دُنیا بَھر میں ہرسال 2اپریل کو ’’ورلڈ آٹزم اوئیرنیس ڈے‘‘ منایا جاتا ہے، جس کا مقصدآٹسٹک افراد اور بچّوں سے اظہارِ یک جہتی اور آٹزم سے متعلق چیدہ چیدہ معلومات کی فراہمی ہے۔ آٹزم دُنیا کے ہر خطّے میں بلاتفریقِ رنگ و نسل اور مذہب پایا جاتا ہے۔ رواں برس اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل نے اپنے جاری کردہ پیغام میں ایک ایسی دُنیا کے قیام کی تشکیل کی خواہش ظاہر کی، جس کے وسائل پر سب کا حق برابر ہو، سب کو مساوی حقوق حاصل ہوں اور ان میں معذورین بھی شامل ہوں۔
آٹزم اسپیکٹرم ڈس آڈر (Autism Spectrum Disorder) ایک ایسی دماغی حالت کا نام ہے، جس کے اثرات تاعُمر برقرار رہتے ہیں۔ عمومی طور پر آٹسٹک افراد میں دُنیا دیکھنے، اردگرد کا ماحول سمجھنے، لوگوں سے گُھلنے مِلنے اور بات چیت کی صلاحیتیں متاثر ہوتی ہیں یا پھر ان کا سرے سے فقدان پایا جاتا ہے۔ اسپیکٹرم سے مُراد ہرآٹسٹک بچّےمیں علامات اور ان کی نوعیت کا مختلف ہونا ہے ۔ نیز، دماغ پرآٹزم کے اثر انداز ہونے کی شدت،جو کم، زیادہ یا بہت زیادہ ہو سکتی ہے۔
آٹزم کی علامات بعض کیسز میں پیدایش کے پہلے ہی برس ظاہر ہوجاتی ہیں، جب کہ بعض بچّے پیدایش کے بعد نسبتاً نارمل نشوونما کے ساتھ عام بچّوں کی طرح زندگی گزارتے ہیں اور پھر دو سے تین سال کی عُمر میں اُن کی علامات سامنے آتی ہیں۔ آٹسٹک بچّے آٹزم کے ساتھ دیگر طبّی مسائل کے شکار بھی ہوسکتے ہیں۔ مثلاً نیند کی کمی، پیٹ کے مسائل، موٹاپا، بسیار خوری، ذہنی پس ماندگی، جھٹکے لگنا، ہائپر ایکٹی ویٹی، انزائٹی اور ڈیپریشن وغیرہ۔
اگرچہ آٹزم کے علاج یا بچاؤ کا کوئی طریقہ تاحال دریافت نہیں ہوسکا، لیکن بروقت تشخیص اور ابتدائی خصوصی تعلیم وتربیت کے جلد آغاز سے بچّے میں نمایاں بہتری لائی جاسکتی ہے۔ پیدایش کے پہلے برس میں ظاہر ہونے والی علامات میں آنکھ سے آنکھ ملا کر بات نہ کرنا یا بات کرنے والے کی جانب نہ دیکھنا، اپنے نام پر متوجّہ نہ ہونا، والدین اور قریبی افراد کی جانب گرم جوشی سے نہ لپکنا اور ان کے قریب آنے پر خوشی کا اظہار نہ کرنا وغیرہ شامل ہیں۔
بعض بچّوں میں دوسرے اور تیسرے سال میں سیکھی گئی تمام صلاحیتیں بتدریج یا یک دَم ختم ہو جاتی ہیں اور آٹزم کی علامات ظاہر ہونے لگتی ہیں۔واضح رہے، کم یا زیادہ صلاحیتوں کے حامل آٹسٹک بچّوں اور افراد کا اپنا ایک الگ ہی رویّہ اور عادات کا انداز ہوتا ہے، جو کچھ مماثلت کے باوجود ایک دوسرے سے جدا ہوتا ہے۔ جیسا کہ بعض بچّوں میں سیکھنے، سمجھنے کی صلاحیت کم ، توبعض میں نارمل ہوتی ہے،جب کہ بعض کیسز میں نارمل سے زائد صلاحیتیں بھی پائی جاتی ہیں، مگر وہ ان صلاحیتوں کےبامقصد استعمال اور مختلف حالات میں خود کو پُرسکون رکھنے سے قاصر ہوتے ہیں۔علاوہ ازیں، ہر بچّے کے جداگانہ رویّے، عادات اور ان کی شدّت کی وجہ سےان کے لیے ایجوکیشنل پلان تشکیل دینا بھی مشکل امر ثابت ہوتا ہے۔
آٹسٹک بچّوں اوربڑوںکے لیے لوگوں سے گُھلنا مِلنا، سماجی رابطہ قائم کرنا، دوست بنانا اور بات چیت کرنا دقّت طلب امر ہوتا ہے، جسے طبّی اصطلاح میں سوشل انٹریکشن اینڈ کمیونی کیشن پرابلمز (Social Interaction And Communication Problems) کہا جاتا ہے۔عمومی طور پرآٹسٹک بچّے اپنا نام پکارنے پر متوجّہ نہیں ہوتے اور اکثر ایسا محسوس ہوتا ہے، جیسے وہ کسی کی بات سُن ہی نہیں رہے۔
انہیں والدین کا لاڈپیار، کھیلنا کودنا اچھا نہیں لگتا۔ گود میں لینے اور لپٹانے پر بھی ناپسندیدگی کا اظہارکرتے ہیں۔ اس کی نسبت خود ساختہ کھیلوں یا مشاغل میں مصروف رہنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ آٹزم کی دیگر کچھ علامات میں چہرے کے تاثرات سے اظہارنہ کرنا، کم یا نا مکمل الفاظ بولنا، سیکھے ہوئے الفاظ یا جملے بھول جانا یا اُنہیں بر وقت استعمال نہ کرنا، ایک ہی بات یا الفاظ بار بار دہرانا، اپنے پسندیدہ مو ضوع یا کسی چیز کے بارے میں ایک ہی بات مستقل سُننے پر اصرار کرنا،چیزوں یا کھلونوں کو خاص ترتیب میں رکھنا (جیسے ان کی قطار بنانا یا اوپر تلے رکھنا)، عمومی ہدایات اور سوالات نہ سمجھنا، اپنے اور دوسروں کے جذبات و احساسات سمجھنے اور بیان کرنے سے قاصر رہنا، کسی بھی مشکل صُورتِ حال یا روزمرّہ معمولات کی تبدیلی سے حواس باختہ ہوجانا، مشتعل یا عجیب و غریب حرکات میں مشغول رہنا، توجّہ حاصل کرنے کے لیے ہر وہ کام بار بار کرنا، جسے سے منع کیا گیا ہو، دوسروں کے چہروں کے تاثرات، آواز کا اُتار چڑھاؤ اور باڈی لینگویج نہ سمجھنا،خرابی ٔحسّیات (Sensory Dysfunction) کی وجہ سے سونگھنے، چکھنے، چُھونے، دیکھنے اور سُننے کے مسائل کا سامنا کرنا ،مختلف رویوں(Patterns Of Behaviour) کا اظہار، گول گول گھومنا، آگے پیچھے ہلنا، ہاتھ ہلاتے رہنا یا بے مقصد اچھل کود، غصّے کی حالت یا اپنی بات منوانے کے لیے ایسی حرکتیں کرنا، جن سے چوٹ لگنے کا خطرہ ہو( مثلاً اپنا سَر دیوار یا فرش پر مارنا، ہاتھ کاٹنا اور خود کو یا سامنے موجود فرد کو مارنا)، اپنی مخصوص روٹین پر قائم رہنا اور اس میں کوئی تبدیلی برداشت نہ کرنا، بے حد سُست یا بے حد پھرتیلا ہونا، پنجوں کے بل چلنا، کھلونوں سے کھیلنے کی بجائے ان کے پارٹس میں غیر معمولی دِل چسپی لینا، بجلی کے بٹنز یا دروازے بار بار کھولنا، بند کرنا، روشنی، آواز، خوشبو، ذائقہ وغیرہ محسوس کرنے پر مختلف ردِّعمل کا اظہار، چوٹ، تکلیف اور درجۂ حرارت بھی مختلف انداز سے محسوس کرنا یا ردِّ عمل ظاہر نہ کر پانا، بچّوں کے تخیّلاتی کھیل، جیسے چور، سپاہی، ٹیچر، اسٹوڈنٹ، ڈاکٹر، مریض بننے جیسے کھیل نہ کھیلنا، کسی ایک چیز سے حد سے زیادہ لگاؤ رکھنا(جیسے کوئی کھلونا، لباس، کمبل، ٹی وی پروگرام یا کمپیوٹر، موبائل گیم)، اپنی مرضی کا کھانا کھانا، کرسی میز یا اونچی چیزوں پر چڑھنا، ضد میں فرش پر بیٹھ جانا یا لیٹ جانا اور اُٹھنے سے انکاروغیرہ شامل ہیں۔
یوں تو وقت کے ساتھ اور بہتر تربیت کی بدولت آٹسٹک بچّوں کے بالغ ہونے پر ان کی ہائپر ایکٹی ویٹی اور پریشان کُن رویّے میں بہتری آتی چلی جاتی ہے، لیکن بعض بچّے بلوغت کے ابتدائی دَور میں مزید پریشان کُن مسائل سے دوچار ہوجاتے ہیں اور ان کے رویّے اور جذبات میں تشدد، ضد اور ہٹ دھرمی بڑھ جاتی ہے۔
ماہرین سے کب رجوع کیا جائے؟
ہر بچّے کی نشوونما کے اپنے مراحل ہیں، جو اکثر مروّجہ وقت سے کم یا زیادہ عرصے میں طے پاتے ہیں۔ عمومی طور پر آٹسٹک بچّے دو سال کے عرصے میں ذہنی نشوونما کی تاخیر کا شکار نظر آتے ہیں، جیسا کہ باہمی رابطے میں کمی اور بول نہ پانا۔ اگر بچّہ چھے ماہ کی عُمر تک خوشی کا اظہار نہ کرسکے، اپنے قریبی افراد کو دیکھ کر ان کی جانب جوش سے نہ لپکے۔
نو ماہ کی عُمر تک آوازوں کو دہرانے کی کوشش نہ کرے ،چہرے سےتاثرات ظاہر نہ کرپائے۔ بارہ ماہ کی عُمر تک چھوٹے چھوٹے الفاظ بولنے کی کوشش میں مختلف آوازیںنہ نکال پائے۔ چودہ ماہ کی عمر تک سلام، ٹاٹا، بائے بائے نہ کر ے، کسی جانب اشارہ کرکے دوسروں کی توجّہ مبذول نہ کرواسکے۔ سولہ ماہ تک ایک لفظ بھی نہ بول پائے۔ ڈیڑھ سال کی عُمر میں مختلف اشیاء کو کھلونا بنا کر نہ کھیلے۔ دو سال کی عُمر تک چھوٹے چھوٹے دو الفاظ پر مشتمل جملے نہ بولے، تو یہ تمام تر علامات تشویش کا باعث ہیں، بہتر ہوگا کہ فوری طور پر ماہرینِ آٹزم سے رابطہ کرلیا جائے۔ اس کے علاوہ اگر بچّہ عُمر کے کسی بھی حصّے میں بات چیت اور دیگر صلاحیتیں کھو بیٹھے، تو بھی ماہرین سے رابطہ ازحد ضروری ہے۔
سینٹر فار ڈیزیز زکنٹرول اینڈ پری وینشن کی 2021ء کی جاری کردہ ایک رپورٹ کے مطابق امریکا میں میں ہر44بچّوں میں سے ایک آٹزم کا شکار ہے۔2018ءکے اعداد و شمار کے مطابق ہر 27لڑکوں میں سے ایک لڑکا اور ہر116لڑکیوں میں سے ایک لڑکی آٹزم سے متاثر ہے۔ یعنی لڑکوں کی تعداد، لڑکیوں سے چار گنا زائد ہے۔31فی صد آٹسٹک بچّے ذہنی پس ماندگی کا شکار اور25فی صد بارڈر لائن پر ہوتے ہیں، جب کہ 52فی صد تا عُمر بولنے سے محروم رہتے ہیں۔
زیادہ تر بچّوں میں چار سال کی عُمر میں آٹزم تشخیص ہوتا ہے، حالاں کہ ابتدائی دو سال کی عُمر میں بھی تشخیص کیا جا سکتا ہے، مگر مسئلہ یہ ہے کہ اکثر والدین آٹزم کی علامات کو بچپنا یا شرارتیں سمجھ کر نظر انداز کر دیتے ہیں، لیکن جب بچّے کی باقاعدہ تعلیم کا آغاز ہوتا ہے، تو پھر کئی طرح مسائل سامنے آتے چلے جاتے ہیں۔ آٹزم کے اسباب کا ذکر کریں ،تو تحقیق کے مطابق یہ اس قدر پیچیدہ دماغی حالت کا نام ہے کہ کسی ایک وجہ کا تعین نہیں کیا جاسکتا۔ یوں بھی آٹزم کی علامات ہر بچّے میں کچھ مماثلت کے باوجود الگ الگ پائی جاتی ہیں، تو رویّے بھی ایک دوسرے سے مختلف ہوتے ہیں۔
نیز، ڈس آرڈر کی شدّت بھی کسی بچّے میں کم اور کسی میں زیادہ پائی جاتی ہے۔ بہر کیف، بعض کیسز میں جینیاتی وجوہ بھی آٹزم کا باعث بن سکتی ہیں۔ اس کے علاوہ وائرل انفیکشنز، ادویہ کے استعمال، دورانِ حمل پیچیدگیوں اور ماحولیاتی آلودگی جیسے عوامل پر بھی تحقیق کا سلسلہ جاری ہے۔ کچھ عرصہ قبل یہ امکان بھی ظاہر کیا گیا کہ پیدایش کے بعد بچّے کو لگائی جانے والی ویکسینز بھی آٹزم کا سبب بن سکتی ہیں، لیکن بعد ازاں طویل تحقیق، بحث اور قانونی کاروائی کے بعد اسے خارج ازامکان قرار دے دیا گیا۔ رہی بات تشخیص کی، تو اس ضمن میں مستند سوال نامے، چیک لسٹس، بچّے کی آبزرویشن اور والدین کے انٹرویوز معاون ثابت ہوتے ہیں، جو تربیت یافتہ ماہرین ہی کی نگرانی میں انجام پاتے ہیں ۔ (مضمون نگار، ’’سینٹر فار آٹزم‘‘، کراچی میں ڈائریکٹر کے فرائض انجام دے رہی ہیں)