• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پیرزادہ شریف الحسن عثمانی، سکھر

رمضان المبارک کی اپنی ہی برکتیں، اپنی ہی رونقیں ہیں۔ یہ مہینہ اس لیے بھی منفرد ہے کہ اس مہینے میں ہمارے معمولات یک سر تبدیل ہوجاتے ہیں۔ کھانا، پینا، سونا جاگنا سارے ہی اوقات باقی مہینوں سے الگ ہوتے ہیں۔ مقامِ شکر ہے کہ اس مہینے کی برکتوں سے مسجدیں آباد ہوجاتی ہیں، یہاں تک کہ نمازیوں کے لیے گنجایش کم پڑ جاتی ہے، صرف جمعے اور عید کی نماز پڑھنے والے بھی پانچ وقت مساجد میں نظر آتے ہیں۔ اس کے علاوہ تراویح اور شبینوں میں بھی دکھائی دیتے ہیں۔ 

سحر و افطار میں عجب گہماگہمی کا منظر دیکھنے کو ملتا ہے۔اپنے پیارے، دوست احباب پُرانے گلے شکوے مٹا کر ایک دوسرے کو افطار پر مدعو کرتے ہیں۔ تلاوتِ قرآن اور نوافل کا خاص اہتمام کیا جاتا ہے، لیکن مقامِ فکر یہ بھی ہے کہ ان سب کے بیچ آیتِ ربّانی’’اے ایمان والوں! تم پر روزے فرض کیے گئے ہیں، تاکہ تم پرہیزگار بنو۔‘‘کا اصل مفہوم اور پیغام کہیں گم ہوکر رہ جاتا ہے۔ گرچہ اللہ تعالیٰ کو اپنے کسی حکم کی توجیہہ کی ضرورت نہیں، لیکن ’’ظلوماً جہولا‘‘ انسان کو سمجھانے کے لیے رب تعالیٰ نے واضح فرمادیا کہ روزوں کی فرضیت کی وجہ یہ ہے کہ تم ’’پرہیزگار‘‘ بن جاؤ۔ 

اس مفہوم کو سمجھنے کے لیے کوئی عالم فاضل یا فلسفی ہونا ضروری نہیں کہ یہ تو آسانی سے سمجھ آجانے والا ایک سادہ سا فرمان ہے۔ لغوی اور اصطلاحی معنوں کے جھنجھٹ میں پڑے بغیر بھی سبھی جانتے ہیں کہ پرہیز کے معنی کیا ہیں۔مثال کے طور پر اگر معالج مریض کی بحالئی صحت کے لیے اُسے ٹھنڈے پانی سے پرہیز کہے، تو وہ خود کو ٹھنڈا پانی پینے سے روک لے گا۔ یعنی پرہیز کا مطلب ’’خود کو روک لینا‘‘ ہوا۔ تو ہمارا ربّ بھی روزوں کے ذریعے ہم سے چاہتا ہے کہ ہم خود کو روکنا سیکھ جائیں۔ 

روزے کی حالت میں کھانے پینے کی حلال اور پاک چیزوں سے ہم خود کو روک ہی تو لیتے ہیں۔ نفس کی ہر اس جائز خواہش سے خود کو باز رکھتے ہیں کہ جس کی روزے کی حالت میں مناہی ہے۔ روزوں کی غرض و غایت بھی یہی ہے کہ ہم خود پر اتنا قابو رکھنا سیکھ جائیں کہ اختیار ہونے کے باوجود بھی خود کو گناہوں اور بُرائیوں سے بچا سکیں۔ یہی وہ اصل مفہوم ہے، جس پر غور کرنے کے بجائے ہم میں سے اکثر رمضان اور روزوں کے ساتھ رسم و رواج جیسا برتاؤ کرتے نظر آتے ہیں۔

ہر عبادت کی ایک روح، ایک مقصد، غرض و غایت ہوتی ہے اور روزوں کی حکمت بھی رضائے الہیٰ کی خاطر خود کو اُن چیزوں سے باز رکھنا ہے، جن سے ہمارے ربّ نے منع فرمایا ہے۔ صرف ماہِ رمضان میں پانچ وقت کی نماز، نوافل، ذکر اذکار اور تلاوت وغیرہ کا اہتمام کرکے اگر ہم یہ کہیں کہ ہم نے رمضان کا حق ادا کردیا، تو ہمیں جان لینا چاہیے کہ ان سب کا حکم تو ہمیں سال کے باقی مہینوں میں بھی ہے۔ نماز کسی حالت میں معاف نہیں۔ بحیثیت مسلمان کوئی عاقل، بالغ جان بوجھ کر نماز قضا نہیں کر سکتا۔ 

قرآنِ پاک ہدایت و رہنمائی کی معراج ہے۔ سال کے باقی مہینوں میں بھی اس کی تلاوت کرنے اور اس سے ہدایت حاصل کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ ذکر اذکار کی برکات و فضائل سے مستفید ہونے کی تاکید سال کے باقی مہینوں میں بھی جوں کی توں ہے۔ تو کیا رمضان کی فضیلت صرف بھوکا پیاسا رہنا ہے؟ لاکھوں، کروڑوں ایسے صابر و شاکر، فاقہ مست مسلمان ہیں، جنہیں پورا سال پیٹ بَھر روٹی میسّر نہیں ہو پاتی۔ 

پس، ثابت ہوا کہ رمضان کی اہمیت اور پیغام کو ان باتوں کے اوزان پر نہیں تولا جاسکتا۔ یہ سب تو ایک مسلمان کے معمولات کا حصّہ ہیں۔ اور رمضان ہرگز کوئی معمولی مہینہ نہیں، یہ مہینہ بہت مبارک اور بابرکت ہے، کیوں کہ اس کا تعلق اصلاح، پرہیز گاری، خوفِ خدا، تزکیۂ نفس اور خلوصِ نیّت سے ہے۔ یہ مہینہ اطاعت گزاروں اور نافرمانوں کو الگ الگ کردینے والا ہے۔ منافقین اور مخلصین کے درمیان حدِّ فاصل ہے۔ اس مہینے میں اللہ تعالیٰ آزماتا ہے کہ کون اس کی رضا کا طالب اور کون سَرکشی پر آمادہ ہے۔ سَرکشی سے مُراد نفسِ امّارہ کی اطاعت ہی تو ہے۔ 

یہی تو ہم سے پہلے گزرنے والی قوموں نے کیا تھا۔ حیاتِ فانی سے لُطف اندوز ہونے کی غرض سے انہوں نے ہدایت سے منہ موڑا، نافرمانی کے مرتکب ہوئے، سرکشی اختیار کی اور پھر اس کا نتیجہ کیا نکلا۔ عاد، ثمود، لوط، نوح اور ان جیسی کتنی ہی قوموں کو اللہ تعالیٰ نے نشانِ عبرت بنا کر رکھ دیا۔ اللہ تعالیٰ نے کسی قوم پر ان کے گناہوں کے سبب عذاب نہیں بھیجا، یہ ان کی سرکشی تھی، جس نے اللہ کے غضب کو دعوت دی اور روزہ اسی سرکشی سے ہمیں بچانے کی تربیت کا ایک حصّہ ہے۔

روزے کی حالت میں ہم اکثر کوشش کرتے ہیں کہ ہر بُرائی سے دُور رہیں۔جھوٹ نہ بولیں، مغلظات سے بچیں، کسی کو دھوکا نہ دیں۔ پھر باقاعدگی سے پانچ وقت کی نماز پڑھتے ہیں ، تلاوت کرتے ہیں ، راتوں کو جاگ کر نوافل ادا کرتے ہیں لیکن عید کی نماز پڑھتے ہی ایک بار پھر زندگی کی ’’سنگین رنگینیوں‘‘ میں کھو جاتے ہیں ۔ روزے کے دوران بُرائیوں سے احتراز کی جو مشق ہم نے پورے مہینے کی، وہ پَل بَھر میں بُھلا دی۔ یہ رمضان کی ناقدری ہی کہلائے گی۔ 

اگر ہم کسی دُنیاوی معاملے میں ایسا کریں، تو ناکامی ہمارا مقدر بن جاتی ہے۔ فرض کریں، کوئی شخص بے روزگار ہے اور ملازمت کی تلاش میں مارا مارا پھر رہا ہے کہ اچانک ہی ایک اچھی ملازمت اس شرط پر مل جاتی ہے کہ کام شروع کرنے سے قبل ایک ماہ کی ٹریننگ بھی لینا ہوگی، لیکن ٹریننگ مکمل ہوجانے کے بعد بھی اگر وہ کچھ نہیں سیکھتا، تو کیا اس ملازمت کے لیے خود کو اہل ثابت کر پائے گا؟ 

یہ مثال ایک معمولی ملازمت کی تھی ،یہاں تو معاملہ جنّت جیسی نعمتِ عظمٰی کا ہے۔ کیا اس سے متعلق ہمیں بے فکری ہے کہ وہ ہمیں بغیر کوشش کے حاصل ہوجائے گی؟ ماہِ صیام ایک نعمت ہے۔ یہ مہینہ ہمیں وقتی یا عارضی طور پر عبادت گزار بنانے کے لیے نہیں آتا، بلکہ تربیت فراہم کرنے کے لیے آتا ہے کہ ہم ربّ کی نا فرمانی سے بچنا سیکھ جائیں۔ اپنے نفس کے سرکش گھوڑے کو لگام دیں اورسرکشی اختیار کرنے سے بچیں، تاکہ ہمارا ربّ ہم سے راضی ہوجائے،کیوں کہ ربّ کی ناراضی، جہنم سے بھی بڑا عذاب ہے۔

سنڈے میگزین سے مزید