• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پنڈت نہرو جب آخری بار ممبئی آئے تو ہدایتکار محبوب خان نے ان سے کہا ”پنڈت جی میری محبت آپ کو ”آپ کے بجائے ”تم اور تو‘ کہنا چاہتی ہے“۔ محبوب خان کو اجازت مل گئی تھی۔ میری محبت بھی آج شفیع عقیل کو تو اور تم کہنا چاہتی ہے۔ شفیع عقیل جسے میں محبت اور اپنائیت سے ”بھاہ“ کہتا تھا کا اصل نام محمد شفیع تھا، وہ 1930ء میں (دن اور مہینہ انہیں بھی یاد نہیں) لاہور چھاؤنی کے قریب ایک گاؤں میں پیدا ہوا یہ گاؤں آج ناپید ہو چکا ہے۔ مجید لاہوری اور شوکت تھانوی کے ہمراہ صحافت کے ”خارزار“ میں ایک ساتھ قدم رکھا یہ تینوں اپنے فن میں یکتا تھے کہ کامیابی یا ناکامی کا انحصار اپنے اپنے مقدور اور مقدر پر نہیں بلکہ اپنی صلاحیتوں پر ہوتا ہے۔ 1950ء میں وہ کراچی منتقل ہوگیا جہاں وہ ادارہ جنگ سے وابستہ ہوگیا اور پھر اس نے اپنے نفع و جزا کے بغیر تمام عمر اس ادارے میں گزار دی۔ وہ بچوں کے ماہنامہ ”بھائی جان“ کا مدیر مقرر ہوا جہاں اس نے آج کے بہت سے اہم اور پنج ستارہ ادیبوں، شاعروں اور صحافیوں کو متعارف کرایا۔ وہ روزنامہ جنگ کے ادبی صفحہ کا انچارج اور میگزین ایڈیٹر رہا، بعدازاں ہفت روزہ اخبارجہاں کا ایڈیٹر اور پھر اخبارجہاں کے ایڈیٹوریل بورڈ کے ڈائریکٹر کا عہدہ سنبھالا۔ شفیع عقیل کی پہلی کتاب اس کے افسانوں کا مجموعہ تھی جس کا نام ”بھوکے“ تھا۔ اس کے بعد آنے والی کتابوں میں ”ڈھل گئی رات، ایک آنسو، ایک تبسم، تیغ ستم، سرخ سفید سیاہ اور باقی سب خیریت ہے“ شائع ہوئیں۔
شفیع عقیل ایک معتبر شاعر ہی نہیں، ایک صحافی، مترجم، نقاد اور دانشور بھی تھا جبکہ آرٹ اور مصوری کے میدان میں بھی اس کو حرف آخر کے طور پر سمجھا جاتا تھا اس نے شعر، ادب، صحافت اور ترجمے کے میدان میں بھی اپنا لوہا منوایا جبکہ اس کی شخصیت جہد مسلسل سے عبارت ہے۔ اس نے اپنے متنوع صلاحیتوں سے اپنی ادبی فکری و صحافتی اہمیت کو نہ صرف منوایا بلکہ عالمی ادب بالخصوص پنجابی ادب کے تراجم کے ذریعے اردو کے دامن کو مالا مال کیا۔ اس نے ایک بار مجھے خط میں لکھا تھا ”وہ اردو ادب کیا جانتا ہے جو صرف اردو ادب جانتا ہے“۔ وہ ایک سیلف میڈ انسان تھا بچپن ہی سے ماں باپ کا سایہ سر سے اٹھ گیا تھا۔ کہتے ہیں تنہائی اور اجنبیت میں فرق ہے۔ میں نے کہیں پڑھا ہے کہ ہر عہد میں حساس آدمی کبھی نہ کبھی باہر کیا اپنے گھر کے اندر بھی ذہنی، جذباتی اور روحانی تنہائی محسوس کرتا ہے تاہم تنہائی کو اجنبیت سے تعبیر نہیں کیا جاسکتا یہ ایک ایسی کیفیت ہے جو عارضی طور پر فرد کو تنہائی سے دوچار کردیتی ہے۔ شفیع عقیل کا ظاہر و باطن ایک تھا کبھی کبھی وہ خطرناک حد تک سچ بول دیتا تھا جیسے کہنے لگا ”میرے خیال میں مذہب کی طرح آرٹ کی ابتدا بھی جادو و سحر سے ہوئی تھی“ اور میرے حساب سے بھی اس کی یہ دانشورانہ سوچ سچ پر مبنی ہے۔ اسے نظم اور غزل دونوں پر قدرت حاصل تھی۔ اس کی شاعری اپنی لفظیات، اپنے رموز و علائم، اپنی تراکیب اور اپنے لب و لہجہ کے اعتبار سے بہت مختلف ہے اس کے طرز اظہار میں ”آپ آقا ہیں اور میں غلام اور نہ آپ انسان بن پا رہے ہیں اور نہ میں“ والی کیفیت، احساسات اور جذبات پائے جاتے ہیں۔ اس کی شاعری محض لفاظی نہیں بلکہ صفحہ قرطاس پر بکھرے ہوئے مختلف احساسات ہیں جن کا تعلق اجتماعیت سے ہے۔ تہذیبی و ثقافتی، فکر و لسانی اور حالات کے گہرے مطالعے و مشاہدے نے اس کی شاعری کو سچائیوں کا سپاس نامہ بنا دیا ہے۔ اس کی فکر بڑی واضح رہی وہ اکثر کہتا تھا ”مال کما لو یا اعمال“ ہنوز زندگی کی سب سے بڑی حقیقت موت ہے، غالب نے موت کو ابن آدم کی میراث کہا ہے شفیع عقیل کو بھی یہ میراث حاصل ہوئی اور وہ جمعہ 6 ستمبر 2013ء کی شب کراچی کے ایک اسپتال میں انتقال کر گیا۔وہ ایک انسان تھا، اس کو فرشتہ ثابت کرنا مقصود نہیں لیکن اتنا ضرور ہے کہ اس میں جتنی خوبیاں تھیں وہ کسی انسان میں کم ہی جمع ہوتی ہیں۔ میں جانتا ہوں چڑھتے سورج کے پجاریوں، موقع پرستوں اور آمریت کے ٹٹ پونجیوں سے بھی اس کے تعلقات رہے لیکن ان کے پسینے کے چھینٹے اپنے بے داغ لباس پر نہ پڑنے دیئے، اس نے ہمیشہ ملمع سازوں، دنیا پرستوں اور جاہ پسندوں کو ایک فاصلے پر رکھا۔شفیع عقیل کا انتقال محض ایک صحافی یا ایک دانشور کا انتقال نہیں، سیکولرازم کا نقصان ہے، انسان دوستی کا نقصان ہے، روشن خیالی کا نقصان ہے۔ وہ زندگی بھر اپنے کمٹمنٹ کے ساتھ جیا اور کبرسنی کے باوجود آخری لمحے تک کتابوں پر تبصروں کی ذمہ داری بھی نبھاتا رہا۔ یہی کمٹمنٹ اسے بے لاگ تبصروں کی جرأت بھی عطا کرتا تھا جو آج کے خوشامد پسندانہ دور میں مشکل سے دیکھنے کو ملتی ہے۔ شفیع عقیل کی یاد ضرور آئے گی کہ وہ لاکھوں دلوں کی دھڑکن بنا رہا، افسوس کہ آج وہ بھی ہمیں چھوڑ گیا۔ یہ رسمی بات نہیں ہے بلکہ حقیقت ہے کہ وہ اپنی شخصیت میں ایک انجمن تھا، تمام خوبیوں اور اوصاف سے متصف شفیع عقیل ہمہ مقاصد اور سیکولر جدوجہد کا اہم ترین شارح و شاہد تھا کہ جس نے اپنے لئے نہیں بلکہ اوروں کیلئے جینے کو ترجیح دی۔ہمیں کوئی سقراط کوئی مارکس کوئی گاندھی میسر نہیں آیا کاش کوئی شفیع عقیل ہی دوسرا پیدا ہو جائے۔ کاش…
خوشبو کے جزیروں سے ستاروں کی حدوں تک
اس شہر میں سب کچھ ہے فقط تیری کمی ہے!
ان دنوں کتابوں کے انبار بالخصوص شعری مجموعوں کی بدعت نے ”اوپر کی کمائی“ والے ادیبوں و شاعروں کا گھر دیکھ لیا ہے مگر ان کے یہاں تخلیقیت گم شدہ جنت کی طرح ڈھونڈنی پڑتی ہے۔ شفیع عقیل نے شعروں کے انبار نہیں لگائے مگر ہر صفحہ پر اچھے شعر جگمگاتے ہیں، اجتماعی سوچ کی نشاندہی کرتے ہیں۔شفیع عقیل کی ایک خوبی جو مجھے بہت بھاتی ہے وہ بے خوفی ہے۔ میں یہ بات ذاتی طور پر جانتا ہوں کہ ادارہ جنگ کی ملازمت کے دوران اس پر بھائی لوگ دباؤ ڈالتے رہتے تھے اور یہ کوئی تعجب کی بات نہیں کہ دنیا کے اہم صحافیوں کے ساتھ ایسا ہوتا آیا ہے جس کی بنیاد سیاسی معمات کا معاملہ ہوتا ہے لیکن وہ شخص کبھی کسی سے نہیں ڈرا، کسی سے ہار نہیں مانی سوائے موت کے۔ وہ صاف گوئی اور بے باکی کیلئے مشہور تھا۔ اس کی انہی صفات کے دو چار واقعات مجھے ابراہیم جلیس نے بھی سنائے تھے کہ وہ بھی صحافت کے اہم ستون تھے۔ میں جانتا ہوں موجودہ زمانے میں صحافت پر برا وقت آیا ہوا ہے، صحافت ضمیر اور ضرورت کے درمیان کشاکش کے مسئلے سے دوچار ہے، صحافت کا سب سے بڑا مقصد سچ کی تشہیر و تبلیغ ہے لیکن دنیا کے ایک ”عالمی بازار“ میں تبدیل ہونے کی ضرب صحافت پر بھی پڑی ہے جبکہ صحافت ایک مقدس اور باوقار پیشہ ہے۔ شفیع عقیل نے اسے بازار کی بداخلاقی سے ہمیشہ بچائے رکھا۔ شفیع عقیل کو مال و منال سے کبھی رغبت نہیں رہی۔ وہ ایمسٹرڈیم میں میرے گھر آیا تو ایک رات بحث و تکرار میں کہنے لگا دولت کا وجود اس لئے ہے کہ انسان اس سے مستفید ہوسکے، سائنس کا وجود اس لئے ہے کہ وہ انسان کی رہنما بن سکے اسی طرح آرٹ کو بھی کسی بامعنی مقصد کی تکمیل ہی میں منہمک رہنا چاہئے لایعنی تفریح میں نہیں۔ وہ کہتا تھا کہ چوپائے سے اٹھ کر دوپایہ ہو جانا کوئی بڑی بات نہیں دوپائے سے انسان بننا اصل بات ہے۔
تازہ ترین