• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

زندگی اللہ تعالیٰ کا ایک اَن مول تحفہ ہے، جس کی قدر ہر شخص پر لازم ہے، مگر دیکھا گیا ہے کہ اکثر افراد زندگی میں پیش آنے والے مختلف حالات و واقعات کے روشن پہلوؤں کی بجائے تاریک پہلوؤں ہی پر نظر رکھتے ہیں۔ ذرا سی تکلیف انہیں کوئی بہت بڑی مصیبت لگنے لگتی ہے اور وہ خود کو تنہا، ملول اور پژمردہ محسوس کرتے ہیں۔ 

حالاں کہ یہ افسردگی، اُداسی و نااُمیدی کی کیفیت اگر مستقلاً طاری رہے، حالات سے گھبرا کے خودکُشی جیسے خیالات ذہن میں وارد ہونے لگیں اور اعصاب اس قدر مضمحل ہوجائیں کہ معمولاتِ زندگی انجام دینا مشکل امر بن جائے، تو دماغ کے خلیے متاثر ہوجاتے ہیں اور اس کے نتیجے میں ڈیپریشن کا مرض لاحق ہوجاتا ہے۔ اس کے برعکس اگر کوئی شخص زندگی کےاُتار چڑھاؤ میں خود پر قابو پاکر درست اور صحیح طرزِ عمل اختیار کرتا ہے، تو طبّی اعتبار سے مکمل طور پر صحت مند افراد کی کٹیگری میں شمار کیا جاتا ہے۔

یاد رہے، ڈیپریشن کی کئی اقسام ہیں۔٭نارمل ڈیپریشن:یہ سب سے عام قسم ہے، جو ہر دوسرے فرد میں پائی جاتی ہے۔ اس کےمضر اثرات وقتی ہوتے ہیں اور کچھ وقت گزرنے کے بعد ختم ہوجاتے ہیں۔٭میجر ڈپریسیو ڈس آرڈر:میجر ڈپریسیو ڈس آرڈر روزمرّہ زندگی پر گہرے اثرات مرتّب کرتا ہے، یہاں تک کہ مریض کو اسپتال لے جانے کی نوبت آجاتی ہے۔٭بائی پولر ڈیپریشن:اس میں مبتلا مریض کی شخصیت دو رُخی ہوجاتی ہے۔یعنی کبھی حد سے زیادہ خوش ہوتا ہے، تو کبھی بےحد اُداس۔ 

یہ ڈیپریشن کی خطرناک قسم کہلاتی ہے، کیوں کہ بعض اوقات بائی پولر ڈیپریشن کے شکار مریضوں میں اس حد تک مایوسی بڑھ جاتی ہے کہ وہ خود پر کنٹرول نہیں رکھ پاتے اوراپنی زندگی کا خاتمہ کرلیتے ہیں۔٭پوسٹ پارٹم ڈیپریشن:یہ ڈیپریشن زیادہ تر بچّے کی پیدایش کے بعد، خاص طور پر اُن خواتین کو ہوتا ہے، جو بے حد حسّاس ہوں اور اُن میں قوّتِ برداشت بھی کم ہو۔اس کی علامات میں نیند اور بھوک کی کمی، اُداسی، جھنجھلاہٹ، مایوسی، اینزائٹی، نومولود سے متعلق پریشان رہنا وغیرہ شامل ہیں۔ اس کے علاوہ تقریباً10فی صد خواتین میں یہ خوف پایا جاتا ہے کہ کہیں کوئی ان کے بچّے کو جان سے نہ مار دے۔پوسٹ پارٹم ڈیپریشن کے اثرات زچگی کے دو سے تین ہفتے تک برقرار رہتے ہیں۔

واضح رہے، ڈیپریشن کی جو بھی قسم ہو،اس میں مبتلاا فراد احساسِ کم تری کا شکار ہوجاتے ہیں اوران کی قوّتِ ارادی میں بھی بتدریج کمی واقع ہونے لگتی ہے۔ ڈیپریشن کا مرض عُمر کے کسی حصّے میں بھی متاثر کرسکتا ہے۔بعض افراد زندگی میں ایک ہی بار ڈیپریشن کا شکار ہوتے ہیں، تو ایسے افراد کی بھی تعداد کم نہیں، جو بار بار ڈیپریشن کا شکار ہوتے رہتےہیں۔ عمومی طور پر ایک بار ڈیپریشن میں مبتلا ہونے کے اثرات چھے ماہ سے ایک سال تک برقرار رہتے ہیں۔ پھر ڈیپریشن میں مبتلا مریض اپنے خاندان، دوست احباب، رشتے داروں اور خود سے وابستہ دیگر افراد کی زندگیوں پر بھی منفی اثرات مرتّب کرتے ہیں۔

ڈیپریشن میں مبتلا ہونے کے بھی کئی عوامل ہوسکتے ہیں، جیسے معاشرتی، خاندانی اور نفسیاتی مسائل، شادی نہ ہونا، جہیز ، بے روزگاری، احساسِ کم تری و برتری، محبّت میں ناکامی، جسمانی کم زوری، فاقہ کشی، کاروبار میں نقصان، توقعات ٹوٹنا، غیر سازگار ماحول، موسمی تبدیلیاں، ناپسندیدہ شخصیات یا واقعات اور نشہ آور ادیہ وغیرہ۔ جب کہ خواتین میں غیر منصفانہ رویّہ ڈیپریشن کا سبب بن سکتا ہے، تو کئی دائمی بیماریاں بھی ڈیپریشن جنم دے سکتی ہیں۔ مثلاً قلب، گُردے کے امراض، ذیابطیس، بلڈ پریشر، تپِ دق اور سرطان وغیرہ۔ 

اگر علامات کا ذکر کریں، تو نیند اور کھانے کے عادات میں بے اعتدالی، لوگوں سےالگ تھلگ رہنا، شدید تھکن، کم زوری، بے خوابی، کسی کام میں دِل نہ لگنا، افسردگی، مایوسی، موت کا خوف، قوّتِ برداشت کی کمی، خودکُشی کے بارے میں سوچنا، بات بات پر رونا، خود اعتمادی کا فقدان، ازدواجی زندگی میں اُتار چڑھاؤ، جسم میں تکلیف، درد کا غیر مرئی احساس، خود کو بے یارومددگار سمجھنا، بھوک نہ لگنا، بے چینی و کاہلی، یادداشت کی کم زوری اور گھنٹوں خاموش بیٹھے رہنا وغیرہ شامل ہیں۔ اگر کسی فرد میں ان میں سے کوئی چار علامات پائی جائیں تو اُسے چاہیے کہ فوری طور پر مستند معالج سے رابطہ کرے۔ 

مگر مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے یہاں درج بالا علامات کو معمولی جان کرنظر انداز کردیا جاتا ہے، حالاں کہ یہی علامات بعض اوقات خودکُشی کے اقدام تک لے جاتی ہیں، جس کے بعد اہلِ خانہ کے پاس علاوہ پچھتاوے کے کچھ نہیں رہ جاتا۔ ڈیپریشن کے علاج کے کئی طریقے مستعمل ہیں، جو عموماً مریض کی کیفیات کے مطابق تجویز کیے جاتے ہیں۔ بعض مریض ادویہ کے استعمال سے ڈیپریشن سے نجات حاصل کرلیتے ہیں، بعض کیسز میں تھراپی ناگزیر ہوتی ہے،تو بعض اوقات دونوں ہی طریقے اپنائے جاتے ہیں۔ 

تھراپی کی بھی کئی اقسام ہیں۔ جیسے سائیکو تھراپی میں مریض کو اس کی مرضی کے مطابق ماحول فراہم کیا جاتا ہے اور اس کی پچھلی زندگی کو مدِّنظر رکھتے ہوئے بات چیت کے ذریعے مریض کو اندر سے مضبوط بنایا جاتا ہے۔ کاگنیٹیو تھراپی کے ذریعے مریض منفی، پریشان کُن اور ایسے خیالات کی شناخت کرپا تے ہیں، جو رویّے اور مزاج پر منفی اثرات مرتّب کرتے ہیں۔ اس تھراپی کا دورانیہ عموماً چھے ہفتے سے چار ماہ پر مشتمل ہوتا ہے۔اس کے علاوہ بی ہیورل، کاگنیٹیو۔بی ہیورل، ڈایا لیکٹیکل بی ہیورل اور سائیکو ڈائنامک سمیت مختلف تھراپیز وغیرہ بھی فائدہ مند ثابت ہوتی ہیں۔

ذہنی دباؤ سے نجات حاصل کرنے کے لیے حالات کا مقابلہ کرنا سیکھیں، اپنی سوچ مثبت رکھیں اور عبادت لازمی کریں کہ اس سے ذہنی سُکون ملتا ہے۔اس کے علاوہ متوازن غذا کا استعمال کیا جائے، اپنی سماجی زندگی پر بھی توجّہ دیں ،عزیزوں، پیاروں سے میل ملاقات رکھیں اور باقاعدگی سے ورزش بھی کی جائے۔ (مضمون نگار ہیلتھ کئیر سینٹر،ساہی وال میں فرائض انجام دے رہے ہیں)