• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

میری ہر بات پر شک کرنے والے اور ہر قصے اور کتھا کو جھوٹ کا پلندہ سمجھنے والے پوچھتے اور کہتے ہیں کہ ایسا دور کیا تم نے خواب میں دیکھا تھا جب ڈالر کی قیمت ڈیڑھ روپیہ ہوتی تھی؟ سونے کی قیمت 125روپے تولہ ہوا کرتی تھی؟ بکرے کے ایک سیر یعنی ایک کلو گوشت کی قیمت ایک روپیہ اور کچھ پیسے ہوتی تھی؟ کلاس ون، یعنی آج کے گریڈ 22کے افسر کی ماہانہ تنخواہ 350روپے ہوتی تھی؟ بالکونی میں بیٹھ کر فلم دیکھنا بہت بڑی عیاشی سمجھی جاتی تھی اور اس عیاشی کی قیمت یعنی ٹکٹ ڈیڑھ روپے کا ہوتا تھا؟ آپ ٹرام میں سوار ہوکر ایک آنے میں کراچی کے کسی بھی دور دراز علاقے سولجر بازار، کیماڑی، کینٹ، چاکیواڑا اور لارنس روڈ کے پچھواڑے میں واقع گاندھی گارڈن جا سکتے تھے؟ ( گاندھی گارڈن کو اب چڑیا گھر کہتے ہیں)۔ اس نوعیت کے بےشمار سوال مجھ سے پوچھے جاتے ہیں۔ آپ اپنے شکوک و شبہات کی آبیاری کرتے رہیں، اس کام پر کسی قسم کی کوئی روک ٹوک نہیں ہے۔ آپ موبائل فون سے شغل تو ضرور فرماتے ہوں گے۔ انٹر نیٹ پر جاکر آپ فقیر کے سنائے ہوئے قصوں کی تصدیق کر سکتے ہیں۔ اعداد و شمار میں اونچ نیچ ہو سکتی ہے مگر واقعات، قصے، کہانیاں وہی ہیں جو فقیر نے چشم دید گواہ کے طور پر دیکھے ہیں بلکہ ان قصے کہانیوں میں فقیر ایک گمنام کردار کے طور پر شامل رہ چکا ہے۔ اس بات پر حیران پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ آپ جس دور میں سانس لے رہے ہوتے ہیں، لامحالہ آپ اس دور میں اپنا کردار نبھا رہے ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ آپ کے پاس کسی قسم کی چوائس، متبادل طریقہ کار نہیں ہوتا۔

آپ صرف اتنا سوچیں کہ 1960سے پہلے والا پاکستان آج کل کے پاکستان سے کیوں مختلف تھا؟ 1960کے بعد آنے والی نسلوں کو میں یقین دلاتا ہوں کہ تب پاکستان کے سر پرنظر آنے والا آسمان ایسا ہی تھا، جیسا آج ہے۔ دھرتی ہو بہو ویسی ہی ہے جیسی 1960سے پہلے دکھائی دیتی تھی۔ سمندر وہی ہے، ویسا ہی ہے، جیسا 1960سے پہلے ہوا کرتا تھا مگر آج کا سمندر ڈرا ڈرا اور سہما سہما سالگتا ہے۔ لوگوں سے ڈر کرکئی کلو میٹر دور ہوگیا ہے۔ 1960سے پہلے سمندر کی لہریں جہانگیر کوٹھاری پریڈ کی سیڑھیوں سے آکر لگتی تھیں۔ کراچی کی کسی بھی مستند، قابلِ اعتبار اور لائقِ اعتماد تاریخ میں لکھا ہوا نہیں ملتا کہ کراچی پر سونامی کی قیامت کبھی ٹوٹی تھی۔ کہتے ہیں کہ یہ کرشمہ دو معتبر ہستیوں کی وجہ سے ہے، ایک ہےبھگوان شو اور دوسرے ہیں، سید عبداللہ شاہ غازیؒ۔ دونوں کے ادوار میں تین ہزار سال کا فرق ہے۔ شومندر کلفٹن کی جہانگیر کوٹھاری پریڈ کے نیچے، غار یاگچھا میں بنا ہوا ہے۔ عبداللہ شاہ غازیؒ کے جسد خاکی کا مقبرہ قریب ہی ایک ٹیلے پربنا ہوا ہے۔ سمندر جب پسپا نہیں ہوا تھا، تب بپھرے ہوئے سمندر کی لہریں ٹیلے سے آکر ٹکراتی تھیں۔ ٹیلے کے پچھواڑے میں پینے کے پانی کا قدرتی چشمہ ہے جس پر مزار کا انتظام چلانے والوں کی اجارہ داری ہے۔ 1960والے پاکستان اور آج کے پاکستان میں بنیادی فرق ہے۔ 1960والا پاکستان، یعنی قائد اعظم کا بنایا ہوا پاکستان پانچ صوبوں پر مشتمل ملک تھا۔ آج کا پاکستان چار صوبوں پر مشتمل ملک ہے۔ چوبیس برس ہنسی خوشی ساتھ رہنے کے بعد 1971 میں مشرقی پاکستان والوں نے ہمیں خدا حافظ کہا اور اپنا الگ تھلگ ملک بنگلہ دیش بنالیا۔ یہ علیحدگی بڑے پیار محبت سے عین اسی طرح ہوئی تھی جس طرح 1947میں برصغیر کے بٹوارے کے وقت ہوئی تھی۔ کوئی لڑائی جھگڑا نہیں ہوا تھا۔ خون خرابہ نہیں ہوا تھا۔ الگ ہوتے ہوئے ہم نے ایک دوسرے کو گلدستے پیش کیے تھے۔ تحفے تحائف دیے تھے۔ الگ ہوتے ہوئے ہم ایک دوسرے سے گلے ملکر بہت روئے تھے۔ ایسی تھی بنگالیوں سے ہماری محبت۔ مشرقی پاکستان کے وداع ہونے اور بنگلہ دیش بن جانے کے بعد پیچھے رہ گیا مغربی پاکستان۔ ایک غیرمنتخب اسمبلی نے مغربی پاکستان سے لفظ مغربی خارج کردیا۔ ہم پھر سے بن گئے پاکستان مگر موجودہ پاکستان قائد اعظم والا پاکستان نہیں ہے۔ قائد اعظم والے پاکستان میں پانچ صوبے تھے۔ موجودہ پاکستان میں چار صوبے ہیں۔ اس لیے موجودہ پاکستان قائد اعظم والا پاکستان نہیں ہے۔ کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ موجودہ پاکستان ذوالفقار علی بھٹو کا پاکستان ہے مگر با اثر سیانوں کا فرمانا ہے کہ موجودہ پاکستان دودھ میں دھلے ہوئے اشخاص کا پاکستان ہے۔ اس بارے میں کچھ کہنا میں مناسب نہیں سمجھتا۔ میں صرف اتنا جانتا ہوں کہ موجودہ پاکستان اس دن عالم وجود میں آیاتھا جس روز بنگلہ دیش بناتھا۔ تاریخی اکھاڑپچھاڑ کے وقت مشرقی پاکستان میں 65ملین یعنی 6کروڑ 50لاکھ پاکستانی رہتے تھے اور مغربی پاکستان میں 5کروڑ 80لاکھ پاکستانی رہتے تھے۔ اس لحاظ سے پاکستان کا بڑا حصہ پاکستان کے چھوٹے حصے سے الگ ہوگیا تھا۔ ایک اور سبب بھی ہے جس کی وجہ سے 1960ءوالے مغربی پاکستان کوآج کے پاکستان کے مقابلہ میں پس ماندہ پاکستان سمجھا جاتا ہے۔ تب موبائل فون ایجاد نہیں ہوئے تھے۔

تازہ ترین