گزشتہ برس نومبر میں پاکستان میں لمپی اسکن ڈیزیز کا پہلا کیس سامنے آیا، جس کے بعد یہ مرض بڑھتا ہی چلا گیا اور تادمِ تحریر( 16 مارچ تک) 25ہزار سے زاید مویشی اِس مرض کی لپیٹ میں آچکے ہیں ، جن میں سے 200کے قریب ہلاک بھی ہوگئے۔ واضح رہے، یہ سرکاری اعداد وشمار ہیں، جب کہ متعلقہ افراد متاثرہ اور مرنے والے جانوروں کی تعداد کہیں زیادہ بتاتے ہیں۔چوں کہ ہمارے ہاں گائے، بھینس کا دودھ اور گوشت کثرت سے استعمال کیا جاتا ہے، تو اِس مرض کے پھیلاؤ کی خبروں پر عوام کا تشویش میں مبتلا ہونا یقینی تھا اور ایسا ہی ہوا۔
یوں ایک طرف مویشی مالکان پریشان ہیں، تو دوسری طرف دودھ اور گوشت کے کاروبار سے وابستہ افراد بھی سر پکڑے بیٹھے ہیں، جب کہ عوام بھی خوف زدہ ہیں کہ وہ کچھ عرصہ قبل ہی کورونا وبا کی تباہ کاریاں دیکھ چُکے ہیں، جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ ایک جانور ہی سے انسانوں میں منتقل ہوئی تھی۔
لمپی اسکن ڈیزیز کے پس منظر میں کئی اہم سوالات سامنے آئے ہیں، جیسے(1) یہ بیماری کیا ہے؟(2) اس کا ہدف کون سے جانور ہیں؟ (3) کیا اِن جانوروں کا دودھ اور گوشت انسانی صحت کے لیے نقصان دہ ہے؟(4) کیا یہ بیماری جانوروں سے انسانوں میں منتقل ہوسکتی ہے؟ (5)اِس مرض کے معاشی نقصانات کیا ہیں؟ اور(6) اِس سے نمٹنے کے لیے کیا کچھ کیا جا رہا ہے؟ تو آئیے! اِن سوالات کے جوابات تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
لمپی اسکن ڈیزیز ہے کیا؟
متاثرہ مویشیوں کے مالکان کے بیانات کے مطابق، اِس بیماری میں جانور کے جسم پر دانے نکلتے ہیں، جو وقت کے ساتھ بڑے پھوڑوں میں بدل جاتے ہیں اور پھر پیپ سے بَھرے یہ پھوڑے پَھٹنے سے جسم پر جگہ جگہ زخم بن جاتے ہیں۔ یہ پھوڑے گردن، پٹھّوں، تھنوں اور تولیدی اعضاء کو خاص طور پر متاثر کرتے ہیں، جب کہ یہ بیماری جانوروں کے لیے بہت اذیّت ناک بھی ہے۔آغا خان یونی ورسٹی اسپتال کی ایک رپورٹ کے مطابق، یہ بیماری کیڑوں کے کاٹنے، زخم اور جراثیم زدہ اشیا کے ذریعے پھیلتی ہے۔
ڈاکٹرجادیو، سندھ حکومت کے سینئر ویٹرنری ڈاکٹر ہیں۔ اُن کا کہنا ہے کہ’’ لمپی اسکن ڈیزیز، جسے عام زبان میں’’ گانٹھ‘‘ کہتے ہیں،ایک متعدّی جِلدی مرض ہے، جو خون چُوسنے والے کیڑوں، مچھروں اور مکّھی سے لاحق ہوسکتا ہے۔جسم اور زبان پر پھوڑے، بخار، متاثرہ جانور کا سُست پڑ جانا اور بھوک کا نہ لگنا اِس مرض کی عام علامات ہیں، تاہم کئی جانوروں میں علامات ظاہر نہیں بھی ہوتیں۔‘‘
وزارت نیشنل فوڈ سیکیوریٹی کے جاری کردہ بیان میں بھی یہی بتایا گیا کہ یہ بیماری مچھروں، کھٹملوں کے کاٹنے اور مکھیوں سے پھیلتی ہے۔تاریخی طور پر اِس بیماری کا مرکز افریقا ہے، جہاں 1929ء میں پہلی بار اِس کی تشخیص ہوئی۔ وہاں سے یہ مشرقِ وسطیٰ منتقل ہوئی اور پھر اُسی کے راستے 2012ء میں یونان،تُرکی، بلغاریہ اور بلقان سمیت کئی ممالک میں جا پہنچی۔ انڈونیشیا میں بھی چند برس قبل اِس بیماری کے کئی کیسز سامنے آئے۔
کہا جاتا ہے کہ 2019ء میں بنگلادیش کے ذریعے ایشیائی ممالک اِس کی زد میں آئے اور"Food and Agriculture Organization of the United Nations" (FAO)کے مطابق یہ بیماری ایک برس میں سات ممالک، چین، بھارت، نیپال، تائیوان، بھوٹان، ویت نام اور ہانگ کانگ تک جا پہنچی۔ عالمی ادارے کے مطابق، ایشیا کے 23ممالک اِس بیماری کے خطرے سے دوچار ہیں۔2019ء میں یہ مرض پڑوسی مُلک، بھارت میں بھی تباہی مچاتا رہا ہے، جہاں اس سے15 ریاستیں متاثر ہوہیں، تاہم پاکستان میں یہ پہلی بار گزشتہ برس نومبر میں سامنے آیا ۔
کون سے مویشی متاثر ہو رہے ہیں؟
ہمارے ہاں گائیں، بھینسیں، بکریاں، بھیڑیں اور اونٹ وغیرہ پالنے کا رواج ہے، جن سے دودھ اور گوشت کے ساتھ کئی اور طرح کے بھی مالی فوائد حاصل کیے جاتے ہیں۔ دیہات ہی نہیں، اب شہروں میں بھی ان کے بڑے بڑے باڑے موجود ہیں۔ لہٰذا لمپی اسکن ڈیزیز کی خبروں نے مویشی مالکان اور اُن کا گوشت، دودھ استعمال کرنے والے عام شہریوں کو تشویش میں مبتلا کردیا کہ جانے کون کون سے مویشی اِس مرض کے نشانے پر ہیں؟
تاہم، وزارت نیشنل فوڈ سیکیوریٹی نے ایک تحریری بیان میں زور دے کر کہا کہ یہ بیماری صرف گائے میں پائی جاتی ہے اور باقی جانور اس سے مکمل طور پر محفوظ ہیں۔ یہی بات سندھ کے ڈی جی، لائیواسٹاک نے متعدّد بار دُہرائی۔سندھ کے لائیو اسٹاک کے وزیر نے پریس کانفرنس میں بتایا کہ’’ یہ بیماری صرف گائے میں پائی جاتی ہے، جو صوبے میں مویشیوں کی کُل تعداد کا صرف 0.2 فی صد ہیں۔‘‘ڈاکٹر جادیو نے عالمی ادارۂ صحت کی ایک رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ’’ گائے کے علاوہ کسی اور جانور میں لمپی کے شواہد نہیں ملے۔‘‘ البتہ، بعض ماہرین کی جانب سے یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ بھینسیں بھی ممکنہ طور پر لمپی کی زد میں آسکتی ہیں۔
بیماری کا پھیلاؤ
بعض رپورٹس کے مطابق لمپی اسکن کا پہلا کیس پنجاب کے علاقے، بہاول پور میں سامنے آیا، تاہم اِس مرض کے زیادہ اثرات سندھ میں دیکھے جا رہے ہیں۔ کراچی اور ٹھٹّھہ میں اس وبا کی شدّت باقی علاقوں کی نسبت زیادہ ہے۔25ہزار متاثرہ جانوروں میں سے 16 ہزار کا تعلق کراچی اور4 ہزار کا ٹھٹھہ سے ہے۔ یہ معاملہ اِس لیے بھی خطرناک ہے کہ ان دونوں علاقوں میں قائم باڑوں ہی سے کراچی کے کروڑوں شہریوں کو دودھ فراہم کیا جاتا ہے۔
حیدر آباد، بدین،جام شورو، خیرپور، مٹیاری، شہید بے نظیر آباد،سانگھڑ، تھانہ بولا خان، قمبر، شہداد کوٹ، ٹنڈو محمّد خان، دادو اور عُمرکوٹ سے بھی لمپی اسکن ڈیزیز کے درجنوں کیسز رپورٹ ہوئے ہیں۔ گویا سندھ کے بیش تر علاقے نہ صرف یہ کہ اِس کی لپیٹ میں ہیں، بلکہ مرض تیزی سے پھیل بھی رہا ہے۔
دودھ، گوشت وائرس زدہ تو نہیں؟؟
بڑے شہروں، بالخصوص کراچی کے باسی اِس بیماری کے حوالے سے بے حد تشویش میں مبتلا ہیں کہ شہر کے نواحی علاقوں میں قائم باڑے لمپی کی لپیٹ میں ہیں، جہاں سے عوام کو دودھ فراہم کیا جاتا ہے، جب کہ اندرونِ سندھ سے روزانہ ہزاروں جانور، گوشت کی ضروریات پوری کرنے کے لیے کراچی لائے جاتے ہیں۔ تشویش کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ بھینس کے نام پر بکنے والے دودھ میں بھی بیش تر مقامات پر گائے کا دودھ شامل کیا جاتا ہے اور باڑوں میں موجود گائیں ہزاروں کی تعداد میں لمپی کا شکار ہیں۔
عوام کے خوف زدہ ہونے کا ایک سبب وہ اطلاعات بھی ہیں، جن کے مطابق مویشی مالکان بیمار جانوروں کو اونے پونے شہر کے قصابوں کو بیچ رہے ہیں۔بھینس کالونی، کراچی کے ایک مویشی باڑے کے مالک کی ویڈیو سوشل میڈیا پر خُوب وائرل ہوئی، جس میں اُس کا کہنا تھا کہ’’ میری 8 لاکھ کی گائے بیمار ہے، جو قسائی کو 15، 20ہزار میں فروخت کرنی پڑے گی۔‘‘اِن حالات میں گھر گھر اِسی سوال کی گونج سُنائی دیتی ہے کہ’’ کیا اب کُھلے دودھ اور گوشت کا استعمال صحت کے لیے خطرناک تو نہیں؟‘‘
اِس ضمن میں آغا خان یونی ورسٹی اسپتال نے اپنی تحقیق’’ ایمرجنگ انفیکشن الرٹ: لمپی اسکین ڈیزیز‘‘ میں واضح کیا ہے کہ متاثر جانوروں کے گوشت اور دودھ کے استعمال سے انسانی جسم میں بیماری منتقل نہیں ہوتی۔ البتہ، دیگر انفیکشنز سے بچنے کے لیے غذائی تحفّظ یقینی بنانا چاہیے، یعنی جراثیم سے پاک اور اچھی طرح اُبلا ہوا دودھ استعمال کیا جائے،نیز، گوشت کو اچھی طرح پکایا جائے اور اس گوشت کو چُھونے کے بعد صابن اور پانی سے اچھی طرح ہاتھ دھونے چاہئیں۔
ورلڈ اینیمل ہیلتھ آرگنائزیشن (او آئی ای) کا کہنا ہے کہ لمپی اسکن ڈیزیز سے متاثرہ جانور کا گوشت استعمال کیا جاسکتا ہے۔وزارت نیشنل فوڈ سیکیوریٹی کی جانب سے اعلامیے میں کہا گیا کہ انسانوں پر مویشیوں کی بیماری، لمپی اسکن کے کوئی مضر اثرات مرتّب نہیں ہوتے۔ اعلامیے میں یہ بھی کہا گیا کہ متاثرہ مویشیوں کا اُبلا ہوا دودھ اور اچھی طرح پکا ہوا گوشت انسانی استعمال کے لیے محفوظ ہے۔ سندھ لائیو اسٹاک کے ڈائریکٹر جنرل، نذیر حسین کلہوڑو نے بھی طبّی ماہرین کے حوالے سے واضح کیا ہے کہ عوام کسی خوف کے بغیر دودھ اور گوشت کا استعمال جاری رکھیں۔
خوف پھر بھی برقرار
طبّی ماہرین اور حکومت کی بار بار وضاحت کے باوجود کہ’’ لمپی سے متاثرہ جانور کا دودھ اور گوشت مضرِ صحت نہیں‘‘، عوام میں خوف تاحال برقرار ہے۔ ناظم آباد کے علاقے، ہادی مارکیٹ کی ایک ڈیری شاپ سے دودھ خریدنے والے ادھیڑ عُمر شخص سے بات ہوئی، تو اُن کا کہنا تھا کہ’’ خوف تو بہت ہے، مگر اب دودھ کے بغیر رہا بھی نہیں جاسکتا۔ البتہ، پہلے روزانہ ڈھائی کلو دودھ لیا کرتے تھے، مگر اب آدھا کلو لیتے ہیں، جس سے صرف چائے بنتی ہے۔‘‘مِلک شاپ کے مینیجر نے ایک سوال کے جواب میں بتایا، ’’ہمارے سیٹھ کی مختلف علاقوں میں تین، چار دُکانیں ہیں۔
پوش علاقوں کی دُکانوں میں تو کام ٹھپ ہوگیا ہے کہ لوگ پڑھے لکھے ہیں، جو کچھ زیادہ ہی احتیاط کرتے ہیں۔ باقی درمیانے علاقوں کی دُکانوں کی سیل پر زیادہ فرق نہیں پڑا۔‘‘ اکرم گجّر کی کریم آباد میں بیکری کے ساتھ ڈیری شاپ ہے، جب کہ اُن کا دودھ کی سپلائی کا بھی خاصا وسیع کاروبار ہے۔ ایک دوست کے ذریعے اُن سے لمپی سے پیدا شدہ صورتِ حال پر بات ہوئی، تو بتایا،’’ دو ہفتوں میں 12 لاکھ روپے کا نقصان ہوچکا ہے۔
دُکان دار دودھ واپس کر رہے ہیں، یہاں تک کہ منڈی میں آج(16 مارچ) 4 ہزار روپے مَن کا ریٹ کُھلا، مگر کوئی خریدار ہی نہیں تھا۔بہت سے دودھ فروش نقصان سے بچنے کے لیے ناگن چورنگی کے قریب واقع فیکٹری کا رُخ کررہے ہیں تاکہ دودھ سے کریم ہی نکلوا لی جائے، مگر وہاں بھی بہت رش ہے اور اوپر سے گرمی کی وجہ سے گاڑیوں ہی میں دودھ خراب ہو رہا ہے۔‘‘یہی حال گوشت کا ہے۔ عوام نے بڑے گوشت کا تو تقریباً بائیکاٹ کردیا ہے، جب کہ بکرے کے گوشت نے خود عوام کا بائیکاٹ کر رکھا ہے کہ عام آدمی اُسے خریدنے کی سکت ہی نہیں رکھتا۔ لوگوں نے مرغی کے گوشت کی طرف رُخ کیا، تو اُس کے نرخ بھی آسمان پر جا پہنچے۔کئی علاقوں میں قصابوں اور دودھ فروشوں نے اپنی دکانوں پر طبّی ماہرین کی آرا پر مبنی پینا فلیکس آویزاں بھی کر رکھے ہیں، مگر اس کے باوجود عوام کے خوف میں کمی نہیں آ رہی۔
حکومت نے پھر دیر کردی!
نومبر میں مرض کے پھیلاؤ کی اطلاع ملی، طبّی ماہرین نے ویکسین کو اس کا علاج بتایا اور 15مارچ کو یعنی تقریباً چار ماہ بعد جب بیماری کئی اضلاع تک پھیل گئی، تب ویکسین منگوانے کی منظوری دی گئی۔سندھ کے وزیر لائیو اسٹاک،عبدالباری پتافی نے پریس کانفرنس میں بتایا کہ ’’جب نیا وائرس آیا، تو ہم نے اُس کے ٹیسٹ کے لیے نمونے بھیجے، 3 مارچ کو وفاقی حکومت نے نوٹی فکیشن جاری کیا، 4 مارچ کو اسے کنفرم کیا گیا، جس کے بعد ہم نے لوگوں کو اس سے متعلق آگاہ کرنا شروع کردیا اور میونسپل کمشنرز کو باڑوں میں مچھر مار اسپرے کے لیے خط لکھا۔‘‘
اگر دیکھا جائے، تو وفاقی اور سندھ حکومتیں اس معاملے میں غفلت، لاپروائی اور ناقص حکمتِ عملی کی مرتکب ہوئیں۔ پہلے سندھ بھر میں مویشی منڈیوں پر پابندی عاید کی گئی،پھر چند روز بعد پابندی اُٹھا لی گئی،مگر کچھ روز بعد دوبارہ مویشی منڈیاں لگانے پر پابندی عاید کر دی گئی۔جب کہ پنجاب حکومت نے سندھ سے جانوروں کی آمد پر غیر تحریری پابندی لگانے کے ساتھ مارچ میں ہونے والے کیٹل شو میں بھی سندھ سے جانور لانے کی اجازت نہیں دی۔
ایک ایسا مسئلہ، جس سے کروڑوں شہری براہِ راست تعلق رکھتے ہوں، اُن کی صحت اور کاروبار داؤ پر لگا ہو، اس سے متعلق حکومت کی جانب سے ایسے اقدامات دیکھنے کو نہیں ملے، جن سے اندازہ لگایا جاسکے کہ صاحبانِ اقتدار کو عوامی مشکلات کا کوئی احساس بھی ہے۔ ایک طرف مُوذی مرض سے بچاؤ کے اقدامات میں مجرمانہ تاخیر کی گئی، تو دوسری طرف عوام کو افواہوں کے رحم وکرم پر چھوڑ دیا گیا۔ وفاقی اور صوبائی ادارے اپنی نااہلی کے سبب مویشی مالکان اور عوام کی رہنمائی میں ایک بار پھر بُری طرح ناکام ثابت ہوئے۔
علاج کیا ہے؟
جب مشرقی یورپ میں یہ وبا پھیلی، توایک سال میں 18 لاکھ سے زاید مویشیوں کی ویکسی نیشن کی گئی، جس کے سبب اب وہاں یہ وبا ختم ہو چُکی ہے۔ڈاکٹر جادیوکے مطابق اِس مرض کا اصل علاج یہی ہے۔ تاہم، اس کے ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ متاثرہ جانوروں کو دیگر جانوروں سے الگ رکھا جائے تاکہ وائرس صحت مند جانوروں میں منتقل نہ ہونے پائے۔ اِسی طرح بیمار جانوروں کے علاج معالجے میں شامل طبّی عملے اور صفائی وغیرہ کے کام کرنے والوں کو بھی صحت مند جانوروں سے دُور رہنا چاہیے۔
عیدِ قرباں
گو کہ بقر عید میں ابھی کافی دن ہیں، تاہم بہت سے لوگ قربانی کا جانور کئی ماہ قبل ہی خریدنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ اِسی طرح قربانی کے جانور، بچھیا وغیرہ کو کاروباری نقطۂ نظر سے بھی بڑے پیمانے پر پالا جاتا ہے۔ اگر لمپی اسکن ڈیزیز پر فوری قابو نہ پایا گیا اور خدا نخواستہ مرض مزید پھیلا ،تو اس سے قربانی کے جانور بھی متاثر ہوسکتے ہیں، جس سے ایک طرف عوام کے لیے قربانی کے فریضے کی انجام دہی مشکل ہوگی، تو دوسری طرف، جو لوگ سال بھر صرف یہی کام کرتے ہیں، اُنھیں سخت معاشی نقصان کا بھی سامنا کرنا پڑے گا۔
دودھ فروش، قصاب کیا کہتے ہیں؟
لمپی نے جہاں مویشی مالکان سے سکون چھین لیا ہے، وہیں دودھ فروش اور قصاب بھی بے حد پریشان ہیں کہ اُن کا کاروبار بُری طرح متاثر ہوا ہے۔ ڈیری اینڈ کیٹل فارمرز ایسوسی ایشن کے صدر، شاکر عُمر گُجر سے لمپی کے اثرات کے حوالے سے بات ہوئی، تو اُن کا کہنا تھا کہ’’ جب اِس بیماری کی اطلاعات سامنے آئیں، تو ہم نے فوری طور پر آواز اٹھائی اور متعلقہ حکّام سے ضروری اقدامات کا مطالبہ کیا، مگر ہمیں یہ کہہ کر چُپ کروا دیا گیا کہ’’ اِس معاملے کو زیادہ نہ اُٹھائیں، کیوں کہ ہماری ایکسپورٹ متاثر ہوسکتی ہے۔‘‘
سو، حکومتی سطح پر اِس مرض کی روک تھام کے لیے اِس دوران کوئی قدم نہیں اُٹھایا گیا۔ مَیں نے وزیرِاعظم کے سیٹزن پورٹل پر بھی شکایت درج کروائی، لیکن کسی کے کان پر جوں تک نہیں رینگی۔ پھر جب حالات قابو سے باہر ہوئے، تو حکومت آنکھیں ملتی ہوئی اُٹھی۔ جب حکومت کو علم تھا کہ بھارت میں یہ مرض پھیل رہا ہے، تو اُسے لمپی سے نمٹنے کے لیے پیشگی اقدامات کرنے چاہیے تھے۔ جیسے ہی یہ بیماری پھیلی اسمگلرز حرکت میں آگئے اور جنوبی افریقا وغیرہ سے ویکسینز لاکر لاکھ، ڈیڑھ لاکھ روپے میں فروخت کرنے لگے، جب کہ حکومت نے ساڑھے چار، پانچ ماہ بعد ویکسینز منگوانے کا فیصلہ کیا۔
لاکھوں افراد کا روزگار دودھ کے کاروبار سے وابستہ ہے، جو اب بے یقینی کا شکار ہیں۔ بڑے تاجر تو کسی نہ کسی طرح اِس بحران سے نمٹ ہی لیں گے، مگر اصل مسئلہ چھوٹے فارمرز کا ہے، جن کے نقصان کا ازالہ کیا جانا ضروری ہے۔‘‘اُنہوں نے مطالبہ کیا کہ’’ جو وفاقی اور صوبائی ادارے کوتاہی کے مرتکب ہوئے ہیں، اُن کے خلاف سنگین مجرمانہ غفلت کے مقدمات درج کیے جائیں۔‘‘ کراچی کے گوشت فروشوں کی تنظیم’’میٹ مرچنٹ ویلفیئر ایسوسی ایشن‘‘ کی جانب سے کراچی پریس کلب کے باہر مظاہرہ کیا گیا، جس کے دَوران تنظیم کے صدر، ندیم قریشی نے بتایا کہ’’لمپی کے سبب گوشت کی فروخت میں60 فی صد تک کمی آئی ہے، جس کی وجہ سے5 لاکھ گوشت فروشوں کا کاروبار ٹھپ ہوگیا۔‘‘
اُنھوں نے سندھ لوکل گورنمنٹ ڈپارٹمنٹ سے فوری طور پر صوبے کی تمام مویشی منڈیاں کھولنے کا بھی مطالبہ کیا۔ اِس ضمن میں اُنھوں نے مؤقف اختیار کیا کہ’’ مویشی منڈیوں سے خریدے گئے جانور صاف ستھرے اور صحت مند ہوتے ہیں۔‘‘یہاں یہ بات بھی یاد رہے کہ کراچی کے شہریوں کی گوشت کی ضروریات پوری کرنے کے لیے روزانہ سیکڑوں جانور لائے جاتے ہیں، لیکن شہر کے داخلی راستوں پر ان کی صحت جانچنے کا کوئی باقاعدہ نظام نہیں۔
البتہ، کاغذی کارروائی کے لحاظ سے متعلقہ ادارے بہت’’ فعال‘‘ ہیں۔ یہی حال سرکاری مذبحے خانوں کا ہے۔ وہاں تعینّات ڈاکٹرز ڈیوٹی پر موجود نہیں ہوتے اور مبیّنہ طور پر اپنی مُہریں قصابوں کے سپرد کردیتے ہیں، جو خود ہی گوشت کا ’’ معاینہ‘‘ کرکے اُس پر’’ سب ٹھیک ہے‘‘ کی مُہر ثبت کردیتے ہیں۔