنے لوگ نہیں کہ قانون بنائے جا سکیں۔ دوسری طرف قرضوں کے آسیب نے ملکی معیشت کوکمزور کر رکھا ہے اسٹیٹ بینک کے سلسلہ میں حکومتی قانون سازی آئی ایم ایف کے ساتھ کئےگئے وعدوں کی تکمیل ہے ہماری اپوزیشن کا سب سے غیر موثر ہتھیار وہ تنقید ہے جو وہ عسکری انتظامیہ پر کرتی رہی ہے ایسے میں کئی بار این آر او کا تذکرہ بھی ہوا۔ اب جناب اسد عمر فرماتے ہیں کہ سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف کو ملک سے باہر روانہ کرنے میں عمران خان کا کردار ہے ابھی چند دن پہلے ایک امریکی دوست سے بات ہوئی وہ بہت عرصہ تک پاکستان ڈیسک پر کام کرتا رہا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ عمران خان کو کرم فرمائوں نے مشور ہ دیا اور یقین دلایا کہ میاں نواز شریف کو قانونی تقاضوں کے برعکس سہولت دے کر ملک سے باہر جانے دیا جائے۔ عمران خان چاہتے تھے کہ وہ سعودی عرب جائیں مگر دوست برطانیہ کی سفارش کرتے رہے اور یقین دلایا کہ میاں نواز شریف کی روانگی کے بعد ملکی سیاست میں بھونچال کا خطرہ کم ہو جائے گا اور کپتان عمران خان کیلئے عوامی بہبود کے کام کرنے میں آسانی پیدا ہو جائے گی۔ دوستوں کو امریکہ اور برطانیہ نے بتا دیا کہ تمام معاملات آپ کے ساتھ طے ہوں گے اور آپ عمران خان کو یقین دہانی کروائیں گے ،یہ خفیہ معاہدے باہمی رضامندی سے ہوئے، جن کی وجہ سے امریکہ کو افغانستان سے نکلنے میں آسانی رہی اور چین کو بھی اندازہ ہو گیا کہ عمران خان میںدم خم نہیں ہے اور اس نے بھی پاکستان پر توجہ کم کر لی۔ اب دوستوں کوخدشہ ہے کہ عمران ان کے گلے نہ پڑ جائے اس پر کام ہو رہا ہے اور جلد ہی مخلوط سرکار کا فیصلہ ہوسکتا ہے۔ میں نے بڑی غیریقینی سے اس کی بات سنی، مجھے احساس ہو رہا تھا کہ یہ تمام باتیں اتنی خفیہ بھی نہیں کہ ان کا تذکرہ نہ کیا جائے ۔میں نے اپنے امریکی مفکر سے پوچھا کہ ہماری بات چیت آف دی ریکارڈ تو نہیں، وہ مسکرایا اور بولا اٹ از آن دی ریکارڈ اینڈ اوپن انفارمیشن، مجھے اچھا لگا کہ اس نے اس گفتگو کو عام معلوماتی بات چیت کہا۔ عموماً کار سرکار کے لوگ اتنی جلدی اظہار رائے نہیں کرتے ۔ لبِ لباب اس ساری گفتگو کا یہ ہے کہ اس وقت ہمارے معاشرے میں ریاست، سیاست اور عدالت بہت ہی اہم ستون ہیں اور چوتھا ستون ایسا ہے کہ اس پر تنقید اور توجہ بہت ہے اور وہ بھی ان صاحبِ ذوق لوگوں کے اشارے نظرانداز تو نہیں کرتا مگر کچھ دنوں کے بعد صفائی کے تناظر میں بیانیہ ضرور منظر عام پر آجاتا ہے جو جمہوریت کے تناظر میں خاصا مفید رہتا ہے۔ بظاہر تو یہ غیرجانبداری کا نعرہ مستانہ ہوتا ہے مگر باخبر لوگ ہیں اور سب ساتھ چلنے کی کوشش میں خاصے کامیاب بھی ہیں۔

تازہ ترین