• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کراچی کے علاقے،رنچھوڑ لائن میں موجود ’’نارائن پورہ کمپاؤنڈ‘‘ ایک ایسی قدیم بستی ہے، جہاں گزشتہ 150 سال سے غیر مسلم مقیم ہیں۔ یہ کمپاؤنڈ 1924ء میں اُس وقت کے مزدور رہ نما ،نارائن داس کی یاد میں بنایا گیا تھا۔ اس سے قبل، یہاں چھوٹی چھوٹی جھگیاں ہوا کرتی تھیں۔ اس گنجان آباد علاقے کےمندر اور دیگر عبادت گاہیں بھی برسوں پرا نی ہیں۔ 

گوکہ اب یہاں دیگر کئی مذاہب سے تعلق رکھنے والے لوگ بھی آباد ہیں ،لیکن، مذاہب کی یہ تفریق کبھی ان کے درمیان حائل نہیں ہوتی کہ سب ہی امن و آشتی ، اتحاد و یگانگت سے رہتے ہیں۔ چھوٹی چھوٹی تنگ گلیاں ، بمشکل دو کمروںکے مکا نات، یہاں کے رہائشیوں کے سر چُھپا نے کا ٹھکانہ ہیں۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہےکہ تنگ، چھوٹے چھوٹے گھروں میں رہنے والوں کے دل اور نظریات بہت وسیع ہیں۔ 

ایک سروے رپورٹ کے مطابق اس وقت شہرِ قائد میں نارائن پورہ ہی غیر مسلموں کی سب سے بڑی آبادی ہے، جہاں ہریجن برادری سے تعلق رکھنے والے ہندوؤں، عیسائیوں اورسکھ برادریوں کی کئی نسلیں آباد ہیں۔ کراچی کی یہ بستی پاکستان میں بین المذاہب یگانگت کی ایک بہترین مثال ہے۔ لیکن گزشتہ دنوں ایک ایسادل خراش واقعہ پیش آیا، جس کی وجہ سے نہ صرف پاکستان میں بسنے والے ہندوو ٔں کی دل آزاری ہوئی ، بلکہ نارائن پورہ کی مذہبی رواداری میں بھی دراڑ پڑتی محسوس ہوئی کہ جب نارائن پورہ مندر میں ایک شخص کی توڑ پھوڑ کی ویڈیو منظرِ عام پر آئی۔ 

بعدازاں، سوشل میڈیا پر بھی اس واقعے کو خُوب اُچھالا گیا،حالاں کہ پولیس کا اس حوالے سے کہنا تھا کہ ’’نوجوان کوئی کام کاج نہیں کرتا اور بظاہر اس کی ذہنی حالت بھی ٹھیک نہیں۔‘‘ نیز، علاقہ مکینوں نے اُس شخص کو موقعے ہی سے پکڑ کر پولیس کے حوالے بھی کردیا۔ بہر کیف، اس واقعے کے خلاف ہندو برادری نے احتجاجی مظاہرہ کرتے ہوئے حکومتِ وقت سے اقلیتوں کو تحفّظ فراہم کرنے کا مطالبہ کیا۔ 

یہاں یہ امر بھی قابلِ ذکر ہے کہ مذکورہ واقعے کے بعد صوبائی وزیر برائے اقلیتی اُمور، گیان چند ایسرانی نے موقعے پر پہنچ کر نہ صرف علاقہ مکینوں کو انصاف فراہم کرنے کی یقین دہانی کروائی، بلکہ صبر کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑنے کی تلقین بھی کی،جس سے معاملے نے سنگین نوعیت اختیار نہیں کی۔ صوبائی وزیر کا کہنا تھا کہ ’’ایسے واقعات سے معاشرے میں بدامنی پیدا ہوتی ہے اور یہ ایک حوصلہ افزا بات ہے کہ نارائن پورہ کمپاؤنڈ میں بسنے والے مسلمانوں نے بھی اس افسوس ناک واقعے کی مذمّت کی اور ہمارے شانہ بشانہ کھڑے رہے۔‘‘ 

واقعے کے حوالے سے علاقہ مکینوں کا کہنا تھا کہ ’’واقعے کے بعد ہر کوئی صدمے میں تھا، کیوں کہ یہاں کے رہنے والوں کی اکثریت مزدور طبقے اور غربا پر مشتمل ہے، تو ہم سب یہی کوشش کرتے ہیں کہ آپس میں مل جُل کر رہیں اور سب سے یہ استدعا بھی کرتے ہیں کہ سب ہمارا اور ہماری عبادت گاہوں کا احترام کریں۔ خوش آئند بات یہ ہے کہ نارائن پورہ کمپاؤنڈ میں مقیم تمام مذاہب کے ما ننے والوں نے مِل جُل کر اس افسوس ناک واقعے کے بعد کی صورتِ حال کو بخوبی سنبھالا۔ 

محض چند شدّت پسند عناصر کی وجہ سے ہم اپنے تمام مسلمان بھائیوں کو غلط قرار نہیں دے سکتے، کیوں کہ مسلما نوں کی اکثریت برداشت، تحمّل اور رواداری کا مظاہرہ کرتی ہے۔ ہم(ہندو، مسلم، سکھ، عیسائی) کئی نسلوں، دہائیوں سے یہاں رہ رہے ہیں، کبھی کوئی نا خوش گوار واقعہ پیش آیا، نہ لڑائی جھگڑا ہوا۔ سب ایک دوسرے کے مذہب کا احترام کرتے اور ایک دوسرے کے تہواروں میں شریک ہوتے ہیں۔ اور ہم سب کا فرض بھی ہے کہ سماجی و مذہبی ہم آہنگی کو فروغ دیں اور معاشرے میں امن و برداشت قائم کر نے کے لیے مربوط کوششیں کریں۔‘‘

نارائن پورہ کمپاؤنڈ کی ایک سماجی رہنما، کنگنا سرسوتی نے واقعے کے بعد اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’’ ہم یہاں وقتاً فوقتاً کُھلی کچہریوں کا انعقاد کرتے رہتے ہیں، جس سے ہمیں ایک دوسرے کے مسائل سمجھنے اورانہیں حل کرنے میں مدد ملتی ہے۔ ‘‘جب کہ نارائن پورہ کےمسلمان رہائشیوں کا اس ضمن میں موقف ہےکہ ’’ہم برسوں سے یہاں ساتھ رہ رہے ہیں، کبھی ایسا کوئی واقعہ پیش نہیں آیا۔ ہم سب ایک دوسرے کے مذاہب کا احترام کرتے ہیں اور ایک دوسرے کے تہواروں میں بھی شریک ہوتے ہیں۔ 

کچھ شرپسند عناصر ہیں، جن سے یہ مذہبی ہم آہنگی و رواداری برداشت نہیں ہوتی، مگر ہم اس انتہاپسندی کا حصّہ نہیں بنیں گے اور ہندوکمیونٹی کو تحفّظ فراہم کرنے اور ان کے تحفظات دُور کر نے کے لیے ہر سطح تک اقدامات کریں گے۔‘‘ مندر واقعے کے حوالے سے ہندوکمیونٹی کے رہنما، راجیش کمار کا موقف قدرے سخت تھا۔ انہوں نے کہا کہ ’’مندر میں توڑ پھوڑ کا یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں۔ اس سے پہلے بھی اندرونِ سندھ ایسے واقعات پیش آچُکے ہیں۔ گزشتہ ماہ ہی کوٹری کے شیو مندر میں توڑپھوڑ کی گئی تھی۔

اسی لیے اقلیتوں، بالخصوص ہندو کمیونٹی میں غم و غصّے کی لہر پائی جاتی ہے اور کمیونٹی میں عدم تحفّظ کا احساس بھی بڑھ رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سوشل میڈیا پر نہ صرف غیر مسلم پاکستا نیوں نے اس واقعے کی مذمت کی، بلکہ بہت سے مسلمانوں نے بھی اس واقعے کو انتہائی افسو س ناک قرار دیا۔‘‘ 

واضح رہے، مولانا طاہر اشرفی سمیت کئی دینی و مذہبی شخصیات نے بھی اس واقعے کی سخت مذمّت کی کہ معاشرے میں عدم برداشت کا بڑھ جانا اور اس طرح کے واقعات پیش آنا قابلِ تشویش ہے۔ اقلیتوں کے جان و مال کے تحفّظ کے ساتھ اُن کی مذہبی آزادی بھی ریاستِ پاکستان کی بنیادی ذمّےداری ہے۔ وگرنہ ایک منظّم، مکمل معاشرے کا تصوّر ہی ختم ہوجائے گا۔