• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

قلم پکارے آزادی

اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کے یہ الفاظ عدل کی خلاف ورزی کا بین ثبوت ہیں کہ ’’پیکا قانون اپنی فطرت میں ڈریکولائی اور نیب قانون سے بھی بدتر ہے‘‘۔ پیکا کالا قانون، کڑوا ہی نہیں زہریلا بھی ہے۔ یہ آزادیٔ اظہار کو کالا پانی بھیجنے کی حکومتی سازش ہے جسے ہر گز قبول نہیں کیا جا سکتا، ہتکِ عزت الگ چیز ہے اور زبانِ اظہار کاٹنا جدا۔ حکومت کی یہ دلیل ہے کہ اس قانون کے نفاذ سے عزتیں محفوظ ہوئی ہیں، کیا عزتوں پر ہاتھ ڈالنے کے لیے حکمرانوں کے ہاتھ کافی نہیں۔؎

ہم آہ بھی کرتے ہیں تو ہو جاتے ہیں بدنام

وہ قتل بھی کرتے ہیں تو چرچا نہیں ہوتا

قوم کو آہ کرنے کی تو اجازت ہونی چاہیے، یہ کالا قانون ایک آزاد ریاست کو غلامی کی تاریکیوں میں دھکیلنے کی کوشش ہے جس کیخلاف ہر زبان گویا ہے۔؎

یہ دہن زخم کی صورت ہے مرے چہرے پر

یا مرے زخم کو بھر یا مجھے گویائی دے

جب سارا ملک پیکا قانون لاگو کرنے کے خلاف ہے تو پھر یہ پھیکا قانون نافذ کرنے کی ضد کیوں؟ عوام مہنگائی اور غلط نوازی کے ستم سے تنگ آچکی ہے تو وہ حکومتی نااہلی کے خلاف بات بھی نہ کریں، قلم کو یوں قلم کرنا آزادیٔ اظہار کا سرقلم کرنے کے مترادف ہے، اس ڈریکونین سیاہ رو قانون کو میڈیا رَد کرتا ہے اور وہ بھی جن کو میڈیا ظلم و زیادتی سے آگاہ کرتا ہے، اس پر دو حرف بھیجتے ہیں، قوم جاگے اور اس کالے قانون کے آگے سیسہ پلائی دیوار بن جائے ورنہ اس کی خدا داد آزادی سلب کرنے کی پوری کوشش ہے،چنانچہ اسے ناکام بنانا آزاد پاکستان کی ناگزیر ضرورت ہے۔

٭٭٭٭

لگا ہے ایٹمی بازار دیکھو

پیوٹن نے دھمکی دی ہے کہ یوکرین جنگ میں مداخلت کی گئی تو کوئی بھی ہتھیار استعمال کر سکتے ہیں جبکہ فرانسیسی وزیر خارجہ کہتے ہیں، نیٹو کے پاس بھی ایٹمی ہتھیار ہیں۔ کیا ان ترقی یافتہ ممالک کے منہ میں زبان نہیں کہ مذاکرات کی میز پر مسئلے کو حل کر لیں؟ کہیں انسانوں کے گھروندے کو انسان ہی نہ پھونک ڈالیں، اس لیے پوری دنیا کو جنگل کی اس آگ کو پھیلنے سے پہلے بجھا دینا چاہیے، ورنہ انسانیت خود آپ اپنے خنجر سے خود کشی کرنے کی غلطی کر بیٹھے گی اور یوں قیامت سے پہلے قیامت ہوگی، دنیا کو ہمیشہ ضد، انتقامی جذبے اور غصے نے بڑے بڑے نقصانات پہنچائے ہیں۔ ہیروشیما آج بھی بنجر ہے حالانکہ وہ ایٹم بم آج کے مقابلے میں کھلونا بم تھا:؎

سخت کافر تھا جس نے پہلے میرؔ

مذہب عشق اختیار کیا

انسان اٹھیں اب بھی وقت ہے ورنہ کسی کی چونچ رہے گی نہ دم، اس گلوبل ویلیج میں سب سے دلکش چیز زندگی ہے، اسے دوام بخشنے کی کوشش تو کی جائے۔ جن ملکوں کو اللہ نے دولت اور علم عطا کیا ہے، وہ اگر بھی جاہلانہ اقدام کریں گے تو پھر کیا یہ کہنا بےجا ہوگا کہ مہذب دنیا پتھر کے زمانے میں جا کر سر پھوڑ بیٹھی ہے؟ باہمی بات چیت ہی کو ایٹم بم سمجھ کر کام نکالا جائے ورنہ زندگی اس دنیا سے نکل جائے گی اور داستان سنانے والا بھی کوئی باقی نہیں رہے گا۔

٭٭٭٭

بےاعتمادی کہاں تک پہنچی

دنیا میں تو جو ہو رہا ہے سو ہو رہا ہے لیکن وطن عزیز میں جو کچھ برپا ہے اس کا انجام کیا ہوگا؟ مفادات نے اپوزیشن کو ہنوز یکجا نہ ہونے دیا کہ عدم اعتماد کی تحریک پیش کر سکے۔ کیا واقعی پاکستان کو موجودہ حکومت سے خطرہ ہے؟ اس پر ریفرنڈم ہی کرا لیا جائے ممکن ہے اس طرح تنگ گلی میں پھنسا ٹٹو نکل جائے، مگر ہمارے ہاں یہ خطرناک سوچ عام ہے کہ اگر کوئی نیک کام کیا جائے تو بدلے میں کیا ملے گا یا پہلے سے کیا دیا جائے گا، یہ انداز اس قدر خود غرضانہ ہے کہ غریب آدمی کی زندگی برقرار رکھنے کی غرض بھی پوری نہیں ہو رہی، عوام اور مذہب کی آڑ ہمارے ہاں بہترین ہتھیار ہے اور جس نے بھی ہم پر سنگ اٹھایا اسے سر یاد نہ آیا، آپ نے دیکھا ہوگا کہ درد جب حد سے گزرتا ہے تو ہنسی چھوٹ جاتی ہے۔ ہمارا اب یہی حال ہے کہ کس جال میں پائوں رکھیں، ظاہر ہے اس پر پھیکی سی ہنسی تو آئے گی۔ بہر حال عدم اعتماد کی تحریک ابھی پائپ لائن میں ہے، آج کی حکومت بھلے موٹے موٹے دلائل پیش کرے مگر دانش بھی ہوتی تو عوامی عدالت سے بری ہو جاتی، خورد برد اب بھی جاری ہے اور بھیک جو مل رہی ہے وہ بھی بھیک مافیا خود ہڑپ کر جاتا ہے۔ بڑے صاحب کے تقویٰ پر کب تک غریب گزارہ کرے گا اوپر سے عدم اعتماد بھی تاحال فسانہ سا ہے، نفع بخش حقیت سے کب ملاقات ہوگی معلوم نہیں۔

٭٭٭٭

کہیں فیوز نہ اُڑ جائے

...oزرداری لاہور پہنچ گئے، تحریک عدم اعتماد پر شہباز شریف سے صلاح مشورہ کریں گے۔

نیگٹو پازیٹیو تاریں ملنے سے فیوز ہی نہ اڑ جائے، غریب لوگو! وقتِ دعا ہے۔

...oترجمان وزیر خزانہ: تمام ٹیکسز لگاتے تو پٹرول کی قیمت 200روپے سے زائد ہوتی۔

صرف ترجمانوں، مشیروں، وزیروں پر جو اخراجات ہو رہے ہیں اگر وہ بھی خزانے میں ہوتے تو پٹرول سستا ہو جاتا، اسی طرح بڑے پیٹوں والے جنہیں ایلیٹ بھی کہا جاتا ہے پورا پورا ٹیکس ادا کرتے تو ترجمان ہیچ مدان 200روپے والی بات نہ کرتے، اگر نظام بھی متقی ہوتا تو شخصِ واحد کے تقویٰ کی ضرورت نہ رہتی۔

...oتعلیمی ادارے پہلا پیریڈ اخلاقیات کا رکھیں، اخلاقیات درست ہو ں تو معاشیات بھی درست ہوگی۔ ذرا اس حقیر سے جملےپر دور تک سوچیں۔

تازہ ترین