• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کرکٹ کے میدان میں جھنڈے گاڑنے کے بعد عمران خان نے سیاست کے میدان میں قدم رکھا تو شہرت کی مزید بلندیوں پر پہنچ گئے۔ برصغیر پاک و ہند میں عوام کرکٹ اور اس کھیل سے وابستہ کھلاڑیوں سے دیوانگی کی حد تک عقیدت رکھتے ہیں، چنانچہ ورلڈ کپ جیتنے والے کپتان کے لیے روایتی سیاستدانوں کے مقابلے میں کھڑا ہونا چنداں مشکل نہ تھا تاہم سیاست کے میدان میں کامیابی کے لیے انہیں تجربہ کار ٹیم کی ضرورت تھی اور اس کام کے لیے ابتدا میں ان کی معاونت اور خاکہ تیار کرنے والوں میں حفیظ اللہ نیازی، محمود اعوان، محمد علی درانی، حسن نثار، حمید گل، منصور صدیقی، محمد ناظم، ضیا شاہد، مواہد حسین، نسیم زہرہ، پرویز حسن، ڈاکٹر محمد فاروق، حامد خان اور فردوس نقوی شامل تھے تاہم ان میں سے چند لوگ ابتدا ہی میں عمران خان کا ساتھ چھوڑ گئے جبکہ میاں خالد، مظہر ساہی، امین ذکی، اکرم چوہدری اور شبیر سیال جیسے پُرجوش نوجوان عمران خان کے شانہ بشانہ جدوجہد کر رہے تھے۔

لاہور میں مینار پاکستان پر ہونے والے فقید المثال جلسے نے عمران خان کو مستند سیاسی لیڈر بنا دیا اور پھر برسوں کی جدوجہد کے بعد سن 2013کے عام انتخابات میں پی ٹی آئی کو ملنے والے ووٹوں نے سیاسی پنڈتوں کو حیران کر دیا۔ پانچ سال بعد سن 2018کے انتخابات میں پاکستان تحریکِ انصاف نے وفاق اور دو صوبوں میں اکثریت حاصل کرنے کے بعد عمران خان کے وزیراعظم بننے کے دیرینہ خواب کو شرمندۂ تعبیر کر دیا۔ پی ٹی آئی کی کامیابی میں نوجوانوں، خواتین اور الیکٹ ایبلز کا بڑا کردار تھا جو عمران خان کی متاثر کن شخصیت، کرپشن کے خاتمے، خود انحصاری اور تبدیلی کے نعرے اور دعوے سن کر اسے نجات دہندہ سمجھ بیٹھے تھے۔ وزارتِ عظمیٰ پر فائز ہونے کے بعد عمران خان نے دو اکثریتی صوبوں میں ایسے وزرائے اعلیٰ کا چناؤ کیا جو ممبرانِ اسمبلی، سیاسی کارکنوں اور عوام میں حیرت اور مایوسی کا باعث بنے۔ خیبر پختونخوا میں پانچ سال پرویز خٹک نے میرٹ، انصاف اور گورننس پر مبنی حکومت کی اور اپنی سیاسی مہارت اور تجربے سے اپوزیشن کو آگے بڑھنے کا کوئی موقع نہیں دیا اور ان کے ماڈل کو دیکھتے ہوئےہی تحریک انصاف نہ صرف خیبر پختونخوا بلکہ پورے ملک میں کامیاب ہوئی مگر انتخابات کے بعد بعض مشیروں کے مشورے سے پرویز خٹک کو مرکز میں لا کر کے پی میں ایک ایسا وزیراعلیٰ لگا دیا گیا جس نے صوبے میں پی ٹی آئی کی مقبولیت کو گہنا دیا اور پارٹی کے لیڈر مختلف گروپس میں تقسیم ہو گئے، نتیجے کے طور پر بلدیاتی الیکشن میں ان جماعتوں کو دوبارہ قدم جمانے کا موقع مل گیا جو تقریباً ختم ہو چکی تھیں۔

پنجاب میں وزیراعظم عمران خان نے اپنے دیرینہ ساتھیوں، سیاسی حلیفوں اور حکومت سازی میں مدد کرنے والوں کو نظر انداز کرتے ہوئے ساؤتھ پنجاب سے ایک ایسے شخص کو وزیراعلیٰ نامزد کیا جس کی پارٹی کے لیے خدمات نہ ہونے کے برابر تھیں اور بظاہر سادہ اور درویش منش نظر آنے والا وزیراعلیٰ باقی پنجاب تو ایک طرف پی ٹی آئی کے مضبوط گڑھ جنوبی پنجاب میں بھی تحریک انصاف کی لیڈر شپ کو ناقابلِ قبول تھا۔ صوبہ پنجاب میں بیڈ گورننس، میرٹ کی پامالی اور مبینہ کرپشن کی داستانیں زبان زدِ عام رہیں جس سے صوبے میں پارٹی کی مقبولیت بری طرح متاثر ہوئی مگر وزیراعظم اپنے وزیراعلیٰ کی کارکردگی سے پوری طرح مطمئن تھے۔ عمران خان کے جانثار اور وفادار ساتھی ان کا ساتھ چھوڑ رہے تھے۔ صوبے میں پارٹی متعدد دھڑوں میں تقسیم ہو گئی تھی، سیاسی کارکن بددلی اور بےیقینی کا شکار ہو گئے تھے۔ عوام مہنگائی اور سہولتوں کی عدم دستیابی پر سراپا احتجاج تھے مگر وزیراعلیٰ اور ان کے قریبی وزرااور افسر اپنے معاملات میں مصروف تھے، نااہل وزیراعلیٰ کی پنجاب پر حکومت پی ٹی آئی اور عمران خان کی مقبولیت میں کمی اور موجودہ حالات تک پہنچنے کا سب سے اہم فیکٹر تھا۔ اس کے علاوہ طاقتور حلقوں سے بلا جواز محازآرائی، بعض وفاقی وزرا اور مشیروں کی کرپشن، ضد اور انتقامی سیاست، عوام اور ورکروں سے دوری، میڈیا کے پرانے اور مخلص دوستوں سے دوری اور میڈیا مینجمنٹ میں ناکامی، اہم حکومتی معاملات میں عدم توجہ، عالمی سطح پر سفارتی تنہائی اور انٹرنیشنل ڈپلومیسی میں مکمل ناکامی بھی وہ چند عوامل تھے جن کی وجہ سے ملک کا مقبول ترین وزیراعظم اب اپنے سیاسی کیرئیر کو بچانے کی تگ ودو کر رہا ہے۔ (صاحبِ مضمون سابق وزیر اطلاعات پنجاب ہیں)

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس

ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین