پچھلے کچھ دنوں سے مکران اور کراچی کے ساحلوں کو سونامی کے خطرات و خدشات پر مبنی خبریں میڈیا میں مسلسل گردش میں ہیں۔ اس حوالے سے ڈائریکٹر جنرل، محکمۂ موسمیات، محمد ریاض کا ایک بیان بھی سامنے آیا کہ ’’پاکستان کے محکمہ موسمیات نے کئی سال قبل ’’ارلی سونامی وارننگ مرکز‘‘ قائم کیا تھا، جس کے تحت نہ صرف ملک بھر میں آنے والے چھوٹے، بڑے زلزلوں کا ہروقت مشاہدہ کیا جاتا ہے، بلکہ کسی سونامی کی صُورت میں قبل از وقت عوام النّاس اور حکومتی اداروں کو آگاہی بھی فراہم کی جاسکے گی۔
اس مرکز کے تحت مشاہدے کے علاوہ عوام اور مختلف اداروں کو سونامی کے بارے میں معلومات دینے کے لیے مختلف سرگرمیاں بھی کی جاتی ہیں۔ سندھ اور بلوچستان کا ساحل سونامی زون میں آتا ہے اور یہاں سونامی کے خدشے کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ تاہم، یہ کب آسکتا ہے، یہ بتانا ممکن نہیں ہے۔
محکمۂ موسمیات کے پاس ملک بھر میں 20 مراکز کے ساتھ سونامی کی وارننگ جاری کرنے کے لیے ارلی سونامی وارننگ مرکز بھی 24 گھنٹے زلزلوں کی مانیٹرنگ کرتا ہے۔ اس کے علاوہ سونامی آنے کی صورت میں عوام کو آگاہ کرنے کے لیے سندھ اور بلوچستان میں پانچ سائرن ٹاورز لگائے گئے ہیں، تاکہ خدانخواستہ سونامی آنے کی صورت میں سائرن سے آگاہی دی جائے اور لوگ ساحل سے دُور چلے جائیں۔
یہ ٹاورز گوادر، پسنی اور کراچی کے علاقے کیماڑی ٹائون میں سومرا گوٹھ اور ابراہیم حیدری کے قریب ریڑھی گوٹھ میں لگائے گئے ہیں۔‘‘ ماہرین کا خیال ہے کہ مکران کے ساحل پر جو فالٹ لائنز، ارضیاتی دراڑیں یا کھائیاں(Trenches) موجود ہیں، وہ دراصل پلیٹ ٹیکٹونکس کا نتیجہ ہیں۔ پلیٹس ٹیکٹونکس سے مراد قشرِ ارض کا مختلف شکل و صُورت کے حامل ٹکڑوں میں ٹوٹ کر مسلسل حرکت میں رہنا ہے۔
اُن کی یہ حرکت انتہائی ہلکی یعنی تقریباً دو سے تین سینٹی میٹر فی سال ہوا کرتی ہے، جو پچھلے تقریباً3.4بلین سال سے جاری ہے۔ پہلی قسم کی یہ حرکت متغیّر (convergent)کہلاتی ہے، جب دو پلیٹس بحری یا بّری ایک دوسرے کے قریب آتی ہیں۔ بھاری پلیٹ نیچے اور ہلکی پلیٹ اوپر بھی رہ سکتی ہے، جیسا کہ مکران کے ساحل پر ہے۔ دوسری قسم کی حرکت متضاد (divergent)کہلاتی ہے، جس میں دو پلیٹس ایک دوسرے سے دُور ہوجاتی ہیں۔ جب کہ تیسری حرکت ٹرانسفارم(transform) کہلاتی ہے، جس میں دو پلیٹس ایک دوسرے کے مدّمقابل مخالف سمتوں میں حرکت کرتی ہیں۔
بہرحال، ارضیاتی ماہرین کے نزدیک مکران کا ساحلی علاقہ دراصل ایک سبڈکشن زون(subduction zone) میں آتا ہے، جو کہ خلیج عمان کے شمال مشرقی کنارے اور پاکستان میں بلوچستان کے جنوب مغربی ساحل اور ایران کے جنوب مشرقی ساحل کے ساتھ واقع ہے۔ اس علاقے میں عربین ٹیکٹونک پلیٹ کا سمندری قشر (Oceanic crust)آہستہ آہستہ بتدریج یوریشین ٹیکٹونک پلیٹ (Eurasian tectonic plate)کے برّی فرش (continental crust)کے نیچے دبتا چلا جا رہا ہے۔ اس قسم کے دبائو کے نتیجے میں زمین سے بے تحاشا توانائی خارج ہوتی ہے، جو بالآخر زلزلوں کی پیدایش کا سبب بنتی ہے۔ خاص طور پر ایسی صورتِ حال میں جب ایک پلیٹ بحری ہو اور دوسری برّی، تو خطرہ اور بھی زیادہ بڑھ جاتا ہے۔
یہ پورا عمل سمندر کے نیچے وقو ع پذیر ہوتا ہے، اس کے نتیجے میں زلزلے آنے سے جب زمین ہلتی یا اپنی جگہ سے سرکتی ہے، تو دیوہیکل لہریں پیدا ہوتی ہیں، جنہیں سونامی کہا جاتا ہے۔ یہ کس قدر قیامت خیز اور نقصان دہ ہوتی ہیں، اس کا اندازہ ماضی میں جاپان اور انڈونیشیا کے ساحلوں پر آنے والی سونامی کی تباہ کاریوں سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے۔ یاد رہے کہ سونامی عموماً بحرِاوقیانوس کے حلقہ آتش (Pecific Ring of Fire)سے متصل علاقوں میں زیادہ اثر پذیر ہوتا ہے۔
خاص طور پر ان کا خطرہ سبڈکشن زون میں اس وقت زیادہ ہوتا ہے، جب ٹیکٹونک پلیٹ نیچے دب رہی ہوتی ہے۔ اصل میں سمندری قشر بھاری ہونے کی وجہ سے ہلکی برّی پلیٹ کے نیچے دبتے دبتے زیرِ زمین موجود میٹل کے گرم پگھلے معدنی مواد میں شامل ہوجاتا ہے اور پھر کم زور دراڑوں سے آتش فشاں کی شکل میں واپس اوپر آجاتا ہے، جس کے نتیجے میں زلزلے وقوع پزیر ہوتے ہیں اور سونامی بھی جنم لیتا ہے۔
پلیٹوں کا یہ دبائو یا اپنی جگہ سے سرکنا عموماً دو سے پانچ سینٹی میٹر سالانہ تک ریکارڈ کیا گیا ہے۔ اس دوران جیسے جیسے توانائی نیچے بڑھتی جاتی ہے، قرب وجوار کی چٹانیں کم زور ہونا شروع ہوجاتی ہیں اور متواتر زلزلوں کے جھٹکوں کا آغآز ہوجاتا ہے۔ جیسا کہ حال ہی میں گوادر، پسنی اور اورماڑہ کے ساحل اور قرب و جوار میں مشاہدے میں آیا۔ اس علاقے میں سونامی کی تاریخ، قیامِ پاکستان سے قبل کی ہے، تاہم خوش قسمتی سے ہمیں اب تک ایسی سنگین صورتِ حال کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔
ڈائریکٹر جنرل محکمۂ موسمیات، محمّد ریاض نے اس حوالے سے مقامی ہوٹل میں منعقدہ ایک تقریب میں یہ انکشاف کیا کہ ’’کراچی، سندھ اور مکران، بلوچستان کے ساحل پر مقامی سونامی کا خطرہ دن بدن بڑھتا جا رہا ہے، جب کہ پاکستان بین الاقوامی طور پر دوسرے ممالک میں آنے والی سونامی سے بھی شدید متاثر ہوسکتا ہے، کیوں کہ مکران کھائی، جو کہ سبڈکشن زون میں نمایاں ارضیاتی ساخت ہے،2021ء کے دوران مسلسل زلزلائی سرگرمیوں کی زد میں رہی اور خدشہ ہے کہ یہی سرگرمیاں کسی بھی وقت بالآخر ایک دیوہیکل سونامی کا سبب بن سکتی ہیں۔ اس حوالے سے کراچی کے قریب ایک انتہائی حسّاس اور جدید ترین سونامی الارمنگ سسٹم بھی نصب کردیا گیا ہے، جو زیرِ زمین ہونے والی سرگرمیوں کو متواتر ریکارڈ کرکے آنے والے زلزلوں کی مکمل تفصیلات فراہم کرے گا۔تاہم، ساحلی علاقوں میں رہنے والے افراد کو گھبرانے کی ضرورت نہیں، گوادر اور کراچی میں سونامی سے نمٹنے کی مشقیں معمول کا حصّہ ہیں۔‘‘
ایک ریکارڈ کے مطابق کراچی میں 2021ء میں 16جنوری کو 2.9شدّت کا، اگست میں 3.1پھر 8 دسمبر کو4.1اور12 دسمبرکو 3.3شدت کا زلزلہ ریکارڈ ہوا۔ زلزلے کے ان ہی جھٹکوں کو بنیاد بناتے ہوئے متعلقہ ماہرین مستقبل قریب میں مکران اور کراچی کے ساحل پر شدید زلزلے اور اس کے نتیجے میں تشکیل پانے والے تقریباً 12سے15 میٹر بلند سونامی کی پیش گوئی کررہے ہیں۔ واضح رہے کہ2021ء میں آنے والے زلزلوں کا مقام وقوع (Epicenter) کیرتھر، گڈاپ اور تھانہ بولاخان تھا، یہ مقام آج انتہائی گنجان آباد علاقوں پر مشتمل ہے۔
ماضی میں ایک سونامی1945ء میں کراچی کے ساحل سے ٹکرایا تھا، جو ریکٹر اسکیل پر 8شدّت کے مکران میں آنے والے زلزلے کا شاخسانہ تھا۔ اس وقت کراچی میں آبادی بہت کم تھی، مگر اس کے باوجود کراچی، گوادر، ایران اور عمان کے ساحلوں کے قریب مقیم تقریباً 4ہزار افراد ہلاک ہوئے تھے۔ ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں زلزلوں کے وقوع پذیر ہونے کا اوسط دورانیہ تقریباً 33 سال ہے۔ اب اگر خدانخواستہ کوئی سونامی پیدا ہوگا، تو اس کی وجہ سے کم ازکم 8 کی شدّت کا زیرِ سمندر زلزلہ آسکتا ہے، جس کی بلندی ماہرین کے نزدیک 10سے 15میٹر اور ساحل پر پھیلائو کا اثرتقریباً 2سے 5کلو میٹرتک ممکن ہوسکتا ہے۔
سونامی کیا ہوتا ہے اور اس کا زلزلے سے کیا تعلق ہے، تو عام افراد کی معلومات و آگہی کے لیے بتاتے چلیں کہ جب سمندر کی گہرائی میں کوئی زلزلہ 8یا اس سے زیادہ شدّت کا آتا ہے، تو پہلے پانی میں زبردست ہلچل پیدا ہوتی ہے۔ اس کے بعد آہستہ آہستہ بتدریج بلند و بالا، طویل اور دیوہیکل سمندری لہر وجود میں آتی ہے، جو ساحل پر تباہی و بربادی کی وجہ بن جاتی ہے۔ اس بحری دیو قامتی لہر کا اثر گہرے سمندر کی نسبت ساحلِ سمندر یا اتھلے سمندر میں بہت زیادہ ہوتا ہے۔ حیران کُن امَر یہ ہے کہ اس لہر کی عمودی لمبائی ابتدا میں نسبتاً کم اور پھیلائو (Wave lenght)نسبتاً زیادہ ہوتا ہے اور اس کی وجہ سطحِ سمندر کے اوپر چلنے والی تیز ہوائیں ہیں، جو زلزلے سے بننے والی کم بلند لہر کو مزید پھیلا کر اس میں پانی کی بہت زیادہ مقدار شامل کرتی چلی جاتی ہیں، یہ لہر جیسے جیسے ساحل کے قریب ہوتی جاتی ہے، بتدریج اپنے اندر پانی کی بہت بڑی مقدار سمو کر انتہائی بلند اور بہت زیادہ پھیلائو کی حامل ہوتی جاتی ہے۔
تاہم، ساحل کے قریب آتے آتے، اتھلے سمندر میں چوں کہ گہرائی کم ہوتی جاتی ہے، لہٰذا یہاں پانی کی مقدار بھی گہرے سمندر کی نسبت اسے کم ملتی ہے، تو یہ انتہائی تیزی سے ساحل کا سارا پانی کھینچ کر اپنے اندر سمو لیتی ہے اور پھر تقریباً20سے30منٹ بعد پوری قوت اور طاقت سے ساحل سے ٹکراجاتی ہے۔ یاد رہے کہ سونامی، زلزلے کے علاوہ آتش فشائوں کے پَھٹنے، لینڈ سلائیڈنگ، اور بعض اوقت سمندر میں کسی وزنی شہابیے(Meteoroid) کے گرنے سے بھی پیدا ہوسکتا ہے۔ بہرحال، فی الوقت جس متوقع سونامی کا تذکرہ ہے، اس کی وجہ عربین، انڈین اور یوریشین پلیٹ کی وہ حرکت ہے، جو زیرِ سمندر مکران اور کراچی کے ساحل پر سونامی کا باعث بن سکتی ہے۔
ان تمام امور کو سمجھنے کے بعد اصل مسئلہ تو اس قدرتی آفت، سونامی سے بچائو اور اس کے نقصانات سے بچائو کا ہے۔ یہ بات تو بالکل واضح ہے کہ قدرتی آفات کو روکنا یا اُن سے بچنا کسی حکومت یا انسان کے دائرئہ اختیار میں نہیں، البتہ مختلف پیشگی اطلاعات اور اقدامات بروئے کار لاکر نقصانات کی شدّت کو کافی حد تک کم ضرور کیا جاسکتا ہے۔ جہاں تک سونامی کے باعث نقصانات کا تعلق ہے، تو ساحل پر موجود عمارات اور انسانی آبادی سب سے پہلے متاثر ہوتے ہیں۔
اس ضمن میں جاپان اور انڈونیشیا میں آنے والے سونامی کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں، جب ہر شئے سمندر بُرد ہوگئی تھی، لہٰذا ہماری پہلی کوشش سونامی سے انسانی جانوں کا تحفّظ ہونی چاہیے، جس کے بعد مربوط لائحہ عمل طے کرکے متاثرین کی فوری دادرسی ممکن بنائی جائے۔ خدانخواستہ اگر کراچی میں سونامی آگیا، تو یہ کس قدر خوف ناک اور دہشت ناک ہوسکتا ہے، اس کا انداہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اس کی بلند و بالا لہریں حبیب بینک پلازا سے اونچی اور اس کا پھیلائو بحریہ ٹائون سے بھی آگے تک ہوسکتا ہے۔
نیز، ساحل کے قریب واقع پرانے اور نئے ایٹمی بجلی گھر وںکو بھی شدید نقصان پہنچ سکتاہے۔ اور اگر خدانخواستہ قیامت بپا کرنے اور تباہی پھیلانے کے بعد سمندری پانی، سطحِ سمندر بلند ہونے کی وجہ سے واپس نہ جا سکا، تو پھر پورے شہر کا کیا حال ہوگا، اس کا تصوّر بھی محال ہے۔ ہم خوش بخت و خوش نصیب ہیں کہ خدائے بزرگ و برتر نے شہرِکراچی اور اس کے شہریوں کو اب تک ایسی آفات سے محفوظ رکھا ہے۔ ماضی میں آنے والے بھوج کے زلزلے کی مثال سب کے سامنے ہے، جب بھارتی شہر، احمد آباد اور کراچی دونوں زلزلے کے مقامِ پیدائش سے یک ساں فاصلے پر تھے، مگر احمد آباد تہس نہس ہوگیا، جب کہ کراچی میں صرف معمولی جھٹکے محسوس کیے گئے۔
اسی طرح آئے دن سمندری طوفانوں کے کراچی سے ٹکرانے کی خبریں سننے میں آتی ہیں، مگر عین وقت پر طوفان راستہ بدل لیتا ہے۔ بے شک، ہمارا ملک، پاکستان تحفۂ خداوندی ہے، جواِن شاء اللہ قیامت تک قائم رہے گا۔ تاہم، اس ضمن میں ہمارا بھی فرض بنتا ہے کہ اس کی حفاظت، تعمیر و ترقی اور بقا کے لیے حتی المقدور کوششیں کریں۔ کم از کم ہم اپنے بچّوں کو تعلیمی اداروں میں دیگر تعلیمات کے ساتھ ساتھ قدرتی آفات کے بارے میں بھی بتائیں کہ قدرتی آفات کی صورت میں ہمیں کیا احتیاطی تدابیر اختیار کرنی چاہئیں۔
اس حوالے سے ماہانہ بنیادوں پر مشقیں ہونی چاہئیں۔ قابلِ اطمینان بات یہ ہے کہ ہمارا ملک کم از کم بین الاقوامی سونامی الارمنگ سسٹم سے تو منسلک ہوچکا ہے، جو کہ بحیرئہ اوقیانوسی حلقۂ آتش سے منسلک ٹیکٹونی پلیٹس کی حرکات کامطالعہ اورمشاہدہ کرنے کے لیے قائم کیا گیاہے۔ سندھ اور بلوچستان میں اس حوالے سے پانچ جدید ترین اسٹیشن کام شروع کرچکے ہیں۔
مزید برآں، حکومت، عوام النّاس کی آگاہی کے لیےتواتر سے سیمینارز، کانفرنسز اور ورکشاپس کا انعقاد بھی کررہی ہے۔ واضح رہے کہ سونامی آنے سے تقریباً 20منٹ قبل ہی بذریعہ سائرن مطلع کیا جانا ممکن ہے۔اگرچہ یہ بہت ہی کم وقت ہے، مگر بہ حالتِ مجبوری اس قلیل مدّت کو بھی کارآمد بناکر فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے۔ نیز،اس ضمن میں الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا بھی قدرتی آفات سے بچائو کے طریقے، ایمرجینسی میں خدمات انجام دینے والے اداروں کے نام اور ان کے فون نمبرز وغیرہ علاقائی اور مقامی زبانوں میں نشر کرکے یا چھاپ کر ایک موثر کردار ادا کرسکتا ہے۔
قدرتی آفات تو روئے زمین پر آتی رہتی ہیں، مگر ضرورت اس امَر کی ہے کہ ان سے حکمت و تدبیر، عقل مندی اور ہوش یاری سے نمٹا جائے۔ کسی بھی مسئلے، پریشانی یا مصیبت کے موقعے پر اگر سمجھ بوجھ سے کام لے لیا جائے، تو نقصانات کا ازالہ بڑی حد تک ممکن ہوسکتا ہے۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ایسی ہر مصیبت سے محفوظ رکھے، آمین۔ (مضمون نگار، وفاقی جامعہ اردو، کراچی سے بطور سربراہ شعبۂ جیالوجی منسلک ہیں)