حافظ محمّد وقاص تنولی
رمضان المبارک کا اللہ تعالیٰ کی آخری کتاب، قرآنِ پاک سے ایک خاص تعلق ہے کہ اِسی ماہ کی ایک بابرکت رات میں اللہ تعالیٰ نے اسے لوحِ محفوظ سے آسمانِ دنیا پر نازل فرمایا اور پھر حسبِ ضرورت ، تھوڑا تھوڑا ،حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوتا رہا۔ سورۂ دخان میں ہے،’’ہم نے اِس کتاب کو ایک مبارک رات میں اُتار‘‘ اور سورۃ البقرہ میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے،’’ رمضان وہ مہینہ ہے، جس میں قرآن نازل کیا گیا، جو انسانوں کے لیے سراسرہدایت اور ایسی واضح تعلیمات پر مشتمل ہے، جو راہِ راست دِکھانے والی اور حق وباطل کا فرق کھول کر رکھ دینے والی ہیں۔‘‘
جب کہ سورۃ القدر میں مزید تفصیل یہ بیان کی گئی کہ’’ ہم نے اسے لیلۃ القدر(عزّت والی رات) میں نازل فرمایا۔‘‘ اِس ماہِ مقدّس کی یہ شان ہے کہ قرآنِ کریم کے علاوہ باقی صحائف بھی اِسی مہینے میں نازل ہوئے، جیسا کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا،’’ مصحفِ ابراہیمیؑ ، تورات اور انجیل سب کا نزول رمضان ہی میں ہوا۔‘‘(مسند احمد)۔جب حضرت موسیٰ علیہ السّلام کو کوہِ طور پر تورات سے نوازا گیا، تو اُن دنوں آپؑ روزے سے تھے،اُسی کی یاد میں یہودی چالیس دنوں تک روزے رکھتے ہیں۔ اِسی طرح، حضرت عیسٰی علیہ السّلام نے بھی نزولِ انجیل کے زمانے میں روزہ رکھا۔( ترجمان القرآن)۔
کتاب اللہ کی زیادہ سے زیادہ تلاوت کے ساتھ غور و فکر کا اہتمام بھی ضروری ہے
اللہ تعالیٰ نے روزے کا مقصد تقویٰ اور پرہیزگاری قرار دیا اور قرآنِ پاک سے متعلق ارشاد ہے ،’’ یہ کتاب ایسی ہے کہ اِس میں کوئی شک نہیں، یہ ہدایت ہے متّقیوں، یعنی اللہ تعالیٰ سے ڈرنے والوں کے لیے۔‘‘گویا اِس حوالے سے بھی اِن دونوں میں ایک خاص مناسبت پائی جاتی ہے۔حضرت عبداللہ بن عُمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا،’’ روزہ اور قرآن بندے کے لیے قیامت کے دن شفاعت کریں گے۔ روزہ کہے گا،’’ اے میرے ربّ! مَیں نے اسے کھانے پینے اور خواہشِ نفس سے روکے رکھا، لہٰذا اس کے لیے میری شفاعت قبول فرما۔‘‘ اور قرآن کہے گا،’’ اے میرے ربّ! مَیں نے اسے رات کے وقت نیند سے روکے رکھا (اور قیام اللّیل میں مجھے پڑھتا یا سُنتا رہا)، لہٰذا اس کے حق میں میری شفاعت قبول فرما۔‘‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا،’’ دونوں کی شفاعت قبول کر لی جائے گی۔‘‘(مسند احمد)۔ اِن دونوں کے درمیان اِس خاص تعلق کے سبب ماہِ رمضان میں قرآنِ پاک کی کثرت سے تلاوت کی جاتی ہے اور اس کے معانی و مفہوم سمجھنے کے لیے انفرادی اور اجتماعی سطح پر خاص اہتمام کیا جاتا ہے۔ ہمارے گھروں اور مساجد میں قرآنِ پاک کی خوش کُن تلاوت سے رُوح پرور روحانی مناظر دیکھنے کو ملتے ہیں۔
احادیثِ مبارکہؐ کے مطابق، نبی کریم ﷺ ہر سال ماہِ رمضان میں حضرت جبرائیل علیہ السّلام کے ساتھ قرآنِ پاک کے نازل شدہ حصّوں کا دور کیا کرتے تھے اور جس سال آپ صلی اللہ علیہ وسلّم کا انتقال ہوا، اُس سال آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو بار قرآنِ کریم کا دور فرمایا۔(بخاری ومسلم)۔ نبی کریمﷺ کا ارشادِ گرامی ہے’’جس نے کتابُ اللہ کا ایک حرف پڑھا، اُسے دس نیکیوں کے برابر ثواب ملتا ہے۔ مَیں نہیں کہتا، الم ایک حرف ہے بلکہ الف ایک حرف، لام ایک حرف اور میم ایک حرف ہے۔‘‘ (ترمذی)۔ نیز، احادیثِ مبارکہؐ میں یہ بھی آیا ہے کہ رمضان المبارک میں مختلف اعمال پر نیکیاں بڑھا دی جاتی ہیں، تو قرآنِ پاک کی تلاوت پر ملنے والا ثواب بھی کئی گُنا بڑھ جاتا ہے۔
حضرت نعمان بن بشیرؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا،’’میری اُمّت کی سب سے افضل عبادت تلاوتِ قرآن ہے۔‘‘(بیہقی، شعب الايمان)۔حضرت ابوامامہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ’’ مَیں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سُنا کہ’’ قرآن مجید پڑھا کرو، یہ قیامت کے دن اپنے پڑھنے والوں کے لیے شفاعت کرنے والا بن کر آئے گا۔“(مسلم)حضرت ابو سعید خُدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا،’’ اللہ ربّ العزّت فرماتا ہے،’’ جس شخص کو قرآن اور میرا ذکر اِتنا مشغول کردے کہ وہ مجھ سے کچھ مانگ بھی نہ سکے، تو مَیں اُسے مانگنے والوں سے بھی زیادہ عطا فرما دیتا ہوں۔ اور تمام کلاموں پر اللہ تعالیٰ کے کلام (قرآنِ حکیم) کی فضیلت اسی طرح ہے، جس طرح اللہ تعالیٰ کی اپنی مخلوق پر( فضیلت ہے)۔‘‘(ترمذی)۔صحابۂ کرامؓ اور سلف صالحینؒ رمضان المبارک میں معمول سے زیادہ تلاوت کیا کرتے تھے۔حضرت امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کے متعلق روایت ہے کہ وہ رمضان شروع ہونے پر درس وتدریس اور تصنیف و تالیف کا سلسلہ روک کر صرف قرآنِ پاک کی تلاوت کرتے رہتے۔ کئی بزرگانِ دین سے متعلق تو یہ روایات بھی ہیں کہ وہ روزانہ ایک یا ہر دوسرے روز قرآنِ پاک ختم کرتے۔ اِسی طرح وہ نمازِ تہجّد میں طویل قیام کرتے ہوئے قرآنِ پاک پڑھتے۔
حضرت قتادہؒ عام طور پر ہر سات رات میں ایک قرآنِ مجید ختم کیا کرتے تھے، لیکن ماہِ رمضان میں ہر تین رات میں ایک قرآن ختم کرتے اور جب آخری عشرہ ہوتا، تو ہر رات ایک قرآنِ کریم ختم کرتے۔ نصف ماہِ مقدّس گزر چُکا، جس کے دَوران ہم نے اپنے اوقات کا بڑا حصّہ یقیناً قرآنِ پاک کی تلاوت کرتے گزارا ہوگا، لیکن اگر ایسا نہیں ہوسکا، تو ہمارے پاس اب بھی موقع ہے کہ اِس ماہ کے باقی ایّام میں زیادہ سے زیادہ تلاوت کو اپنا معمول بنالیں۔ اگر ہماری دفتری، کاروباری مصروفیات زیادہ ہیں یا کوئی خاتونِ خانہ گھریلو کام کاج کی وجہ سے زیادہ وقت نہیں نکال پاتی، یا زبان اٹکنے کی وجہ سے رُک رُک کر تلاوت کرنی پڑتی ہے، تب بھی کم ازکم اِس ماہ کے دَوران ایک بار تو قرآنِ پاک ضرور ختم کرنا چاہیے کہ انسان کتنا ہی مصروف کیوں نہ ہو، اِتنا وقت تو نکال ہی سکتا ہے۔تلاوت کے ساتھ قرآنِ پاک کا کچھ حصّہ حفظ بھی کر لیا جائے، تو یہ بھی ایک بہت بڑی، اَن مول نعمت ہے۔
حضرت عبد اللہ بن عبّاس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا،’’ وہ شخص، جس کے دل میں قرآنِ کریم کا کچھ حصّہ بھی نہیں، ویران گھر کی طرح ہے۔‘‘ (ترمذی)۔اگر رمضان المبارک سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے آخری پارے کی کچھ چھوٹی چھوٹی سورتیں یا مختلف رکوع یاد کرلیے جائیں، تو اُنھیں عام دنوں میں نمازوں میں پڑھ سکیں گے۔اِسی طرح، مسنون دعائیں بھی یاد کی جاسکتی ہیں تاکہ ہمارے روزمرّہ کے کام سُنّتِ نبویﷺ کے مطابق انجام پاسکیں۔ اگر کسی کو مکمل نماز یاد نہیں یا نمازِ جنازہ وغیرہ کی دُعا نہیں آتی، تو وہ بھی کسی کتاب وغیرہ میں دیکھ کر یاد کرلینی چاہیے۔
قرآنِ پاک، کتابِ ہدایت ہے اور یہ مقصد اُسی وقت حاصل ہوسکتا ہے، جب اِس میں تدبّر اور غوروفکر کرتے ہوئے اس سے رہنمائی حاصل کی جائے اور پھر اِن تعلیمات کو اپنی زندگی کا حصّہ بنا کر دنیا و آخرت کی کام یابی سمیٹ لی جائے۔ قرآن و احا دیث میں جہاں اس کی تلاوت کے فضائل بیان کیے گئے ہیں، وہیں اس میں غوروفکر کا بھی حکم ہے۔ سورۂ ص میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے،’’یہ ایک بڑی برکت والی کتاب ہے ،جو(اے نبیؐ)ہم نے تمہاری طرف نازل کی ہے تاکہ یہ لوگ اِس کی آیات پر غورکریں اورعقل وفکر رکھنے والے اِس سے سبق لیں۔‘‘ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا،’’ہلاکت ہے اُس کے لیے جو قرآن کی آیات کی تلاوت توکرتا ہے، مگر ان پر غورفکر نہیں کرتا۔‘‘
سورۃ الفرقان میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے،’’اوررسول کہے گا کہ اے میرے ربّ !میری قوم کے لوگوں نے اِس قرآن کو نشانۂ تضحیک بنا لیا تھا۔‘‘ علّامہ ابنِ کثیرؒ نے اِس کی وضاحت یوں کی ہے کہ’’قرآن میں تفکّرو تدبر نہ کرنا، قرآن کو چھوڑنے کے مترادف ہے۔‘‘حضرت ابوذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے ارشاد فرمایا،’’ تم صبح جا کر کتابُ اللہ کی ایک آیت سیکھو، یہ تمھارے لیے ایک سو رکعت نماز سے بہتر ہے اور صبح جا کر علم کا ایک باب سیکھو، خواہ اُس پر (اُسی وقت) عمل کرویا نہ کرو، یہ تمھارے لیے ایک ہزار رکعت پڑھنے سے بہتر ہے۔‘‘( ابنِ ماجہ) ۔
یہی وجہ ہے کہ صحابۂ کرامؓ اور سلف صالحینؒ آیاتِ قرآنی کو بہت غور سے اور سمجھ کر پڑھتے تھے۔ حضرت عبد اللہ بن عباسؓ فرماتے ہیں،’’ ہم میں سے جوکوئی 10آیات پڑھ لیتا، تو وہ اُس وقت تک آگے نہ بڑھتا، جب تک کہ اُن کے معنیٰ اور مفہوم کو سمجھ نہ لیتا اوراُن پر عمل پیرا نہ ہوجاتا۔‘‘سورۂ مزمل اور دیگر مقامات پر قرآنِ پاک کو ٹھہر ٹھہر کر پڑھنے کا حکم ہے۔ اِس ضمن میں مفسّرین فرماتے ہیں کہ ان آیات کا ایک مطلب تو یہ ہے کہ تلاوت کرتے وقت الفاظ کی ادائی درست طور پر ہو اور دوسرا مطلب یہ ہے کہ قرآنِ پاک کو غورو فکر کے ساتھ پڑھا جائے تاکہ معلوم ہوسکے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو کیا ہدایت دے رہا ہے۔
اِسی مقصد کے پیشِ نظر قرآنِ پاک کے مختلف زبانوں میں تراجم کیے گئے ہیں اور علمائے کرام نے عوام کی رہنمائی کے لیے قرآنِ پاک کی تفاسیر لکھی ہیں۔ ہمیں رمضان المبارک کی بابرکت ساعتوں میں قرآن پاک ترجمے اور تفسیر کے ساتھ بھی پڑھنے کا آغاز کرنا چاہیے۔ روزانہ چند آیات یا رکوع، جو بھی سہولت ہو، ترجمے کے ساتھ اچھی طرح سمجھ کر پڑھنے سے آہستہ آہستہ قرآنِ پاک کی تعلیمات سمجھ آنے لگیں گی اور مزید جاننے کا شوق بھی پیدا ہوگا۔
چوں کہ قرآن پاک کو اِس طرح سمجھ کر پڑھنا ایک ماہ میں ممکن نہیں، لہٰذا کوشش کریں کہ کوئی ایسا شیڈول بنالیا جائے، جس پر رمضان کے بعد بھی عمل کرنے میں آسانی رہے۔ آج کل موبائل فونز پر بھی ایسی ایپس دست یاب ہیں، جن کی مدد سے کئی تفاسیر اور تراجم تک رسائی ممکن ہے، جب کہ اُن کا استعمال بھی بہت آسان ہے۔ نیز، اُن سے دفاتر اور سفر کے دوران بھی باآسانی استفادہ کیا جاسکتا ہے۔