• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ڈراموں کے سیریل کی طرح میں نے بھی ”کِس کو کہتے ہیں“ کے عنوان سے دو عدد کالم لکھے۔ ایک ”ایمرجنسی کِس کو کہتے ہیں“ اور دوسرا ”میرٹ کِس کو کہتے ہیں“۔ اِن دونوں کا وشوں کو قارئین نے تو پسند کیا مگر جِن کے لیے لکھا تھا اُن کے کانوں پر جوں تک نہ رینگی۔آج سوچا ”بادشاہت کِس کو کہتے ہیں“ پر لکھوں کیونکہ جو کچھ ہو رہا ہے یہ سب کچھ بادشاہ ہی کر سکتے ہیں۔بادشاہ اور بادشاہت کی سوچ میری ذاتی زندگی کے مشاہدات پر مبنی ہے۔میں نے جب ہوش سنبھالا تو والدہ کو ملکہ کے روپ میں اور والد کو ڈیوک آف ایڈنبرا کی طرح ”بڑے“ فیصلے کرتے ہوئے دیکھا۔1978 میں میجر کی حیثیت سے ملتان میں چند سمری کورٹس لگائے اور تقریباً چھ ماہ کے لیے محکمہ آبپاشی کے ریسٹ ہاؤس میں کمپلینٹ سینٹر چلانے کا موقع مِلا۔اِس قلیل عرصے میں میری سوچ اور شعور کے چودہ طبق روشن ہوئے۔ ہر روز بِلا ناغہ صبح 9 بجے سے شام 5بجے تک لوگوں کی شکایات سُنی جاتیں اور پولیس کی موجودگی میں احکامات صادر کیے جاتے۔ اللہ جھوٹ نہ بلوائے تقریباً 20 ہزار شکایات میں سے 99 فیصد زن،زر اور زمین سے متعلق تھیں اورباقی ماندہ ایک فیصد کا تعلق دھونس، پولیس کی بے آواز لاٹھی، چوری چکاری، عورتوں اور جانوروں کا اغوا، ڈاکہ زنی، جعل سازی، ڈکیتی اور مذہبی عدم برداشت سے تھا۔دینی مدارس اور مذہبی مسالک کو قریب سے سُننے اور اُن کی عملی شکل کو زمین پردیکھنے کا پہلی بار موقع ملا۔ یقین کیجیے ملتان شہر میں کئی مساجد مسلک کی جنگ کی وجہ سے کافی عرصے سے مقفّل تھیں جہاں میں نے خود نماز پڑھ کر اہلِ محلہ کی مدد سے اُنھیں آباد کروایا۔ نور اوربشرکی بحث کے نتیجے میں ایک شخص کو اپنے سامنے آدھے منہ سے غائب داڑھی کے ساتھ کھڑا پایا تو ششدر رہ گیا اور بڑی مشکل سے اپنی مونچھ بچاتے ہوئے اس شخص کو اس طرح کی بحث سے پرہیز کی تلقین کرتے ہوئے رخصت کیا ۔دھونس اور انا کا ایک قصّہ آپ بھی سن لیں۔ایک شام میری یونٹ کا آفیسر کبیر والا کا ایک وڈیرہ اپنے ساتھ لایا جس نے اپنا مسئلہ کچھ یوں بیا ن کیا کہ 1965ءء میں اس کے قبیلے کا ایک اُونٹ چوری ہوا تھا جس کا اعتراف چور نے آج تک نہیں کیا ۔ مزید معلوم ہوا کہ اُونٹ کب کا مر چکا اور چورضعیف العمر ہونے کے باعث چور ی چکاری سے ریٹائر ہونے کے بعد آجکل اللہ اللہ کرنے میں مصروف ہے۔ استدعا یہ تھی کہ میں اس سابقہ چور کو شکایات کے مرکزمیں بُلواکر13سالہ پرانی چوری قبول کرواؤں۔ میں نے اس وڈیرے کی دیوانگی پر حیرت اور بے تُکے مطالبے پر دو ٹوک معذرت کی نتیجتاً موصوف یہ کہتے ہوئے رخصت ہوئے کہ” آپ کی پرورش چونکہ گاؤں میں نہیں ہوئی اس لیے آپ ہماری غیرت اور انا کو نہیں سمجھ سکتے، وہ وڈیرہ ہی کیاجوچوری نہ اُگلوا سکے“۔ اِس تجربے کا خلاصہ تھا" We are living in a jungle where might is right "۔
قارئین کرام! 2000ء میںGOCکی حیثیت سے کراچی شہر کے نظم وضبط کی ایک سال تک دیکھ بھال کی، جہاں عوام کی نہ تو بس چل رہی تھی اور نہ ہی بس چل رہا تھا۔ حالات ملتان جیسے ہی پائے مگر فرق اِتنا کہ مخلوق شائستہ ہونے کے ساتھ ساتھ تعلیم یافتہ بھی تھی۔ 2001ء سے 2003ء تک آئی ایس آئی میں تعیناتی کے دوران بادشاہت کے معاملات اور رعایا کے ردعمل کو بہت قریب سے دیکھنے کا نادر موقع مِلا جِس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی بد ہضمی اور بے چینی اب تک برقرار ہے۔ بہت سے حکیموں سے رابطہ کیا مگر کمبخت نیم حکیم نکلے۔ یہ حقیقت ہے کہ پاکستان نے بابائے قوم کی قیادت میں اپنے سفر کا آغاز تو مسلمہ جمہوری اسلامی فلاحی ریاست کے طور پر کیا تھا مگر بد قسمتی سے ملک کے پہلے 1956کے دستور کی تنسیخ کے بعد اب تک اندازِ حکمرانی بادشاہت کی طرح چل رہا ہے جس پر وقفے وقفے سے راجاؤں کے راجا اور بادشاہوں کے بادشاہ حکمرانی کرتے رہے۔کچھ لوگوں کو میرا یہ جملہ شاید برا لگے مگر میں اس پر قائم ہوں کیونکہ جو میں نے دیکھا وہ بادشاہت ہی تھی۔ کیا آپ کے علم میں کوئی ایسا ملک ہے جہاں ترقیاتی اور فلاحی کام آپ کے پیسے سے کیے جائیں اور نام کی تختی قائدین کی لکھی جائے؟۔ ذرا نچلی سطح پر طاقت کا جائزہ لیں تو آپ کو نمبردار، تھانیدار اور تحصیلدار کاTroika ہاتھ میں ہاتھ ملائے نظر آئیگا اور ضلعی سطح پر DPO ،DCO اور وڈیرے سرگوشیاں کرتے ہوئے نظر آئیں گے۔ ظاہر ہے ایسی صورت میں صوبائی اور قومی سطح پر آپ وڈیروں اوربٹیروں کے ا جتماع کے سو ا اور کیا دیکھ سکتے ہیں ! اب ذرا اپنے قائدین کے طرزِ زندگی اور طور طریقوں پر نگاہ ڈالیں تو آپ کو مغلیہ دور کی گُٹھی کے اثرات نمایاں نظر آئیں گے جو ان کی محلات نما رہائش گاہوں ، دفاتر اور سفری انداز سے بخوبی عیاں ہیں۔ اپنے پارلیمنٹ ہاؤس کا House of Commons سے موازنہ کریں تو وہاں 650 ممبران کندھے سے کندھا ملائے بنچوں پر بیٹھے نظر آئیں گے جس کے برعکس ہمارے342 معزز ممبران علیحدہ علیحدہ بڑی آرام دہ کرسیوں پر بر اجمان کافی مرتبہ کیمروں کی آنکھ سے سوتے دکھائی دیں گے ۔ رہا سوال کندھے سے کندھا ملانے کا تو ہمارے ہاں امام مسجد کو جماعت کی صف سیدھی کروانے اور کندھے سے کندھا ملانے کے لیے بھی خاصی محنت کرنی پڑتی ہے۔ اگر ہم نے بھی شاہانہ انداز ہی اپنانے تھے تو پھرمغلیہ بادشاہوں کی محلاتی روشوں اور سازشوں کو اپنانے کی بجائے خلفائے راشدین کے طرزِ عمل کو ہی اپنا لیتے تو شاید ملک کا بھلا ہو جاتا۔ کیا ہم میں سے کوئی ایسا مائی کا لال ہے جو نَاروے کے وزیراعظم کی طرح ۳ روز تک ٹیکسی اس غرض سے چلائے کہ وہ عوامی مشکلات کو سمجھ سکے یاسابقہ ایرانی صدر کی طرح سبکدوشی کے بعداپنے ذاتی موٹر سائیکل پر رخصت ہو؟ مگر ایساکہاں سے لائیں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے مال ودولت، ہیلی کاپٹر اور دیگر آسائشیں کس لئے عطاکی ہیں!اسی کوتوبادشاہت کہتے ہیں۔ سید ضمیر جعفری کے اشعار پیشِ خدمت ہیں
مسلمانوں کے سرپر خواہ ٹوپی ہو نہ ہولیکن
مسلمانوں کے سر سے بُوئے سلطانی نہیں جاتی
یہی جمہوریت کی مغربی معراج ہے شاید
کہ اب ہم سے خداکی بات بھی مانی نہیں جاتی
تازہ ترین