• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
امریکی ایوان نمائندگان میں آئندہ برس کے فوجی اخراجات کے پالیسی بل میں پاکستان کو فوجی امداد کی فراہمی پر عائد شرائط کو حیرت انگیز طور پر مزید سخت کرنے کو کہا گیا ہے انسداد دہشت گردی کے نام پر خطے میں امریکہ اور اس کے مغربی اتحادیوں کی شروع کی ہوئی جنگ میں سب سے نمایاں کارکردگی کا مظاہرہ کرنے اور سب سے زیادہ قربانیاں دینے کی بناء پر پوری پاکستانی قوم کیلئے امریکی ایوان نمائندگان کا یہ رویہ ناقابل فہم، تکلیف دہ اور افسوسناک ہے۔عالمی ذرائع ابلاغ کے مطابق گزشتہ روز امریکی ایوان نمائندگان نے 602ارب ڈالر مالیت کے امریکی فوجی بجٹ 2017ء کے پالیسی بل کی منظوری دی جس میں کہا گیا ہے کہ جب تک امریکی دفترخارجہ اس بات کی تصدیق نہیں کرتا کہ پاکستان حقانی نیٹ ورک کے خلاف مناسب کارروائی کررہا ہے، اسے کولیشن سپورٹ فنڈ کی مد میں45کروڑ ڈالر ادا نہیں کیے جاسکتے۔ بل کے تحت امریکی محکمہ دفاع کو تصدیق کرنا ہوگی کہ پاکستان حقانی نیٹ ورک کے خلاف فوجی آپریشن کررہا ہے اور اسے شمالی وزیرستان میںمحفوظ پناہ گاہیں بنانے کی اجازت نہیں ۔ بل میں پاکستان سے متعلق تین ترامیم شامل کی گئی ہیں جنہیں متفقہ طور پر منظور کرلیا گیا ہے۔حقانی نیٹ ورک کے خلاف کارروائی کے علاوہ ان شرائط کی رو سے امریکی وزیر دفاع کو تصدیق کرنا ہوگی کہ فوجی امدادی رقم یا آلات کو پاکستان میں اقلیتوں کے خلاف استعمال نہیں کیا جائے گا۔ نیز القاعدہ کے سابق سربراہ اسامہ بن لادن کے خلاف کارروائی میں مبینہ طور پر امریکہ کیلئے کام کرنے والے ڈاکٹر شکیل آفریدی کو بین الاقوامی ہیرو قرار دیتے ہوئے انہیں رہا کرنا ہوگا۔ ایک اور شرط کے تحت امریکی انتظامیہ کو اس امر کی تصدیق کا پابند بھی کیا گیا ہے کہ پاکستان حقانی نیٹ ورک کی سینئر اور درمیانہ درجے کی قیادت کو گرفتار کرنے اور انہیں سزائیں دینے کیلئے پیش رفت کررہا ہے۔امریکی ایوان نمائندگان کے منظور کردہ اس بل کو، جس میں غیرحقیقی مفروضات کی بنیاد پر پاکستان پر سخت شرائط عائد کرنے کی بات کی گئی ہے، پاکستانی عوام یقینی طور پر دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کی بے مثال جدوجہد اور قربانیوں کی بے توقیری کے مترادف تصور کریں گے ۔ امریکی قانون سازوں کی یہ روش جاری رہی تو دونوں ملکوں کے باہمی تعلقات پر اس کے نہایت منفی اثرات مرتب ہوںگے ۔ اس طرز عمل سے خطے میں قیام امن کیلئے جاری کوششیں متاثر ہوسکتی ہیں جس کے نتائج پوری عالمی برادری کیلئے خطرناک ہوں گے۔ لہٰذا توقع کی جانی چاہئے کہ اوباما انتظامیہ زمینی حقائق کا ادراک کرے گی اور پاکستان پر غیر معقول شرائط عائد کیے جانے کی اجازت نہیں دے گی۔ اس کی گنجائش اس لیے ہے کیونکہ امریکی ایوان نمائندگان کا منظور کردہ یہ بل حتمی نہیں، سینیٹ میں رواں ماہ کے آخر میں پیش ہونے والے بل سے اس کی مطابقت ضروری ہے اور اسکے بعد بھی امریکی صدر کے پاس اسے منظور یا مسترد کرنے کا اختیار ہوگا۔دہشت گردی کیخلاف پاکستان کے مؤثر اقدامات اور اس کے مثبت نتائج پوری دنیا کے سامنے ہیں۔ شمالی اور جنوبی وزیرستان سے تمام دہشت گرد تنظیموں کا نیٹ ورک تقریباً مکمل طور پر ختم کیا جاچکا ہے اور بچے کھچے دہشت گردوں اور انکے مراکز کے خاتمے کیلئے تمام ضروری اقدامات جاری ہیں۔ تاہم پاکستان کیلئے افغانستان میں موجود تنظیموں کے خلاف کارروائی ممکن نہیں ۔ ان سے نمٹنا افغان افواج اورافغانستان میں موجود امریکی اور اتحادی فوجیوں کا کام ہے۔ امریکی انتظامیہ اور قانون سازوں کو یہ حقیقت بھی ملحوظ رکھنی چاہئے کہ پاکستان پر بے جا دباؤ ڈالنا بالواسطہ طور پردہشت گرد عناصر کی حوصلہ افزائی ہے۔ امریکہ خطے میں بھارت کی ہتھیاروں کی دوڑ کی حوصلہ افزائی کرکے جنوبی ایشیا میں طاقت کے توازن کو بگاڑنے میں معاونت کررہا ہے جبکہ پائیدار علاقائی امن کے قیام کیلئے امریکہ کو افغانستان ، پاکستان اور بھارت کے درمیان برابری کی بنیاد پر خوشگوار تعلقات کیلئے اپنا اثرورسوخ استعمال کرنا چاہئے اور پاکستان پر دباؤ کی حکمت عملی بلاتاخیر ترک کردینی چاہئے.
تازہ ترین