• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
آثار بتا رہے ہیں کہ وائٹ ہائوس، امریکی کانگریس، اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ اور دیگر متعلقہ اداروں میں افغانستان کے حوالے سے بےگانگی بلکہ کسی حد تک مایوسی کی سوچ فروغ پارہی ہے۔ وہ اس جنگ گزیدہ ملک میں بحالی امن کا مشن لیکر آئے تھے، جو تمام تر کوشش کے باوجود پایہ تکمیل کو نہیں پہنچ سکا۔ اب انہیں کسی ایسے آسرے کی ضرورت ہے، جو ان کی ہزیمت کا ساجھی ہی نہ ہو، بلکہ اسے اپنے سر لے لے۔ ہمیشہ کی طرح نظر انتخاب پاکستان پر ہے۔ اور توقع کی جارہی ہے کہ جو کام امریکہ اور اس کے اتحادی 400 بلین ڈالر کے خرچہ اور بے پناہ عسکری قوت کے باوجود پندرہ برس میں نہ کرسکے، پاکستان جادو کی چھڑی ہلائے اور اسے پایہ تکمیل کو پہنچا دے۔ امریکی سوچ کی یہ جھلک 12مئی کے نیویارک ٹائمز کے ایڈیٹوریل Time to put the squeez on Pakistan یعنی ’’پاکستان کو نچوڑنے کا وقت‘‘ میں موجود ہے۔ اخبار لکھتا ہے! نائن الیون کو بیتے پندرہ برس ہوگئے۔ افغانستان میں جاری جنگ تھمنے کو نہیں آرہی، جس کا ذمہ دار پاکستان ہے… اس دو غلے اور خطرناک شریک کار نے 32 بلین ڈالر کی خطیر رقم ڈکارنے کے باوجود امریکہ اور افغانستان کیلئے کچھ نہیں کیا… افغانستان میں مقیم امریکی سپاہ کی تعداد دس ہزار سے کم کرکے 5500 کرنے کا صدر اوباما کا فیصلہ محل نظر ہے۔ اور یہ بھی حقیقت ہے کہ بعض طالبان دھڑوں بالخصوص حقانی گروپ کے ساتھ مذاکرات کئے بغیر امن کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکتا اور اس کی چابی پاکستان کے پاس ہے… پاکستان ڈبل گیم کررہا ہے اور ایک عرصہ سے امریکہ کو پریشان کئے ہوئے ہے، اب وقت آگیا ہے کہ اپنی راہ پر لانے کیلئے پاکستان کے عسکری حلقوں پر مزیددبائو ڈالا جائے۔ F/6 کے حوالے سے اقدامات اسی حکمت عملی کا نتیجہ ہیں… بے شک پاکستان کے ساتھ تعلقات کے حوالے سے مسائل اور دشواریاں موجود ہیں مگر قطع تعلق نہیں ہونا چاہئے۔ کیونکہ ہم اب بھی اس کے ساتھ انٹیلی جینس شیئر کرتے ہیں۔ امریکی ڈرونز کے ساتھ دہشت گردوں کو نشانہ بناتے ہیں اور پھر پاکستان دنیا کی تیزی سے ترقی کرتی ہوئی جو ہری طاقت بھی تو ہے۔ اس کے اسلحہ خانوں پر نظر رکھنے کیلئے مکالمہ جاری رہنا چاہئے۔ادھر کابل حکومت کے اعصابی تنائو اور اضطراری کیفیت میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے اپنے مسائل و معاملات کو خود سنبھالنے کی بجائے وہ دوسروں کو اس کا ذمہ دار ٹھہرا رہے ہیں۔ صدر اشرف غنی نے چند ہفتے پیشتر پارلیمنٹ سے خطاب میں وہی رٹے رٹائے جملے دہرائے تھے کہ پاکستان کی طرف سے در اندازی ہورہی ہے۔ مسلح حملے ہورہے ہیں۔ راکٹ برسائے جارہے ہیں۔ ایک ذمہ دار ریاست ہونے کے ناطے پاکستان کا فرض بنتا ہے کہ ایسے عناصر کی حوصلہ شکنی کرے اور ان کا ہاتھ روکے۔ اگر ایسا نہ کیا گیا تو ہم مسئلہ سلامتی کونسل میں لے جائیں گے۔ پہلے کابل نے ہمیشہ طالبان کے ساتھ مذاکرات کا عندیہ دیا اور پاکستان پر بھی زور دیتا رہا کہ اپنا اثر و رسوخ استعمال کرکے انہیں مذاکرات کی میز پر لائے۔ مگراب صورت حال بدلتی دکھائی دیتی ہے۔ پاکستان کو کہا جارہا ہے کہ امن مذاکرات کا جھنجھٹ ختم کرو۔ طالبان کے خلاف ضرب عضب جیسی کارروائی کرکے انہیں نابود کردو اور جو گرفتار ہوں انہیں ہمارے حوالے کرو تاکہ معصوم افغانوں کے قتل کے جرم میں انہیں کیفر کردار تک پہنچایا جاسکے۔ فی الحقیقت گزشتہ ماہ کابل میں ہونے والی دہشت گردی کی کارروائی کے بعد، جس میں 64لوگ مارے گئے تھے، افغان قیادت کے حواس جواب دے چکے۔ اسی اضطراری کیفیت میں صدر اشرف غنی نے چھ طالبان اور ان کے حامی عناصر کو پھانسیاں بھی دیں۔ 2014ء میں برسر اقتدار آنے کے بعد موصوف کی طرف سے انتہائی سزا دئیے جانے کا یہ پہلا موقع ہے۔ جس سے طالبان کے ساتھ مذاکرات کی سب امیدیں وقتی طور پر تو یقیناً ختم ہوچکی ہیں اور بعض حلقے اسے کابل حکومت کا طالبان کے خلاف اعلان جنگ بھی قرار دے رہے ہیں۔ کابل حکومت کے اعصابی تنائو کا ایک اور مظہر افغان آرمی چیف کا بیان ہے۔ جس میں انہوں نے پاکستان کیخلاف فوجی کارروائی کی دھمکی دی۔ موصوف نے فرمایا کہ اگر سرحد پار سے حملے روکنے کے دوسرے طریقے کارگر نہ ہوئے تو افغانستان کی جانب سے فوج کا استعمال آخری آپشن ہوگا۔افغان قیادت کے اس طرز عمل کو نرم سے نرم الفاظ میں افسوسناک ہی کہا جائیگا۔ انہیں معلوم ہونا چاہئے کہ بین الریاستی مسائل و معاملات اضطراری و جذباتی کیفیت میں نمٹائے نہیں جاسکتے۔ اس کیلئے ٹھنڈ ے دل و دماغ کے ساتھ صورتحال کو سمجھنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ افغان سرکار بوجوہ پینک ہوچکی ہے اور ہاتھ پر سرسوں جمانے کی خواہشمند بھی۔ اور مصر ہے کہ پاکستان طالبان کو مذاکرات کی میز پر لائے جس کیلئے چار ملک (پاکستان، افغانستان، چین، امریکہ) مشاورتی گروپ کے تحت اسلام آباد اپنی سی کوشش کرتا آیا ہے۔ گروپ کا پانچواں اجلاس ابھی چند روز پہلے (18مئی) اسلام آباد میں ہوا تھا۔ جس میں سب ممالک نے اس عزم کا بھرپور اظہار کیا تھا کہ افغان مسئلے کے حل کا واحد راستہ مذاکرات ہیں اور امن و مفاہمت کے عمل کو یقینی بنانے کیلئے رکن ممالک اپنے تمام وسائل کو بروئے کار لائیں گے۔ افغانستان کو مفاہمت کی یہ راہ پاکستان ہمیشہ سے سمجھاتا آیا ہے۔ اور یہ باور کرانے کی بھی مقدور بھر کوشش کی ہے کہ طالبان کے ساتھ روابط اور اثر و رسوخ کے معاملے میں خود کابل سرکار کہیں زیادہ موثر کردار ادا کرسکتی ہے کیونکہ وہ نہ صرف افغانستان میں موجود ہیں، بلکہ ملک کے ایک تہائی حصے پر قابض بھی ہیں۔ آثار بتا رہے ہیں کہ پاکستان کی یہ سوچ درست ہے، جس کا ثبوت حال ہی میں کابل سرکار اور حکمت یار کی حزب اسلامی کے درمیان طے پانے والا وہ معاہدہ ہے۔ جس کے تحت نہ صرف حزب اسلامی کو سیاسی تنظیم کے طور پر تسلیم کیا گیا ہے، اس کے قیدیوں کی رہائی پر بھی اتفاق ہوا ہے۔ یہ معاہدہ افغان مفاہمتی عمل کی جانب اہم پیش رفت ہے اور دیگر متحارب گروپوں کے ساتھ بھی اس قسم کے روابط سے افغانستان میں امن کا خواب شرمندہ تعبیر ہوسکتا ہے۔افغانستان برادر ہمسایہ ملک ہے۔ جس کے ساتھ ہماری ترقی اور خوشحالی جڑی ہوئی ہے۔ صدیوں سے ہم بھائیوں کی طرح رہتے آئے ہیں اور باہم میل ملاپ کا یہ عالم کہ سرحدی ضوابط محض سرسری سی کارروائی۔ عشروں سے ہم لاکھوں افغان مہاجرین کی میزبانی کرتے آئے ہیں۔ افغانستان کی تعمیر و ترقی میں مالی وفنی تعاون میں بھی حتی المقدور حصہ ڈالا ہے۔ ماضی بہت پیچھے رہ گیا۔ اب ہم 21صدی کی دوسری دہائی میں سانس لے رہے ہیں۔ جنگ وجدل اور تزویری گہرائی والی باتیں بھی پرانی ہوچکیں۔ اور پھر پاکستان سے بڑھ کر افغانستان میں قیام امن کی خواہش اور ضرورت کس کو ہوسکتی ہے؟ 46 بلین ڈالر کے خرچے سے بننے والی چین پاکستان اقتصادی راہداری پر پوری قوم فوکس کئے ہوئے ہے۔ افغانستان میں امن اور دونوں ملکوں کے مابین اچھے تعلقات کے بغیر اقتصادی راہداری کے ثمرات ادھورے رہیں گے۔ بلکہ افغانستان تو اس منصوبے کا باقاعدہ بینی فشری ہے، جس کی تصدیق چین بھی کرچکا کہ افغانستان سمیت اس خطے کا مستقبل اقتصادی ترقی میں ہے۔ زیادہ تر مسائل غربت اور پسماندگی کا نتیجہ ہیں۔ ترقی کا پہیہ چلے گا۔ تو بہت سی مشکلات خودبخود حل ہوجائیں گی سابق صدر حامد کرزئی نے بھی اقتصادی راہداری منصوبے کو پاک افغان تعلقات میں بہتری کیلئے امید کی آخری کرن قرار دیا ہے۔

.
تازہ ترین