• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

عمران خان اور ان کے ناہل مشیروں، وزیروں نے ملک میں آئین شکنی کی جو مثال قائم کی ہے تاریخ شاید انہیں کبھی معاف نہ کرے۔ وزیر اعظم کے خلاف 8مارچ کو پیش ہونے والی تحریک عدم اعتماد سے ایک روز پہلے ملنے والے خط کے باوجود وزیر اعظم عمران خان اور ان کی پارٹی کے رہنما تحریک کی ناکامی کے دعوے کرتے رہے، اپنے اتحادیوں سے ملاقات کر کے انہیں حمایت جاری رکھنے پر رضامند کرتے رہے،عمران خان اپنے جلسوں میں منحرف ارکان کو دھمکیاں دیتے رہےمگر سوال یہ کہ وہ یہ خط سیکورٹی اداروں کے پاس کیوں نہیں لےکر گئے؟ انہوں نے اس خط کے حوالے سے اپنے اتحادیوں، اپنےوزراء اور اپنی جماعت کے منتخب نمائندوں کو اعتماد میں کیوں نہ لیا، پار لیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بلا کر کوئی لائحہ عمل کیوں نہ بنایا،ملک کی خاطر اپوزیشن رہنمائوں کو گلے کیوں نہیں لگایا، قوم کو سرپرائز کا نعرہ دے کر وہ ملک کی سلامتی اور آئین سے کھیلنے کا پروگر ام کیوں بناتے رہے؟ یہ اور اسی قسم کے کئی سولات ہیں جس نے خود پی ٹی آئی اور عمران خان کی پوزیشن کو مشکوک بنادیا ہے۔ اگروہ امریکا اور یورپی یونین کے ملکوں کے خلاف خود کو ایک مغرب مخالف لیڈر کے طور پرسامنے لانا چاہتے تھے تو عدم اعتماد کی تحریک کے دوران ہونے والے او آئی سی وزرائے خارجہ کے اجلاس میں اس خط کو سامنے کیوں نہ لائے تاکہ اسلامی ملکوں کو بھی اس حوالے سے اعتماد میں لے کر ملک کے مفاد میں کوئی مربوط پالیسی بنائی جاسکتی، ان کے اس عمل سے یہ بات واضح نظر آرہی ہے کہ وہ بطور وزیر اعظم تحریک عدم اعتماد میں اپنی یقینی شکست کو دیکھ کر نہ صرف غیر آئینی قدم اٹھاچکے ہیں بلکہ ملک کو بھی ایک سنگین آئینی بحران سے دوچار کر چکے ہیں، حیرت اس بات پر ہے کہ پہلے قوم سے خطاب میں وہ امریکا کا نام لے کر کسی دوسرے ملک کا ذکر کرنے لگے مگر عدم اعتماد والے دن سب کچھ قوم کو بتا گئے اگر وہ عدم اعتماد کے بعد اگلے الیکشن میں اس خط کو اپنی انتخابی مہم کا حصہ بناتے تو اس کا فائدہ ان کے تصور سے بھی کہیں زیادہ ہوتا۔

اب جبکہ تادم تحریر تحریک عدم اعتمادکو آرٹیکل پانچ کے تحت مسترد کرنے، عمران خان کے حکم پر صدر کی جانب سے قومی اسمبلی تحلیل کرنے کامعاملہ ملک کی اعلیٰ ترین عدالت میں ہے، اس کا فیصلہ تاریخ کا رخ موڑنے میں مدد گار ثابت ہوگا۔عمران حکومت کی بدقسمتی یہ رہی کہ انہوں نے ساڑھے تین سال کے عرصے میں خود کو ’’میں میں‘‘کی رٹ سے باہر نہ نکالا،ان کا اندازِ سیاست اور طرزِ حکمرانی دونوں ملک اور عوامی مفاد کے منافی رہا،یہ ان کی خوش قسمتی تھی کہ اپوزیشن جماعتیں ان کی حکومت کے دو سے ڈھائی سال خودآپس میں ایک دوسرے کے خلاف اپوزیشن بنی رہیں، مگر جیسے ہی انہوں نے یکجا ہوکر ان کے خلاف سیاسی انداز میں تحریک کا آغاز کیا عمران کو آئین کا دشمن بننے پر مجبور کردیا۔قومی اسمبلی میں ہی نہیں پنجاب میں بھی ان کو نہ صرف اپنے وزیر اعلی کو ہٹانا پڑا بلکہ گورنر کو بھی برطرف کرنا پڑ گیا۔مہنگائی اور گرتے معیارِ زندگی سے ان کی پارٹی نے عوام میں مقبولیت کھودی، پارلیمانی اکثریت کھونے پر انہوں نےامریکی دھمکی آمیز خط کا سہارا لیا،عمران خان نے سیکورٹی کمیٹی کے اجلاس کے حوالے سے بھی غلط بیانی سے کام لیا جس پر بلاول بھٹو، آصف علی زرادری اور مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ ڈی جی آئی ایس پی آر وضاحت دیں؟کیا قومی سلامتی کمیٹی نے197 اراکینِ پارلیمنٹ کوغدار قرار دیاکیا قومی سلامتی کمیٹی نے197 اراکین کو اس غیرملکی سازش کا حصہ قرار دیا ہے؟ مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ پاکستان کی وفادار قیادت پر اس قسم کے الزامات اور انہیں غداری کی طرف دھکیلنے کے نتائج کیا ہوں گے۔ عمران خان آج حب الوطنی کا لبادہ اوڑھ رہے ہیں، ان کے دور میں کشمیر کا سودا ہو گیا، ناموسِ رسالتﷺ کی گستاخی پر احتجاج کرنے والوں پر لاٹھی چارج کیا گیا مگر فرانس کے سفیر کو ملک بدر نہیں کیا گیا، بات جب عمران خان کے اپنے اقتدار پرآئی تو انہوں نے پار لیمنٹ میں تحریک عدم اعتماد سے ہونے والی بےعزتی سے بچنے کے لیے ملک کے منتخب نمائندوں کو جن میں ان کے اتحادی بھی شامل تھے، بیک جنبش قلم غدار اور امریکی ایجنٹ قرار دے دیا،اپوزیشن نئے انتخابات کا مطالبہ کرتی رہی تو وہ اور ان کے وزرا 2023تک انتظار کا جواب دیتے رہے، اپنی حکومت کے دور میں وہ نہ نوکریاں دے سکے نہ گھر۔ غریبوں کے چولہے ضرور بجھا گئے، اب جبکہ اپوزیشن رہنمائوں کی جانب سے عمران خان کو سیکورٹی رسک قرار دیا جارہا ہے،اسٹیبلشمنٹ کو اس بارے میں سوچنا ہوگا۔ ہر پاکستانی کی دعا ہے کہ خدا کرے کہ اس ملک میں آئین اور قانون کے ساتھ کھیل ایک دوسرے کو ملک دشمن اور غدار قرار دے کے الزامات کا سلسلہ ہمیشہ کے لیے بند ہو اور ہم ایک پابند آئین، مہذب قوم کی حیثیت سے دنیا میں ا پنے آپ کو منوا سکیں۔

تازہ ترین