• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

روس یوکرین کے مابین حالیہ جنگ کی شدت کے بعد عالمی معاملات پر عمیق نگاہ اور کھلے دماغ رکھنے والے لوگ اس حقیقت سے کما حقہ آگاہ ہیں کہ بنیادی طور پر اس وقت امریکہ، یورپی یونین، برطانیہ، نیٹو اتحاد ایک طرف اور روس اکیلا ایک طرف یہ جنگ لڑ رہا ہے لیکن صورتحال یوں ہے کہ دُنیا بھر کے ذہن بنانے والے سرکردہ میڈیا ہاؤسز اور نیوز ایجنسیاں یکطرفہ تصویر دنیا کو دکھا اور پڑھا رہے ہیں اور یہ پروپیگنڈا مشینری اس دفعہ تو قانون و اخلاقیات کی سبھی حدود و قیود پار کر چکی ہے۔ آج روس کیخلاف یہ پروپیگنڈا مہم اس قدر منظم ہے کہ نقل پر اصل کا گمان ہوتا ہے لیکن اصل صورتحال جاننے کے لیے روس، چین اور الجزیرہ جیسے ٹی وی چینلز دیکھنے بھی ضروری ہیں۔ اگرچہ RT Newsجو روس کا چینل ہے، برطانیہ میں پچھلے ہفتہ سے اس پر پابندی لگا دی گئی ہے تاکہ اُن کا نقطہ نظر سامنے نہ آ سکے۔

امریکہ کی بےپناہ بڑھتی ہوئی طاقت اور اثر انداز ہونے کی صلاحیت کا اندازہ اس حقیقت کو دیکھتے ہوئے بخوبی لگایا جا سکتا ہے کہ پچھلے کوئی 50سال کے دوران امریکہ نے جتنی جنگیں جیتی ہیں ان کے پس پردہ فوج سے زیادہ ان کے میڈیا کا کردار تھا، جو انتہائی اہم بھی تھا اور بھرپور بھی۔ مغربی میڈیا اپنی اشاعت و نشریات کے ذریعے وہ تصویر ہی دنیا کو دکھاتا ہے جو اس کے عسکری ادارے تقاضا کرتے ہیں۔ امریکہ اور دیگر مغربی طاقتوں کے دُنیا کے کمزور اور بےترتیب ملکوں پر پے در پے تہذیبی، فکری اور جنگی حملے اس بات کے غماز ہیں کہ میڈیا یقیناً توپ و تفنگ سے زیادہ مہلک اور پُراثر ہتھیار ہے۔ دُنیا بھر میں پھیلا ہوا امریکی و برطانوی میڈیا اپنی حکومتوں کے مفاداتی ایجنڈے کو اس خوبصورتی سے پھیلاتا ہے کہ صریحاً غلط بھی درست معلوم ہوتا ہے۔ اس دور میں تو اخبارات کے روایتی میڈیا میں 24 گھنٹے سیٹلائٹ ٹیلی ویژن اور اس سے بھی زیادہ مہلک ترین، فیس بک، یوٹیوب اور ٹویٹر کی شکل میں سوشل میڈیا بھی شامل ہو چکا ہے جو گولی کی رفتار سے زیادہ تیز اور بعض صورتوں میں انتہائی خطرناک بھی ہے۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ دنیا بھر میں چل رہے ہر قسم کے میڈیا کا اسٹیئرنگ امریکہ اور برطانیہ کے ہاتھ میں ہے۔ انتہائی سرعت سے نت نئی اشکال میں آنے والے میڈیا کو دیکھتے ہوئے بعید القیاس نہیں کہ مستقبل کی جنگیں فوج نہیں بلکہ میڈیا کے بل پر لڑی اور جیتی جائیں گی۔ لہٰذا پاکستان کو بھی اپنے ملکی میڈیا کو کم از کم عالمی میڈیا کے معیار کے قریب تر لانے کیلئے جنگی بنیادوں پر اقدامات کرنا ہوں گے۔ برٹش براڈ کاسٹنگ کارپوریشن (بی بی سی) کو ہی لیں تو یہ انگریزی کے ساتھ ساتھ ہندی، فارسی، عربی، پشتو اور اردو زبان میں بھی پروگرام پیش کرتا ہے۔ اسی طرح اسکائی نیوز، وائس آف امریکہ، فاکس ٹی وی چینل، اے بی سی، سی این این، رائٹر نیوز ایجنسی جیسے ادارے پروپیگنڈا مشینری کے ذریعے اپنی حکومتوں اور ملکی مفادات کے حق میں معلومات برصغیر، افریقہ اور دیگر ملکوں کے عوام تک پہنچاتے ہیں۔ کیا یہ حقیقت نہیں کہ پاکستان میں بھی بی بی سی کی خبر کو 100فیصد سچ سمجھا جاتاہے اور لوگ اس کے پروپیگنڈے کا شکار بھی ہوتے ہیں۔ سامراجی ممالک اپنے ذرائع ابلاغ سے مکمل طور پر اپنے حق میں پروپیگنڈے کا کام لیتے اور اس کے ذریعے انسانی اذہان کو تسخیر کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ براڈ کاسٹنگ کو انسانی فلاح اور امن و آشتی کیلئے استعمال کرنے کا دعویٰ یوں تو ہر ملک ہی کرتا ہے لیکن اس پر عمل دُنیا کا کوئی ایک ملک بھی نہیں کرتا اور کھلم کھلا اس کی خلاف ورزی ہوتی ہے۔ حیرت کی بات تو یہ ہے کہ اِس قسم کی مکروہ اور خوفناک صورتحال کو روکنے کیلئے اقوامِ متحدہ کا بھی کوئی قانون موجود نہیں ہے حالانکہ صاف دکھائی دے رہا ہے کہ میڈیا کا اس قسم کا پروپیگنڈا عالمی امن کیلئے سود مند نہیں ہے۔ پاکستان میں بھی گزشتہ دو دہائیوں کے دوران میڈیا نے خاطر خواہ ترقی کی ہے لیکن ہمارا میڈیا عالمی رائے عامہ کو تبدیل کرنے یا اس پر اثر انداز ہونے کے مقام کو ابھی چھونے کے قابل بھی نہیں ہوا کیونکہ پاکستان کا پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا آج تک ملکی سیاست کے معاملات سے ہی باہر نکل نہیںسکا۔ ایک اندازے کے مطابق ہمارے میڈیا پر 80فیصد وقت ملکی سیاست یا جُرم و سزا کی خبروں میں اور باقی وقت مذہبی و اعتقادی موشگافیاں ڈسکس ہوتی ہیں۔ پاکستانی میڈیا میں سے کسی کی کوئی شاخ بیرون ملک ہے بھی تو اس کی مثال گھڑے کی مچھلی جیسی ہے، عالمی مسائل و معاملات سے انہیں دور کا بھی معانقہ نہیں، ہمارے میڈیا پر سماجی اور روزمرہ کے انسانی معاملات و مسائل کیلئے بھی جگہ نہیں ہے۔ ہمارے ٹیلی ویژن چینلز پر 24گھنٹے ملکی سیاست پر گفتگو ہوتی ہے حتیٰ کہ طنز و مزاح کے پروگرامز میں بھی سیاست اور ٹاک شوز میں بھی سیاسی اکھاڑ بچھاڑ کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔ دُنیا میں کیا ہورہا ہے اور پاکستان ترقی یافتہ ملکوں میں ہونے والے واقعات میں کس طرح حصہ بن کے خود کو منوا سکتا ہے؟ ہمارا میڈیا اس قسم کی سوچ و رجحان سے کوسوں دور ہے جبکہ ترقی یافتہ ملکوں سمیت بہت سے ترقی پذیر ملکوں کا میڈیا بھی خود کو اس صورتحال کیلئے تیار کر رہا ہے کہ آئندہ برسوں میں ملکوں کے درمیان ہونے والی ہر قسم کی جنگیں فوجیں نہیں میڈ یا لڑے گا۔ ہمسایہ ملک بھارت بھی عالمی سطح پر مذکورہ میڈ یا وار کیلئے خود کو تیار کر رہا ہے، میری اس سوچ کی تصدیق کیلئے چند چوٹی کے بھارتی میڈیا چینلز واخبارات ملاحظہ کریں۔ لندن جیسے شہر میں بھی پاکستانی میڈیا کا کردار موثر ہے اور نہ ہی عالمی معیار کے مطابق۔

صد افسوس کہ پورے پاکستانی میڈیا میں ایک بھی ایسا نہیں جو کسی ترقی یافتہ میڈیا کے ساتھ کھڑا ہو سکے۔ حیرت ناک صورتحال یہ ہے کہ گلوبل ورلڈ اور سیٹلائٹ کے اس تیز تر دور میں پاکستان کا کوئی ٹی وی چینل عالمی زبان انگریزی میں نہیں ہے جسے استعمال کر کے براہِ راست دنیا تک اپنا نقطہ نظر پہنچایا جا سکے۔ اس حقیقت سے بھی مفر ممکن نہیں کہ اگر برطانیہ و دیگر مغربی ممالک میں رہنے والے پاکستانی صحافی ہر وقت اپنی بقاکی تگ و دو اور معاشی تنگدستی کا شکار رہتے ہیں تو پھر ان حالات میں کس طرح ممکن ہے کہ ہم میڈیا وار لڑ سکیں؟ ریاست و حکومت کو اس معاملے پر انتہائی سنجیدگی سے کوئی مربوط پالیسی مرتب کرنا ہوگی کیونکہ بہر حال یہ تو طے ہے کہ آئندہ کی جنگیں افواج اور روایتی ہتھیاروں کی بجائے میڈیا پر لڑی جائیں گی اور بہتر حکمتِ عملی سے جیتی بھی جائیں گی۔

تازہ ترین