• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

گزشتہ دنوں کھانے پر ایک انجینئر صاحب سے ملاقات ہوئی، نہایت خوش پوش اور پڑھے لکھے انسان تھے، کسی ملٹی نیشنل کمپنی سے وابستہ تھے، اُن سے اچھی گپ شپ رہی، گفتگو کے دوران وہ ہر بات پر خواہ مخواہ قہقہہ لگا تے تھے جسے دیکھ کر مجھے شک ہوا کہ اُنہیں ڈالروں میں تنخواہ ملتی ہے۔ میرا شک ٹھیک نکلا۔ تھوڑی دیر تک اُن سے انجینئرنگ کے شعبے کے حوالے سے گفتگو ہوتی رہی اور پھر بالآخر گفتگو کا رُخ اسی جانب مڑ گیا جس کا مجھے ڈر تھا۔ ’’اِس ملک کا کیا بنے گا؟‘‘ یہ واحد سوال تھا جو پوچھتے وقت انہوں نے قہقہہ نہیں لگایا۔ میں نے کچھ دیر تک تو بات ٹالنے کی کوشش کی مگر وہ نہ ٹلے، گھوم پھر کر وہی سوال دوبارہ داغ دیا۔ میں نے تنگ آکراُن سے کہا کہ آپ اگراپنے سوال کا جواب جاننا چاہتے ہیں تو پہلے میرے دو سوالوں کا جواب دیں۔ وہ فوراً بولے ’’پوچھیں‘‘۔ میں نے کہا ’’سوال نمبر1۔ آپ کے سامنے اگرکوئی شخص یہ کہے کہ آئین اہم نہیں ہوتا بلکہ ملک اہم ہوتا ہے تو کیا آپ اُس کی بات سے اتفاق کرلیں گے؟ سوال نمبر2۔ اگر وہی شخص آپ کے سامنے آئین کی کتاب کو اٹھا کر ردی کی ٹوکری میں پھینک دے تو کیا آپ اِس بات پر احتجاج کریں گے یا اُس کی حرکت کو نظر انداز کردیں گے؟‘‘میرے اِن دو سوالوں کے جواب میں انجینئر صاحب نے دو قہقہے لگائے اور بولےکہ ’’آپ تو عجیب ہی باتیں کرتے ہیں، اِس ملک میں کون سا آئین اور کون سا قانون ہے، صاحب یہاں لوگوں کے پاس اِس قسم کی ذہنی عیاشی کے لیے وقت نہیں، یہ آپ، ہم اور آپ جیسے لوگ ہیں جو ڈرائنگ روم میں بیٹھ کر یہ گفتگو کر سکتے ہیں، آپ باہر نکل کر لوگوں سے پوچھیں کہ انہیں آئین چاہیے یا روٹی تو آپ کو اپنی باتوں کا جواب مل جائے گا لیکن اگر مجھ سے ہی جواب چاہتے ہیں تو میرا جواب ہوگا کہ اِس ملک کا نظام صرف ڈنڈے کے زور پر ہی درست طور پر چل سکتا ہے‘‘۔ مجھے اُن صاحب کے جوابات سن کر ذرہ برابر بھی حیرت نہیں ہوئی، یہ سوالات آپ اپر مڈل کلاس سے تعلق رکھنے والے کسی بھی شخص سے پوچھیں گے تو اُن میں سے زیادہ تر لوگ آپ کو اسی قسم کے جواب دیں گے۔ جس محفل کا میں نے ذکر کیا، ایسی محفلوں میں آخر میں یہی پوچھا جاتا ہے کہ آپ مسائل کی نشاندہی تو خوب کرتے ہیں مگر مسئلے کا حل نہیں بتاتے۔ یہ ایک بےحد معصومانہ سا اعتراض ہوتا ہے کیونکہ مسئلہ پیدا کرنے والا شخص دراصل یہ پوچھ رہا ہوتا ہے کہ اِس کا حل کیاہے؟

مجھ سے اگر کوئی پوچھے کہ پاکستان کا بنیادی مسئلہ کیا ہے تو میرا جواب ہوگا کہ پاکستان کی نام نہاد پڑھی لکھی اشرافیہ کا آئین اور قانون کو جوتی کی نوک پر لکھنا ہی اِس ملک کا بنیادی مسئلہ ہے اور اس لیے یہ اشرافیہ ہی ملک کی اصل مجرم ہے۔ ایک غریب اور ان پڑھ آدمی، جسے صبح اٹھتے ہی سب سے پہلے یہ فکر لاحق ہو کہ وہ اپنے بچوں کے لیے کھانے کا بندوبست کیسے کرے گا، اگر آئین اور قانون کے بارے میں نہیں جانتا تو وہ قابلِ معافی ہے، مگر یہ انگریزی اسکولوں کے پڑھے ہوئے لوگ ہر گز قابلِ معافی نہیں جو آئین کو محض کاغذ کا ٹکڑا سمجھتے ہیں۔ یہ وہی پڑھی لکھی اشرافیہ ہے جو ہر ڈکٹیٹر کو انگریزی میں خوش آمدید کہتی ہے، آئین کو پامال کرنے کے لیے ڈکٹیٹر جو تاویلیں گھڑتا ہے، یہ اشرافیہ اسے من و عن تسلیم کر لیتی ہے۔ کچھ لوگ یہاں یہ دلیل دے سکتے ہیں کہ آئینی معاملات پیچیدہ ہوتے ہیں لہٰذا اِن میں کوئی بھی بات حتمی طور پر نہیں کی جا سکتی، اگر کسی شخص کے نظریات آپ سے نہیں ملتے تو اِس بات کا یہ مطلب نہیں کہ وہ غلط ہے اور آپ صحیح ہیں۔ اِس دلیل میں وزن ہے مگر اسے سمجھنے کے لیے چند باتوں کی نشاندہی ضروری ہے۔ جس اپر مڈل کلاس اشرافیہ کی میں نے بات کی اُن میں پہلی قسم اُن لوگوں کی ہے جنہیں آپ کسی بھی قسم کی دلیل سے قائل نہیں کر سکتے۔ آپ کو خود کُش بمبار کا وہ انٹرویو یاد ہوگا جو سلیم صافی صاحب نے لیا تھا جس میں اُس نے پوری قطعیت کے ساتھ ’دلائل‘ دیے تھے کہ اُس کا جسم پر بم باندھ کر بےگناہ لوگوں کو اڑانا نہ صرف درست ہے بلکہ عین فرض ہے اور جو مسلمان اُس کی حمایت نہیں کرتے وہ بھی دراصل واجب القتل کافر ہیں۔ اِن لوگوں کی مثال بھی اسی خود کُش بمبار جیسی ہے جس کی برین واشنگ کر دی گئی ہے، اِن لوگوں کو قائل کرنا اُس وقت تک ممکن نہیں جب تک انہیں دوبارہ پہلی جماعت میں داخل کرکے بارہ سال تک یہ نہ پڑھایا جائے کہ آئین کس قدر مقدس دستاویز ہے اور کسی ملک کا انتظام و انصرام آئین کے تحت کیسے چلایا جاتا ہے؟ ظاہر ہے کہ یہ ایک ناممکن کام ہے۔ دوسری قسم کے لوگ وہ ہیں جو حقیقت میں ذہین و فطین اور پڑھے لکھے ہیں اور آئینی معاملات کی باریکیوں کو اچھی طرح سمجھتے ہیں مگر ذاتی مفادات کے تابع ہو کر اِس کی درست تشریح نہیں کرتے، یہ لوگ ہر گز قابلِ معافی نہیں۔ تیسری قسم کے لوگ وہ ہیں جو خلوصِ دل سے دلیل اور مکالمے پر یقین رکھتے ہیں اور اپنے نظریات اور فکر کی بنیاد پر آئین اور قانون کی تشریح کرکے یہ سمجھتے ہیں کہ وہ حق کے ساتھ کھڑے ہیں۔ اِن لوگوں سے بات بھی کی جا سکتی ہے اور کسی حد تک انہیں دلیل کے ذریعے قائل بھی کیا جا سکتا ہے مگر اِس کی بنیادی شرط یہ ہے کہ مکالمے سے پہلے فریقین یہ تسلیم کریں کہ اُن کے نظریات یکسر غلط بھی ہو سکتے ہیں، اگر کوئی یہ بات ماننے کو ہی تیار نہ ہوکہ وہ غلط ہو سکتا ہے تو پھر مکالمے کی گنجائش ختم ہوجاتی ہے۔ہم سب انسان ہیں، غلطی کے پُتلے ہیں، کسی بھی معاملے میں ہماری تفہیم ناقص ہو سکتی ہے اوریہ جاننے کا کوئی آسان طریقہ بھی نہیں کہ آپ غلط ہیں یا درست، مگر دو طریقوں سے اِس کا تعین کیا جا سکتا ہے۔ پہلا، کسی بھی معاملے کی پوری پڑتال کی جائے، اسے الٹ پلٹ کر دیکھا جائے اوریہ سوچا جائے کہ جس اقدام کی حمایت میں کر رہا ہوں وہ اقدام اگر میرا دشمن کرتا تو اُس صورت میں میری مخالفانہ دلیل کیا ہوتی! دوسرا، یہ دیکھا جائے کہ معاشرے کا پسا ہوا اور مظلوم طبقہ کیا سوچتا ہے، عموماً ایسے طبقے کی سوچ اُن تمام نام نہاد پڑھے لکھے لوگوں کی سوچ سے بہتر ہوتی ہے جن کی بغل میں سٹینفورڈ اور آکسفورڈ کی ڈگریاں ہوتی ہیں اور وہ آمریت کا آلہ کار بن کر ماورائے آئین اقدامات کی تاویلیں گھڑتے ہیں۔ یہ تمام طریقے اپنانے کے باوجود بہرحال یہ مسئلہ اپنی جگہ قائم رہے گا کہ دو نیک نیت مگر مخالف نکتہ نظر رکھنے والے لوگوں میں سے کون حق کے ساتھ کھڑ اہے اور کون باطل کے ساتھ۔ اِس مسئلے کا کوئی فوری حل میری پٹاری میں نہیں۔ جو تھا وہ پیش کردیا، باقی جو مزاج یار میں آئے!

تازہ ترین