• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

 السّلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ

ساری کتابوں کی ترجمانی

آج اپنی اعزازی چِٹھی نے جہاں آپ کا ممنون کیا، وہیں تازہ شمارے کی تازہ تحریروں نے یک دَم تازہ دَم کردیا۔ منور مرزا نے دونوں بڑی طاقتوں، امریکا اور چین کے درمیان تنائو کے بعد آمنے سامنے بیٹھنے کو پگھلی ہوئی برف سے تشبیہ دی،کیا خوب تجزیہ تھا۔ ڈاکٹر سمیحہ راحیل کا لاجواب سفرنامہ ’’شامِ استنبول براستہ تہران‘‘ یوں محسوس ہوا، جیسے لفظ بول کر عہدِ رفتہ کے اسلاف کے جلال و عظمت کی داستان سُنا رہے ہوں۔ ’’اِن اینڈ آئوٹ‘‘ میگزین میں جان ڈالتا ہوا سلسلہ ہے۔ رائو صاحب موسمِ سرما کے ٹھنڈے ٹھار موسم کو اپنے قیمتی ٹوٹکوں سے گرماتے نظر آئے۔ اختر سعیدی کا ایک جملہ ساری کتابوں کی ترجمانی کر کےلُطف دے گیا کہ ’’یہ کتاب پڑھنے والوں کو کئی نئے ذائقے ملیں گے۔‘‘ بہار کا موسم، اندر کے موسم پر حاوی ہو کر ساری بوریت اتار کر، ناول کی حسین راہ گزر کی سیرکرواتا ہے، تو’’آپ کاصفحہ‘‘کے دیوانوں، پروانوں کی باتیں بھی دل میں گھر کرتی ہیں۔ ویسے تو میگزین کی سطر سطر، لفظ لفظ ہی آپ کی محنت، عرق ریزی اوررَت جگوں کاثمر ہے اور ہمیں اس ثمر سے فیض یاب ہونا خُوب بھاتا ہے۔ (نازلی فیصل، ڈیفینس، لاہور)

ج:صد شُکر کہ ہمیں تو ہماری محنتوں کا اجر (آپ لوگوں کی حوصلہ افزائی کی صُورت) مل ہی جاتا ہے۔ وگرنہ بےشمار لوگ تو سخت محنت و مشقّت کے باوجود عُمر بھر اپنے جائز حق، چند توصیفی کلمات سے بھی محروم ہی رہتے ہیں۔

کم کم حاضری

ہمیشہ کی طرح آج بھی دو ہی شماروں پر تبصرہ کروں گا۔ بہت افسوس کی بات ہے کہ دونوں شماروں میں متبرّک صفحات ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ موجود نہیں تھے۔ ’’شامِ استنبول، براستہ تہران‘‘ کے آخری دو حصّے بھی شان دار تھے۔ افغانستان کے سابق وزیر اعظم، گلبدین حکمت یار اور اسّی برس کی عُمر میں پی ایچ ڈی کرنے والے بلوچستان کے سابق ایس پی، ڈاکٹر ہیبت خان حلیمی کے انٹرویوز کا جواب نہ تھا۔ ’’نیرنگئ سیاستِ دوراں تو دیکھیے‘‘ میں دونوں خواتین کا تعلق سندھ سے تھا۔ یعنی سینیٹر نسرین جلیل اور نصرت سحر عباسی۔ ’’ٹھنڈ پروگرام‘‘ میں ایک سے بڑھ کر ایک ٹوٹکا ملا۔ ’’اسٹائل‘‘ کے دونوں صفحات کا رائٹ اپ عالیہ کاشف نے تحریر کیا۔ ایڈز کے انسداد کے عالمی یوم سے متعلق اہم مضمون شامل کیا گیا، تو ’’دُھندلے عکس‘‘ کا جواب نہیں تھا۔ منور مرزا بھی ٹھیک فرما رہے تھے کہ چھوٹے ممالک باہمی تنازعات حل کیے بغیر بڑوں کے دبائو سےنہیں نکل سکتے۔ کافی عرصےبعد ’’ایک پیغام‘ پیاروں کے نام‘‘ کا دیدار ہوا، بہت اچھا لگا۔ میرا خط شایع کرنے اور دل چسپ جواب دینے کا بھی بےحد شکریہ۔ خادم ملک آج کل کم کم حاضری لگا رہے ہیں، لگتا ہے، انہیں روزگار مل گیا ہے۔ (پرنس افضل شاہین، نادر شاہ بازار، بہاول نگر)

ج:کہیں آپ نے اپنی جگہ ہی تو کام پر نہیں لگا دیا کہ اُن کی حاضریاں تو کم ہوئی ہیں، مگر آپ کی کچھ زیادہ ہی بڑھ گئی ہیں۔

شعرو شاعری کے لیے ایک صفحہ

ٹائٹل حسبِ معمول دل کش اور دیدہ زیب ہے۔ ایک تو شام رنگ رنگ، اور پھر خواب رنگ رنگ… منور مرزا نے اس خطّے کے بہت سے مسائل کا احاطہ بہت ہی عُمدگی سے کیا۔ ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ (تذکرہ اللہ والوں کا) میں شیخ محی الدّین ابنِ عربی ؒ کا تفصیلی تعارف محمّد احمد غزالی نے کیا کروایا، تحریر میں رُوح پھونک دی۔ شفق رفیع نے عوامی مسئلے کو اُجاگر کیا۔ متفرق، میں ڈاکٹر آصف چنڑ نے آئی ایم ایف کا صحیح کچّا چٹھا کھولا۔ ’’ہیلتھ اینڈ فٹنس‘‘ میں عالیہ کاشف نے معروف ہیوماٹالوجسٹ، ڈاکٹر صالحہ اسحاق سے اچھی بات چیت کی۔’’ناقابلِ فراموش‘‘ بھی ایک یادگار سلسلہ ہے۔ شگفتہ فرحت کا ڈاکٹر عبدالقدیر سےمتعلق اظہارِخیال پڑھنےکے لائق تھا۔ پھر شفق رفیع نے افغانی اداکارہ، نجیبہ فیض کی باتوں کو بھی دل چسپ پیرائے میں پیش کیا۔ کرن عباس کرن کا ناول ٹھیک ہے۔ ’’ڈائجسٹ‘‘ میں شبانہ کریم کی غزل خُوب صُورت تھی۔ ایک بارپھر میری رائے یہی ہے کہ پورا ایک صفحہ شاعری پر مشتمل ہونا چاہیے۔ باقی رہا آپ کا صفحہ، تو اس صفحے کے تو ہم ہفتہ بھر بےچینی سے منتظر رہتے ہیں۔ خطوط کے ساتھ آپ کے جوابات بڑے دل چسپ ہوتے ہیں۔ اگلے شمارے کا آغاز ہی لاجواب تھا کہ ؎ حسینانِ چمن پر خاتمہ ہے جامہ زیبی کا.....منور راجپوت کے دونوں ہی مضامین لاجواب لگے۔ ڈاکٹر سمیحہ کا سفرنامہ اور بلوچستان کے ڈاکٹر ہیبت خان حلیمی کا انٹرویو پڑھنےسےتعلق رکھتے تھے۔ اختر سعیدی کتابوں کے تبصروں پر بہت محنت کرتے ہیں، لیکن شعرا اور شاعری کو بھی کم از کم ایک صفحہ ملنا چاہے۔ (صدیق فن کار، کلمہ چوک، عسکری اسٹریٹ، جھاورہ کینٹ، راول پنڈی)

ج:اوّل تو شعر و شاعری کے لیے ایک صفحہ مختص کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ اور بھی غم ہیں زمانے میں۔ دوم، اگر کبھی ایسی نوبت آبھی گئی، تو بھی ہر ہفتے آپ کے کلام کی اشاعت ممکن نہ ہوگی۔

خانہ خراب کردیا ہے

’’حالات و واقعات‘‘ میں منور مرزا ایک اچھے اور عُمدہ تجزیاتی مضمون کے ساتھ موجود تھے۔ ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ میں محمّد احمد غزالی کی تحریروں کا جواب نہیں، پڑھ کر معلومات میں بےحداضافہ ہورہاہے۔ شفق رفیع نے بہترین ’’رپورٹ‘‘ تیار کی، منہگائی نے تو واقعی سب کا خانہ خراب کردیا ہے۔ ’’یادداشتیں‘‘ میں شگفتہ فرحت کا ڈاکٹر عبدالقدیر خان سے متعلق مضمون پڑھ کر اچھا لگا۔ ’’متفرق‘‘ میں ڈاکٹر آصف چنڑ نے آئی ایم ایف پر خُوب لکھا۔ ناول بہت ہی پسند آیا۔ ’’ڈائجسٹ‘‘ کے دونوں افسانے بہترین تھے۔’’ناقابلِ فراموش‘‘ میں محمّد ہمایوں ظفر اچھی اچھی داستانیں شامل کر رہے ہیں۔ نئی کتابیں پر منور راجپوت نے شان دارتبصرہ کیا۔ اور یہ شری مُرلی نے خاموشی سے شادی کرلی۔ ہم تو اُن کے آبائی شہر کے تھے۔ ہم کو بھی نہیں پوچھا۔ (رونق افروز برقی، دستگیر کالونی، کراچی)

ج:آپ نے اپنی شادی پر کیا پورا پاکستان مدعو کر رکھا تھا۔ اب محض آبائی شہر یک ساں ہونے پر دعوتیں دی جانے لگیں، تو پھر تو ہوچُکیں شادیاں۔ پہلے ہی ہمارے یہاں شادی بیاہ کے معاملات کچھ کم پیچیدہ ہیں کیا؟

الفاظ کا چناؤ مشکل

آپ کی سلامتی کے لیے دُعاگو رہتا ہوں۔ اس خط سے قبل تین عدد خط مع تین عدد غزلیں خدمتِ اقدس میں ارسال کرچُکا ہوں۔ لیکن نہ تو خط شاملِ اشاعت ہوا، نہ ہی کوئی غزل۔ بہرحال، ایک بار پھر آپ کی اس خُوب صُورت بزم میں حاضری کی جسارت کررہا ہوں۔ میگزین کی تعریف نہ کرنا تو زیادتی ہے، بلکہ تعریف کے لیے الفاظ کا چنائو مشکل ہوجاتا ہے۔ بس، ہر ہفتے بےچینی سے انتظار رہتا ہے، خاص طور پر آپ کی محفل کا تو کوئی جواب ہی نہیں۔ آپ کے کرارےجوابات بہت لُطف دیتے ہیں۔ (قدیر رانا، راول پنڈی)

ج: غزلیں قابلِ اشاعت ہوں گی، تو باری آنے پر شایع ہو جائیں گی۔ اور کرارے جوابات بھی تب ہی لُطف دیتے ہیں، جب کسی اور کو دیئے گئے ہوں۔

کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی…

’’جہانِ دیگر‘‘میں ڈاکٹر سمیحہ راحیل قاضی ’’شامِ استنبول، براستہ تہران‘‘ سیر کروا رہی تھیں۔ دل چسپ سفرنامہ تھا۔ ’’انٹرویو‘‘ میں سگریٹ کے نقصانات بیان کیے گئے۔ ’’کہی اَن کہی‘‘ میں ثناء نصرت کی باتیں سچّی تھیں۔ ’’ناول‘‘ دل چسپ سے دل چسپ تر ہوگیا۔ ’’پیارا گھر‘‘ میں ڈاکٹر عزیزہ انجم سردی سے بچنے کے گُر بتا رہی تھیں۔ ’’ڈائجسٹ‘‘ میں ’’گفتار کا غازی‘‘ زبردست افسانہ تھا۔ ’’سنڈے اسپیشل‘‘ میں وحید زہیر نے بلوچستان کے مسائل بیان کیے، تو ہیلتھ اینڈ فٹنس میں بہترین معلوماتی مضامین شامل کیے گئے۔ میرے پچھلے خط میں ’’انگور کھٹّے ہیں‘‘ کی مثال غلط طور پردی گئی، اس کے لیےمعذرت خواہ ہوں۔ وہ کیا ہے ناں ؎ بک رہا ہوں جُنوں میں کیا کیا کچھ… کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی۔ (سیّد زاہد علی، شاہ فیصل کالونی نمبر3، کراچی)

ج: جی، آپ بے فکر رہیں۔ ہمارے علاوہ کوئی کچھ نہیں سمجھ رہا، سب اپنے اپنے کام دھندوں میں مصروف ہیں۔

دیر تک اثر میں رہے

شمارہ موصول ہوا، سرِورق پر خُوب رُو ماڈل کے ساتھ مصرع درج تھا ؎ حسینانِ چمن پر خاتمہ ہے جامہ زیبی کا..... پڑھ کر دیر تک اثر میں رہے، آپ کے اعلیٰ ذوق کو داد دی۔ ’’عالمی اُفق‘‘ میں منور مرزا عالمی گٹھ جوڑ ختم کرنے کے لیے پس ماندہ ممالک کے آپس کے اتفاق پر زور دے رہے تھے۔ ’’اِن اینڈ آئوٹ‘‘ میں منور راجپوت سندھ اسمبلی کی دبنگ رکن، نصرت سحر عباسی کا تذکرہ لائے۔ ’’جہانِ دیگر‘‘میں ڈاکٹرسمیحہ راحیل شامِ استنبول کے سفر نامے میں خواتین کے حقوق کی جدوجہد کی داستان سُنا رہی تھیں۔ مغربی تہذیب کی دل دادہ خواتین کو اُنہیں اپنا رول ماڈل بنانا چاہیے۔ ’’انٹرویو‘‘ میں فرخ شہزاد ملک نے80برس کی عُمر میں پی ایچ ڈی کرنے والے جفاکش، ڈاکٹر ہیبت خان کی مثالی کاوشوں سے آگاہ کیا۔ ’’رپورٹ‘‘ میں منور راجپوت بھارتی کامیڈین ویرداس کی واشنگٹن میں تقریر کا ذکر لائے، تو ’’پیارا گھر‘‘ سے فرحی نعیم نے تلقین کی کہ بچّوں کو صرف تعلیم کی نہیں، تربیت کی بھی ضرورت ہے۔ نازلی فیصل ویکسی نیشن کروانے پر زور دے رہی تھیں کہ اس موذی کورونا سے بچائو کا واحد طریقہ یہی ہے۔ ہیلتھ اینڈ فٹنس میں رئوف ظفر نے ڈاکٹر شاہینہ آصف سے خواتین کی بیماریوں سے متعلق بہت معلوماتی بات چیت کی۔ نئی کتابوں پراختر سعیدی کا ماہرانہ تبصرہ بھی موجود تھا۔ ’’کچھ توجّہ اِدھر بھی‘‘ میں ناچیزکامراسلہ شایع کرنے کا بےحد شکریہ۔ کرن عباس کرن کے ناول ’’دُھندلے عکس‘‘ کی بارہویں قسط پڑھی۔ مصنّفہ کی محنت و لگن قابلِ ستائش ہے۔ ’’ناقابلِ فراموش‘‘ کے دونوں واقعات افسردہ کر گئے، جب کہ ہمارے صفحے کے مہاراجہ،سلیم راجہ اس ہفتےبھی مسندپر براجمان تھے۔ (شہزادہ بشیر محمّد نقش بندی، میر پور خاص)

ج: مصرع اگر کسی خوب رُو ماڈل پر موزوں نہ کیا گیا ہوتا، تو پھر ہم دیکھتے کہ آپ کتنی دیر اُس کے اثر میں رہتے ہیں۔

احسان فراموش نہیں ہوں!!

اللہ کرے، آپ تاحیات آسمانِ ادب پرستاروں کی طرح جگمگاتی رہیں۔ آپ میری محسن ہیں، اکثر و بیش تر سنڈے میگزین میں میرا کلام شایع کرتی رہتی ہیں اور میں احسان فراموش ہرگز نہیں۔ تین غزلیں خدمتِ اقدس میں ارسال کر رہا ہوں، نظر ِکرم فرما دیجیے گا۔ (سخاوت علی جوہر، کورنگی، کراچی)

ج:قابلِ اشاعت ہوئیں، تو باری آنے پر شایع ہو جائیں گی۔ اور جریدے میں تحریریں میرٹ کی بنیاد پر شایع ہوتی ہیں۔ یہاں کسی پر کوئی احسان نہیں کیا جاتا۔

کارواں چلتا رہے

سنڈےمیگزین کےتمام قارئین کی خدمت میں سلام پیش کرتا ہوں۔ علمی و تحقیقی مضامین، جامع رپورٹس اور تفریحی مواد ’’سنڈے میگزین‘‘ ہی کا خاصّہ ہے۔ خدا کرے یہ کارواں یوں ہی چلتا رہے۔ (شری مرلی چند جی، گوپی چند گھوکلیہ، شکارپور)

جنگ، جنگ ہی ہے

اللہ تم کو سلامت رکھے۔ بےحد خوشی اور حیرانی بھی ہوئی کہ تم نے اور ’’جنگ‘‘ نے ہمیں بُھلایا نہیں۔ ہمارے دو سچّے واقعات چھاپ کر تو بس دھوم ہی مچادی۔ واقعی کوئی مانے،نہ مانے جنگ، جنگ ہی ہے۔ کرن عباس کرن کا ناول ’’دُھندلے عکس‘‘ کیا خُوب رہا۔ شاباشی دے دو، ہماری طرف سے۔ بچّی نے کیا کیا رنگ نہیں بکھرائے، کبھی سوچ آسمانوں پر، تو کبھی کوہساروں پر، کبھی مہتاب، تو کبھی آفتاب کے ساتھ۔ کبھی پھولوں میں بسی خوشبو میں، تو کبھی دل کے دَر کھولتی اور کبھی یک دَم جمود طاری کرتی۔ کیا چُن چُن کے موتی لڑی میں پروئے اور ناول کی مالا بُنی، سبحان اللہ۔ کسی نے کہا، ’’ناول سمجھ نہیں آیا‘‘۔ تو، اُن کےلیے بس اتناہی کہناہے۔ ہرتحریر، ہرایک کےلیے نہیں ہوتی۔ (شبینہ گُل انصاری، کراچی)

ج: جی بلاشبہ، ’’جنگ، جنگ ہی ہے۔‘‘

            فی امان اللہ

اس ہفتے کی چٹھی

21ویں صدی کا یادگار 21واں سال اپنی تمام تر حشر سامانیوں کے ساتھ رخصت ہوا۔ ناوکِ قلم سے قارئینِ میگزین کے سازینۂ دل پر سُر بکھیرنے والے لکھاریوں کو ہم خراجِ تحسین پیش کرتے ہیں کہ انہوں نے ہنگامِ زندگی کے لمحاتِ بیش بہا، ہم تشنہ کاموں کی تشفّی کے لیےصرف کیے۔ نمایاں قلم کاروں کی فہرست آئینہ ماہ میں پیش کی جاتی ہے۔ جنوری میں سال نامےکے یادگار شمارے کا آغاز جامِ نرجس (حرفِ آغاز)سے ہوکر ’’سال 2020ء کی بہترین چِٹھی‘‘پر اختتام ہوا۔ سال نامہ پارٹ ٹو میں نرجسی قلم نےخالص سرمئی اور تیز پیلے کے ’’کلرز آف دی ایئر‘‘ قرار دئیے جانے کا اعلان کیا۔ ایّام کی مناسبت سے لکھنے کے ماہر افسانہ نگار، ڈاکٹر احمد حسن رانجھا کا خصوصی افسانہ (بحوالہ سالِ نو) دل دا رانجھا راضی کر گیا۔ مقبول عام سلسلے ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ کےروحِ رواں، محمود میاں کے قلمِ جادوبیاں سے ’’تذکرئہ صحابیاتؓ‘‘ کا پُر وقار اجراء ہوا۔فروری میں سوشل رائٹر، رئوف ظفر کا افسانہ نگار، نیلم احمد بشیر پر لکھا فسانۂ حیات کانوں میں رس سا گھول گیا۔ مارچ میں شعائرِ اسلامی کی امین، ڈاکٹر سمیحہ راحیل قاضی نے ’’مدرز ڈے ایڈیشن‘‘ میں ’’اسلامی خاندانی نظام‘‘ کی برکات اُجاگر کیں۔ اپریل میں ترجمانِ نسواں، ینگ رائٹر، شفق رفیع نے لاہور یونی ورسٹی کے بے ہودہ فلمی واقعے کے پس منظرمیں بےباکانہ مضمون لکھ کر گویا قلمی جہاد کیا، تو ڈیجیٹل رائٹر، رائو محمّد شاہد نے برکاتِ ماہِ صیام کو ہماری ڈیجیٹل زندگی سےبڑی مہارت سےہم رشتہ کیا۔ مئی میں ’’اسٹائل‘‘ کی ورسٹائل رائٹر، عالیہ کاشف عظیمی کا مرتّب کردہ ایک پیغام، پیاروں کے نام دل کو بھایا، تو اسلامی اسکالر، ڈاکٹر حافظ محمّد ثانی نےاپنےقلمِ لاثانی سےلمحاتِ عیدالفطر یادگار بنا دئیے۔ جون کا شمارہ، سلور جوبلی شمارہ (25واں) تھا۔ جس میں کلاسک مصنّف ڈاکٹر قمر عباس نے اپنی نظم ’’فطری سائبان‘‘ ماں باپ کی نذرکی۔ جولائی میں ہرفن مولا،منورراجپوت کاحُسنِ انتخاب ’’گدھا ہمارا دوست‘‘ نظرِ سلیم میں سال کا پسندیدہ ترین مضمون قرار پایا۔ اگست کے ’’یومِ عاشور ایڈیشن‘‘ میں منصور اصغر راجہ دل سوز قلم لیےنوحہ کُناں تھے،تو’’سرچشمۂ ہدایت‘‘میں صاحبِ طرز، محمّد احمد غزالی کے قلمِ محمود سے ’’تذکرہ اللہ والوں کا‘‘ کا اجراء ہوا۔ ستمبر میں شہرِاقتدار کے نبض شناس، فاروق اقدس ’’اِن اینڈ آئوٹ‘‘ لیے اِن ہوئے، تو طبیبِ کتب، محترم شاعر، اختر سعیدی نے مولانا مودودیؒ کوسلامِ عقیدت پیش کیا۔ اکتوبر میں وکیلِ بلوچستان، نور خان محمّد حسنی، بلوچی روایتی کھانوں کی عجب مہک سے گجب ڈھا گئے۔ نومبر میں ’’حالاتِ عالَم‘‘ کےعالِم، منور مرزا نے گرے لسٹ کاچکّر، گھمّن گھیریاں سمجھائیں۔ اور دسمبرمیں گولڈن جوبلی(50واں)شمارہ ایور گرین، ریگولر لے آئوٹ ڈیزائنر، نوید رشید کے نام رہا۔ نیز، ’’سردیوں کی سوغات‘‘ پرمحمّد ہمایوں ظفر کو بھی پَرنام۔ اور سال کے آخری اتوار نووارد، خوش بیاں، کرن عباس کرن کا ناول ’’دُھندلے عکس‘‘ 15ویں قسط پر منتج ہوا۔ بہرحال، سال 2021ء میں میگزین کو اپنی رنگارنگ تحاریر سےمہکانے والے تمام ہی سینئر اور جونیئر لکھاریوں کو سلامِ عقیدت، جب کہ 52 شماروں کےحُسنِ انتظام پر شانِ بزم و جانِ احباب نرجس ملک (مدیرہ صاحبہ) اور اُن کی ہر دل عزیز ٹیم کو 52توپوں کی سلامی۔ جنگ، جیو زندہ باد، پاکستان پائندہ باد۔ (محمّد سلیم راجا، لال کوٹھی، فیصل آباد)

ج: ’’آپ کا صفحہ‘‘ کے لیے آپ کے رنگا رنگ تجربات و تجزیات کی بھی کیا ہی بات ہے۔

گوشہ برقی خطوط

* ’’اِک رشتہ، اِک کہانی‘‘ کے صفحے میں آپ لوگوں نے تصاویر، سُرخیاں اور مضمون نگاروں کے نام ہی الٹ پلٹ دیئے۔ تصحیح تو ممکن نہیں، مگر آئندہ احتیاط تو برتی جاسکتی ہے۔ (وحید شیروانی)

ج: تو ہم نے کب کہا کہ ہم یہ غلطی باربار دہراتے رہیں گے۔ آپ کو کیا پتا کہ بڑے اداروں میں اندرونِ خانہ ایسی غلطیوں پر کتنی سخت کارروائیاں ہوتی، نوٹسز جاری کیے جاتے ہیں۔ گرچہ ادارے کا اپنا چیک اینڈ بیلنس کا سخت نظام موجود ہے، مگر اس کے باوجود ہم قارئین کو ہونے والی پریشانی پر تہہ دل سے معذرت خواہ ہیں۔

* جس طرح پہلے ایک ناول کو اچانک بیچ میں روک دیا گیا تھا، اگر اس ناول کو بھی روک دیا جاتا، تو کیا ہی اچھا ہوتا۔ اِک مستقل سردرد سے تو نجات ملتی۔ (محمد ارسلان خالد)

ج: ہاہاہا..... تو مل گئی سردرد سے نجات…؟

* پلیز، پلیز! آپ جنگ اخبار کی انتظامیہ تک ہماری درخواست پہنچائیں کہ ’’سنڈے میگزین‘‘ کے انٹرنیٹ ایڈیشن کو پرانے فارمیٹ پر بحال کیا جائے۔ ہم اپنے کم زور مالی حالات کے سبب اخبار کی ہارڈ کاپی خریدنے کی استطاعت نہیں رکھتے اور اِن دنوں جس صُورت میں میگزین اَپ لوڈ کیا جارہا ہے، وہ ہم سے بالکل پڑھا نہیں جاتا۔ (ادریس سوریا، ریٹائرڈ آفیسر)

ج:اس ضمن میں متعدّد شکایات موصول ہوچُکی ہیں، جو ہم نے انتظامیہ کے گوش گزار کردی ہیں۔

* مَیں آپ کو اپنا آرٹیکل دوبارہ ای میل کررہی ہوں، آپ نے میری پہلی ای میل کے جواب میں بتایا تھا کہ آپ کو آرٹیکل ملا ہی نہیں۔ (قراۃ العین فاروق، حیدرآباد)

ج: متعلقہ صفحہ انچارج کو دے دیا گیا ہے، قابلِ اشاعت ہوا تو شامل ہوجائے گا۔

* مَیں ایک مختصر کہانی شایع کروانے کا خواہش مند ہوں، کیا آپ اس حوالے سے مجھے گائیڈ کر سکتی ہیں۔ (ا ب ج، راول پنڈی)

ج: آپ اپنا نام تک تو لکھنے کو تیار نہیں، تو تحریر شایع کروانے کا کیا شوق اور اس حوالے سے ہم کیا گائیڈ کریں، تحریر لکھی ہے، تو پوسٹ یا ای میل کر دیں، قابلِ اشاعت ہوئی، تو شایع کردی جائے گی۔

قارئینِ کرام !

ہمارے ہر صفحے ، ہر سلسلے پر کھل کر اپنی رائے کا اظہار کیجیے۔ اس صفحے کو، جو آپ ہی کے خطوط سے مرصّع ہے، ’’ہائیڈ پارک‘‘ سمجھیے۔ جو دل میں آئے، جو کہنا چاہیں، جو سمجھ میں آئے۔ کسی جھجک، لاگ لپیٹ کے بغیر، ہمیں لکھ بھیجیے۔ ہم آپ کے تمام خیالات، تجاویز اور آراء کو بہت مقدّم ، بے حد اہم، جانتے ہوئے، ان کا بھرپور احترام کریں گے اور اُن ہی کی روشنی میں ’’سنڈے میگزین‘‘ کے بہتر سے بہتر معیار کے لیے مسلسل کوشاں رہیں گے۔ ہمارا پتا یہ ہے۔

نرجس ملک

ایڈیٹر ’’ سنڈے میگزین‘‘

روزنامہ جنگ ، آئی آئی چندریگر روڈ، کراچی

sundaymagazine@janggroup.com.pk