السّلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ
وزن میں 5 کلو کمی
ہمیشہ کی طرح آج بھی دو ہی شماروں پر تبصرہ کروں گا۔ دونوں میں ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ کے موتی مالا سے صفحات موجود تھے۔ واقعی نئے پاکستان میں لیپ ٹاپ نہیں، نمبرز بٹ رہے ہیں۔ افغانستان میں تعینات، پاکستانی سفیر منصور احمد خان نے خُوب فرمایا کہ ’’طالبان حکومت کو جلد تسلیم کرنا افغانستان، خطّے اور عالمی امن و استحکام کے لیے بہتر ہوگا۔‘‘ منور مرزا کا تجزیہ بھی کمال تھا۔ فواد رسول بھلر سے بھی اچھی بات چیت ہوئی۔ ’’اسٹائل‘‘ کی دونوں تحریریں عالیہ کاشف نے لکھیں۔ آپ کی تحریر کا درشن تو شاید نئے سال ہی میں ہوگا۔ ’’پیارا گھر‘‘ سے پتا چلا کہ ’’مَردوں کا عالمی یوم‘‘ بھی ہوتا ہے۔ زبردست بھئی۔ شاعرِ مشرق، علّامہ محمّد اقبال کا مختلف آپ بیتیوں میں تذکرہ بھی لاجواب تھا۔ ڈاکٹر سمیحہ راحیل قاضی کےسفر شام، استنبول براستہ تہران کا حصّہ اوّل پڑھ کر ہم تو خود محوِ سفر ہوگئے۔ ’’کہی اَن کہی‘‘ میں میک اَپ آرٹسٹ، سیّدہ ثناء نصرت نے دُرست فرمایا کہ ’’میک اَپ ضرور کریں، مگر کاسمیٹکس کی دُکان نہ بنیں‘‘۔ یقین کریں ہم اکثر شادی بیاہ کی تقریبات میں میک اَپ زدہ خواتین کو دیکھ کر یہی سوچتے ہیں کہ اگر انھوں نے مُنہ دھویا تو پانچ کلو وزن تو یقیناً کم ہو ہی جائے گا۔ اور ہاں، آپ نے دُرست پہچانا کہ ہم بھی گھر میں زوجہ کے سامنے گونگے ہی ہیں۔ جیسا کہ ہر شریف آدمی ہوتا ہے۔ (پرنس افضل شاہین، نادر شاہ بازار، بہاول نگر)
ج:اوہ اچھا…آپ شریف آدمی ہیں…؟ ویسےجب میک اپ زدہ خواتین کا 5 ، 5 کلو میک اپ بغور دیکھا جائے، تو پھر زوجہ کے سامنے گونگا ہی بن کےرہنا پڑتا ہے۔
پُل کا کردار
آپ کا یہ علمی و ادبی رسالہ، خصوصاً ’’آپ کا صفحہ‘‘ جیساشاہ کار قارئین اور مدیرہ کے درمیان ایک پُل کا کردار ادا کرتا ہے۔ رواں ہفتے کا شمارہ بھی ہمیشہ کی طرح بےمثل ہے۔ ’’سر چشمۂ ہدایت‘‘ متفرق ،عالمی اُفق، نئی کتابیں، پیارا گھر، ڈائجسٹ، ناقابلِ فراموش اور آپ کا صفحہ سب ہی ہر دل عزیز صفحات ہیں۔ (شری مُرلی چند جی، گوپی چند گھوکلیہ، شکارپور)
ج:ماشاء اللہ! آپ ’’ویاہ‘‘ کے بعد کچھ سیانے بیانے سے نہیں ہوگئے۔ مگرآپ کی ان سیانی سیانی باتوں سے تو اسماء خان دمڑ کو ویاہ کھڑکانے کی کچھ اور بھی سوڑ (جلدی)پڑ جائے گی۔
ہمیں تو حیران کر گیا!!
کتابچے سے کتاب اور کتاب سے دو لفظوں پر آ کر یہ کہتے ہوئے جو چلے کہ ’’دل کہیں نہ کہیں تو بہل جائے گا ‘‘یک دَم مڑتے ہی دو تین جگہ اپنا نام نظر آیا،پہلے تو اسے نظروں کا دھوکا سمجھے، کیوں کہ ہم نے تو ایک ہی خط لکھا تھا، پھر جو غور سے دیکھا، تو عدنان صاحب ہمارے خط پر اپنی اعزازی چِٹھی میں رائے، اور راجہ افنان ہمیں سے محفل کی رونق قائم، اور شاد و آباد رہنے کی دعائیں دیتے نظر آئے۔ ’’دعائیں ہی وجۂ زندگی ہیں۔‘‘ فوراً ہی واپس پلٹ آئے اور آپ کے جواب کا جادو تو ایسا سرچڑھ کر بولا کہ خاندان کا خاندان ہمارے میاں کی مشقّت کی داد دینے دوڑا آیا۔ خالہ نے گلے لگایا، پھوپھو نے دُعا دی ’’بھئی، میاں ہو تو ایسا‘‘اور میاں خوشی سے یوں نہال، گویا کے۔ٹو کی چوٹی سر کرلی ہو۔ اور پھر ہم نے بھی پورا دن اُن کی خاطر مدارات کرکے؎ جو وہ قرض رکھتے تھے جان پر، وہ حساب آج چکا دیا۔ بہرحال، لفظوں کے سحر سے نکل کر قلم کے شہ سواروں کی دنیا میں جو قدم رکھا، تو ’’اِن اینڈ آئوٹ‘‘ کی کمی محسوس ہوئی، کیوں کہ ہم گھریلو خواتین گھر بیٹھے اس سلسلےسے بہت کچھ حاصل کررہی ہیں۔ اگلی منزل ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘میں محمّداحمدغزالی کی تحریر میں حضرت امام محمّدغزالی سے متعلق مضمون میں سردار کے ایک جملے’’ایک کاغذ نہ رہا، تو کورے رہ گئے‘‘ کا اتنا اثر ہوا کہ دل بَھر آیا۔ منور مرزا کا افغانستان کےانسانی المیے پر بھرپور جائزہ اُن کے وسعتِ مطالعہ اور وسیع النظری کا بیّن ثبوت تھا۔ ’’سنڈے اسپیشل‘‘ میں نصف پاکستان تصوّر کیے جانے والے صوبہ بلوچستان پر مضمون پڑھ کر ’’چراغ تلے اندھیرا‘‘ ہی ذہن میں آیا۔ ڈاکٹر سمیحہ کا 26سالہ پرانا یادوں کےکینوس پربکھراہوا تہران کا سفرنامہ ذہن پر کیا کیا نقش و نگار ثبت کرگیا۔ ناول، ’’محبت ایسا حصار ہے، جس میں دشمن بھی قید ہو سکتا ہے‘‘ جیسے الفاظ کے زیر و بم کے ساتھ، بہتے ہوئے پانی کی طرح رواں دواں تھا۔ ’’پیارا گھر‘‘ میں بدلتی رُت کے سندیسے کے ساتھ احتیاط کے سبق اور مِنی پاکستان میں پورے پاکستان کے روایتی کھانوں کی خوشبو نے ساری تھکن اتار کے رکھ دی اور اپنی محفل کی کیا بات ہے، اَن گنت خیال آرائیاں، اور ایک ہی شخص کا اتنی محبّت سے سب کو اپنے جواب سے مطمئن و لاجواب کرنا، آپ کا تو پتا نہیں،’’ہمیں تو حیران کرگیا‘‘۔ (نازلی فیصل، ڈیفینس، لاہور)
ج:ایسی بھی کیا حیرانی…خطوط کے جوابات ہی تو ہیں، کون سا مائونٹ ایورسٹ سر کرنا ہوتا ہے۔
غریب کی کُل عیاشی
’’سگریٹ کا ایک کش عُمر بھر کا روگ بن جاتا ہے‘‘ جیسی سُرخیاں نہ لگایا کریں۔ ایک سگریٹ ہی تو غریب کی کُل عیاشی ہے۔ وہ سگریٹ بھی نہ پیے تو اپنا غم کیسے غلط کرے۔ اور پھر اس سگریٹ کی بدولت بھی تو نہ جانے کتنے گھروں کا چولھا جلتا ہے۔ ڈاکٹروں کی آمدنی میں بھی اضافہ ہوتا ہے، تو یہ مُلکی معیشت کی ترقی میں بھی ریڑھ کی ہڈی کاکرداراداکررہاہے۔ آپ خواہ مخواہ سگریٹ کے خلاف کوئی مہم شروع نہ کریں۔ (نواب زادہ بےکار ملک، سعید آباد، کراچی)
ج:اب تو بس سلام پیش کرنا ہےاُس عورت کو، جو آپ کےساتھ گزارہ کر رہی ہے، اور اب تک زندہ سلامت ہے، پاگل بھی نہیں ہوئی۔
عظمت و بڑائی کا ثبوت
آپ نے سنڈے میگزین کے شمارے میں میرا خط، بعنوان ’’بڑے مسائل والا تہوار‘‘ کی صُورت جو تنقید و اصلاح شایع کی، تو یقین کریں، دیکھ کر بےحد خوشی ہوئی کہ آج کے دَور میں بھی اس حد تک اخلاقیات موجود ہیں۔ بخدا یہ عمل آپ کی عظمت اور بڑائی کا ثبوت ہے۔ (ایم ۔اے۔ثاقب، راول پنڈی،(بابوئوں کا شہر)
ج:یہ ہمارے ادارے کی پالیسی اور تربیت ہے، اس میں ہماری عظمت و بڑائی وغیرہ کا کوئی عمل دخل نہیں۔
نیا سال، نیا انداز…
نئےسال کی خوشی میں ہم اپنے میگزین کو ایک نئے انداز سے پڑھنا چاہیں گے۔ ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ کا آغاز اگر کچھ یوں کریں، ’’بندہ تو گنہگار ہے، رحمٰن ہےمولا… اے بےکسوں کے والی، دے دے، ہمیں سہارا‘‘۔ آگے بڑھیں، تو ’’عالمی اُفق‘‘ کی منجدھار میں منور مرزا گنگناتے نظر آئیں،’’یاد کرتا ہے زمانہ اُن انسانوں کو‘‘۔ ’’ہیلتھ اینڈ فٹنس‘‘ میں ڈاکٹرز کےاستفسار کہ ’’کس نے توڑا ہے دل حضور کا؟‘‘پر مریض برملا کہیں،’’حالِ دل ہم نے سُنایا، تو بُرا مانو گے‘‘۔ ’’کہی اَن کہی‘‘ کی طرف جائیں، تو مہمان کہے،’’کہاں تک سنوگے، کہاں تک سُنائوں؟‘‘حسینوں کی جُھرمٹ سے یہ آواز آئے، ’’میرے جُوڑے میں گیندے کا پھول‘‘۔ اپنا ’’پیارا گھر‘‘ دیکھیں، تو ’’وہ میرا آشیاں، میرا گھر، میری جنّت‘‘، ’’اِک رشتہ، اِک کہانی‘‘ میں ’’بھابھی، میری بھابھی تم جیو ہزاروں سال‘‘، ’’میرے اچھےنانا، پیارے پیارے نانا‘‘ اور ’’ناقابلِ فراموش‘‘میں ’’کبھی ہم میں تم میں بھی پیار تھا، تمہیں یاد ہو کہ یاد ہو‘‘ اور ’’تیرے بِنا یوں گھڑیاں بیتیں‘‘ کی صدائیں گونجیں۔ ’’متفرق‘‘، ’’سب کچھ چل سکتا ہے‘‘، ’’اِک میں ہی بُرا ہوں، باقی سب لوگ ہی اچھے ہیں‘‘ کی عملی تفسیر ہو۔ اور جب ہم اپنے صفحۂ خاص میں داخل ہوں، تو ایسا محسوس ہو، جیسے لاک ڈائون کی پابندی ختم ہوگئی۔ سلیم راجا اپنی پدری و مادری زبان سے محفل کو زعفران زار بنائیں، تو دوسری طرف خاندانی نواب، خادم زادے محفل کو شیریں۔ اسماء خان دمڑ،دو دو سطروں کاخط لکھ کےشری مُرلی بن جایئں، تو محفل کی رونق، رونق افروز، برقی قمقموں سےچراغاں کرتے نظر آئیں۔ فی الحال اسی پر بس کرتے ہیں، اس دُعا کے ساتھ کہ نئے سال کی خوشیاں سب ہی کو سمیٹنے کی توفیق ملے اور اللہ پاک قوم کو تبدیلی کے دعووں، وعدوں سے محفوظ رکھے، آمین۔ (چاچا چھکّن، گلشنِ اقبال، کراچی)
ج:آمین۔ مگر اس خط کے ذریعے آپ نے کیا کہنے کی کوشش فرمائی ہے، کم ازکم ہم تو بالکل نہیں سمجھ سکے، ممکن ہے، قارئین ہی کے کچھ پلّے پڑ جائے۔
26سطور پر مشتمل خط
نومبر کا آخری شمارہ موصول ہوا، پڑھا، اچھا لگا۔ ’’حالات واقعات‘‘ ایسے چل پڑے ہیں کہ ’’اشاعت‘‘ کے لیے ’’خصوصی‘‘ وقت نکال کر تگ و دو کرنا پڑتی ہے، تب جاکر ’’سنڈے اسپیشل‘‘ مکمل ہوتا ہے۔ امریکا اور چین کی دوستی اور دشمنی کے متعلق جان کرحیرت ہوئی۔ ’’جہانِ دیگر‘‘ میں ڈاکٹر سمیحہ راحیل کے سفرنامے کی دوسری قسط اور طارق ابوالحسن کی حکمت یار سے ’’گفتگو‘‘ خُوب تھی۔ دو صفحات پر محیط مفصّل تحریر کا مزہ آگیا۔ ’’اِن اینڈ آئوٹ‘‘ میں نسرین جلیل کو پڑھا، کئی بھولی بسری باتیں یاد آگیئں۔ ’’ٹھنڈ پروگرام‘‘ میں رائو محمّدشاہد اقبال نےادرک کاقہوہ خُوب متعارف کروایا، تو ہیلتھ اینڈ فٹنس سےڈاکٹر عذرا جمال نے ایک نئے مسئلےکی طرف توجّہ دلانے کی کوشش کی۔ رئوف ظفر کی رپورٹ سے معلوم ہوا کہ مریضوں کو کرایہ بھی دیاجاتاہے۔ ایڈز سے بچائو کا مضمون سیر حاصل تھا۔ ناول بھی معیاری ہے۔ اِک رشتہ، اِک کہانی، میں محمّد افضل ربانی اور سیّد یوسف الدین کی کہانیاں پڑھیں، مگر تحریریں کچھ الٹ پلٹ ہوگئیں۔ ’’آپ کا صفحہ‘‘ میں آپ نے ہمیں یاد رکھا اور 26سطور پر مشتمل خط شایع کیا، بےحد شکریہ۔ (ڈاکٹر محمّد حمزہ خان ڈاھا، لاہور)
ج: آپ کا بھی شکریہ، اِس مرتبہ تین ہی صفحات کے خط پر اکتفا کیا۔
منجھے ہوئے لکھاری کی خدمات
یہ کسی بھی جریدے یا رسالے میں میرا پہلا خط ہے۔ مَیں کسی دَور میں اُردو کی مقررّہ رہ چکی ہوں، لیکن آج بہت عرصے بعد اُردو میں کچھ لکھا، تو پتا چلا کہ میری اُردو تو بہت کم زور ہوگئی ہے۔ مَیں ایک بائیو ٹیکنالوجسٹ اور یونی ورسٹی میں ایسوسی ایٹ پروفیسر ہوں۔ حال ہی میں ایک تحقیقی مقالہ نظر سے گزرا، جو کورونا وائرس کی روک تھام کے لیے مختلف نباتاتی جڑی بوٹیوں کے استعمال سے متعلق تھا، تو خیال آیا کہ ادویہ اور ویکسینز سے اکتائے ہوئے لوگوں کو اس تحقیق سے آگاہ کرنا چاہیے۔ سو، عام فہم انداز میں ایک مضمون پیشِ خدمت ہے۔ اِس میں اُن ہی جڑی بوٹیوں کا ذکر ہے، جو ہمارے یہاں روزمرّہ استعمال کی جاتی ہیں۔ اگر آپ کو لگےکہ میں مضمون زیادہ موثر انداز میں نہیں لکھ پائی، تو آپ کسی منجھے ہوئےلکھاری کی خدمات بھی لے سکتی ہیں۔ بس، معلومات عام لوگوں تک پہنچنی چاہئیں۔ (ڈاکٹر مریم جاوید، یو وی اے ایس، لاہور)
ج: ہمارے یہاں جہاں لوگوں میں خوش فہمی کا مرض بہت عام ہے، وہیں کسرِنفسی کا بھی خاصا رجحان پایا جاتا ہے۔ آپ ناحق خود کو Underestimateکر رہی ہیں۔ آپ کی اُردو بھی اچھی ہے اور آپ نے مضمون بھی بہترین انداز میں لکھا۔ اسی لیےخط کی اشاعت سے کہیں پہلے شایع بھی کردیا گیا ہے۔
تمنّا مختصر سی ہے …
محترمہ! بڑی معذرت کے ساتھ عرض ہے، مَیں نے گزشتہ ہفتے بذریعہ خط ایک آرٹیکل اپنی طرف سے بصورتِ تجزیہ حکومتِ پنجاب کی ہٹ دھرمی، لاقانونیت اور جبرو تشدّد کی پالیسی کے خلاف ارسالِ خدمت کیا تھا۔ لیکن ہنوز کچھ اتا پتا نہیں۔ اس کے علاوہ میری آپ سے درخواست کہ کالم نگاروں کے کالمز کے ساتھ اُن کے فون نمبرز بھی شایع کیے جائیں۔ اور ایک اہم بات یہ کہ جب آپ کے دفتر کال کی جائے تو آپ فوری فون ریسیو کریں اور فون کرنے والے کی بات پوری تسلّی سے سُن کر اُسے مطمئن کریں۔ وہ کیا ہے کہ تمنّا مختصر سی ہے، مگر تمہید ہے طولانی۔ (ہیڈ ماسٹر (ر) منظور حسین بھٹی، ڈیرہ غازی خان)
ج:آپ کی تحریر شایع ہوچُکی ہے۔ کالم نگاروں کے فون نمبرز کی اشاعت ادارے کی پالیسی نہیں۔ اور رہی بات، فوری کال پِک کرنے اور ہر کالر کو مطمئن کرنے کی، تو یہ بات ناممکنات میں سے ہے کہ کال تو پھر کبھی جلدی، کبھی تاخیر سے اٹینڈ کرلی جاتی ہے، لیکن فی زمانہ کسی کو مطمئن کرنا، خصوصاً ریٹائرڈ حضرات کو کم ازکم ہمارے بس کا روگ نہیں۔
فی امان اللہ
اس ہفتے کی چٹھی
سلامِ شرافت نرجس جی !!اور وہ اس لیے کہ جب سے ہم نے بی اے میں داخلہ لیا ہے، تب سے خود سے وعدہ کیا ہے کہ ’’اب اور نہیں..... اب تو سدھرنا ہی پڑے گا۔‘‘ اور نرجس جی! آپ گواہ رہیے گا کہ اب میرا پرانی والی اسماء سے کوئی واسطہ نہیں اور نہ ہی پرانی باتوں سے۔ اور اب کم از کم بی اے کے ایگزام سے پہلے کوئی ویاہ شیاہ کی بات بھی نہیں ہوگی۔ مَیں تو بس ایویں ہی مذاق کرتی تھی۔ یاد رہے، یہ وعدہ صرف اور صرف ایگزام سے پہلے تک کا ہے، اس کےبعد … ہاہاہا، باقی، آپ خود بھی تو سمجھ دار ہیں ناں…’’شامِ استنبول‘‘ آہ! کیا ہی کہنے، یہ ڈاکٹر سمیحہ راحیل قاضی بھی ناں، ہمیں دل کا دورہ پڑوا کر رہیں گی۔ (اب آپ یہ نہ کہیے گا کہ بی بی! اپنے دل کا علاج کروائو..... ہاہاہا) گلبدین حکمت یارفرما رہے تھے کہ ’’دنیا افغانستان کو اپنے مسئلےخودحل کرنے دے۔‘‘ سو فی صد درست بات کہی، حکمت یار صاحب نے، مگر دنیا کو یہ بات کون سمجھائے، اُف! آپ کے ’’اسٹائل‘‘ میں حیام بٹ کے ملبوسات نے تو صنفِ کرخت کی نظروں پر طنز کرنے کے قابل ہی نہیں چھوڑا۔ ہاں، اگلے شمارے میں کیا ہی حسین ملبوسات تھے۔ پیارے پیارے، حیا و حجاب کے معیار پر پورے اُترتے۔ سالِ نو کی مناسبت سے پیاروں کو پیغام بھیجنے کی دعوت دی گئی، مگر یہ پیغام بھیجے گی، اسماء کی… ہم تو ابھی تک کسی کو پیارے ہی نہیں کہ کوئی ہمیں کوئی گِھسا پٹا پیغام ہی بھیج دے، تو بھلا ہم کیوں بھیجیں کسی کو کوئی پیغام۔ منور مرزا پوچھ رہے تھے کہ عالمی طاقتوں کا گٹھ جوڑ کیسے ختم ہوگا، تو ہم بتاتے ہیں، ان عالمی طاقتوں کےدرمیان اُسی طرح پُھوٹ ڈلوانی چاہیے، جیسے ہمارے یہاں لوگ ساس، بہو میں ڈلواتے ہیں۔ بس، پھر دیکھنا منٹوں میں ختم ہوجائے گا یہ گٹھ جوڑ۔ ہاہاہا… ڈاکٹر ہیبت خان حلیمی جیسے باہمّت انسان سے مل کر بےحد خوشی ہوئی، آخر کو میرے بلوچستان سے جو تھے۔ اور ناول تو بہت ہی اچھا، دل چسپ، سبق آموز، معلوماتی اور دل کش ہے۔ (اللہ معاف کرے، دل پر پتّھر نہیں، پہاڑ رکھ کر بولنا پڑا یہ جھوٹ… کہ ہم جیسا کم عقل اتنے پیچیدہ ناول کو خاک سمجھے گا۔ یہ تو کچھ عقل مندوں، سنجیدہ، زیرک لوگوں کے لیے ہے۔ سو، اُن ہی کو مبارک ہو۔) ’’شامِ استنبول‘‘ کا آخری حصّہ پڑھ کر قدرے سکون ملا، ورنہ جب سے پہلا حصّہ پڑھا تھا، دل تو مانو، وہیں کہیں رہ گیا تھا (اُف! پھر وہی دل) ویسے سمیحہ راحیل قاضی کو یہ ضرور بتایئے گا کہ اُن کا ’’شامِ استنبول‘‘ پڑھنے میں ہم اتنے محو ہوئے، اتنےمحو ہوئے کہ جب ماں جی نے کہا ’’اے کُڑی! ذرا میری عینک تے پھڑا۔‘‘ تو جواباً ہم نے فرمایا،’’پلیز اماں! ’’ذرا فیری سے تو اُترنے دیں۔‘‘ ہاہاہا.. ...(اسماء خان دمڑ،سنجاوی، بلوچستان)
ج: ویسے ہماری زیادہ دل چسپی اِس بات میں ہے کہ پھر امّاں نے تمہیں فیری سے اُتارا کیسے…بیلن سے، یا جُتّی سے… ہاہاہا۔
گوشہ برقی خطوط
* مجھے آپ کا میگزین بہت ہی پسند ہے ۔ (محمّد حسین حریفال، ژوب)
ج: اور ہمیں ایسی ای میلز بہت پسند آتی ہیں۔
* مَیں جنگ ’’سنڈے میگزین‘‘ کا مستقل لکھاری ہوں۔ مَیں نے سُنا ہے کہ آپ کے یہاں تحریر بہت ہی مشکل سے شایع ہوتی ہے۔ اورکیا آپ اپنے لکھاریوں کو کچھ معاوضہ بھی دیتے ہیں؟ (فرہاد علی، لال مسجد، حیدر آباد)
ج: جی ہاں، ہمارے یہاں تحریر ذرا مشکل ہی سے شایع ہوتی ہے کہ ہم ’’معیار‘‘ پر کوئی سمجھوتا نہیں کرتے اور معیاری تحریر لکھنا اب ہر ایک کے بس کی تو بات نہیں۔ لکھاریوں کو معاوضہ نہیں دیا جاتا، اس لیے کہ الحمدللہ آج بھی لوگ جنگ اخبار اور سنڈے میگزین میں لکھنے ہی کو ایک اعزاز،اپنا معاوضہ سمجھتے ہیں۔
* مَیں سنڈے میگزین کے لیے ناول لکھنا چاہتی ہوں۔ کیا طریقۂ کار ہوگا۔ (نور فاطمہ)
ج: ناول لکھ چُکی ہیں، تو چند اقساط یا تو پوسٹ کردیں یا ای میل۔ آپ کی تحریر دیکھے بغیر کچھ بھی نہیں کہا جاسکتا۔
* بےحد شکریہ! آپ نے میری تحریر شایع کی۔ کچھ تحریریں لکھ رکھی ہیں، لیکن ابھی بھیج نہیں رہی۔ کیوں کہ آپ کو بھیجی ہوئی اپنی ایک نظم کی بھی اشاعت کی منتظر ہوں۔ (فوزیہ ناہید)
ج: تحریر کی طرح نظم بھی قابلِ اشاعت ہوئی، تو ضرور شایع ہوجائے گی۔
* ایک طویل عرصے سے خواہش تھی کہ کبھی مَیں بھی ’’آپ کا صفحہ‘‘ کا حصّہ بنوں۔ میگزین کی اِک اِک سطر سے آپ اور آپ کی ٹیم کی محنت جھلکتی ہے۔ اللہ تعالیٰ ان محنتی لکھاری ہاتھوں کو بہترین اجر عطا فرمائے۔ اُمید ہے کہ آج آپ کو میری اینٹری پسند آئے گی۔ اور پلیز، مجھے جواب ضرور دیجیے گا، خواہ کوئی نصیحت ہی ہو۔ (اُمِ ادیبہ)
ج: آپ تو خود ’’ادیبہ کی ماں‘‘ ہیں، ہم آپ کو کیا نصیحت کریں۔ ہاں! اتنا ضرور کہیں گےکہ اگر طویل عرصے سے ’’آپ کا صفحہ‘‘ کا حصّہ بننے کی خواہش تھی، تو پھر اس قدر تاخیر کیوں کی۔ آپ کو بہت پہلے یہ نیک کام کرلینا چاہیے تھا۔
قارئینِ کرام !
ہمارے ہر صفحے ، ہر سلسلے پر کھل کر اپنی رائے کا اظہار کیجیے۔ اس صفحے کو، جو آپ ہی کے خطوط سے مرصّع ہے، ’’ہائیڈ پارک‘‘ سمجھیے۔ جو دل میں آئے، جو کہنا چاہیں، جو سمجھ میں آئے۔ کسی جھجک، لاگ لپیٹ کے بغیر، ہمیں لکھ بھیجیے۔ ہم آپ کے تمام خیالات، تجاویز اور آراء کو بہت مقدّم ، بے حد اہم، جانتے ہوئے، ان کا بھرپور احترام کریں گے اور اُن ہی کی روشنی میں ’’سنڈے میگزین‘‘ کے بہتر سے بہتر معیار کے لیے مسلسل کوشاں رہیں گے۔ ہمارا پتا یہ ہے۔
نرجس ملک
ایڈیٹر ’’ سنڈے میگزین‘‘
روزنامہ جنگ ، آئی آئی چندریگر روڈ، کراچی
sundaymagazine@janggroup.com.pk