احمد اسلم جروار
جنّت، دوزخ یا روزِ محشر وغیرہ کی جو تفصیلات قرآنِ پاک اور مستند احادیثِ مبارکہؐ میں بیان کی گئی ہیں، ہم بطور مسلمان اُن پر مکمل یقین رکھتے ہیں۔ خواہ اُن کی درست تعبیر کر سکیں یا وہ ہماری سمجھ سے باہر ہی کیوں نہ ہوں۔زیرِ نظر مضمون میں اِن امور کو سائنسی طور پر بھی سمجھنے کی ایک کوشش کی گئی ہے۔ البتہ، یہ ایک ایسا موضوع ہے، جس پر کوئی حتمی رائے قائم کرنا ممکن نہیں کہ یہ ’’ غیب‘‘ سے متعلقہ امور ہیں اور اللہ تعالیٰ ہی ان کی حقیقت سے واقف ہیں۔
چند ماہ قبل ایک معروف مذہبی ٹی وی چینل کا ایک کلپ دیکھا، جس میں ایک بچّہ سوال کرتا ہے کہ’’ کیا جنّت میں انٹرنیٹ ہوگا؟‘‘ ٹی وی اینکر یہ سوال سُن کر ہکّا بکّا رہ گیا اور بچّے کو ایسے دیکھنے لگا، جیسے اُس نے کوئی بے تُکا سوال کردیا ہو۔ گویا وہ اپنے رویّے سے یہ کہہ رہا تھا کہ’’ بھئی! جنّت کا انٹرنیٹ یا اِس طرح کی کسی ٹیکنالوجی سے کیا لینا دینا؟ یہ تو دنیا کے بکھیڑے ہیں۔‘‘یہ کلپ دیکھ کر مجھے بڑی حیرت ہوئی اور اپنی مرحومہ ماں یاد آگئیں، جو ہمیں بچپن میں نیکی کی باتیں، اُن کی جزا اور برائی کی سزا سے متعلق بتایا کرتی تھیں۔
واقعۂ معراج ، جنّت اور دوزخ میں اہلِ علم کے لیے بہت سی نشانیاں ہیں
اُن باتوں میں ایک یہ بھی تھی کہ جنّت میں آپ جو خواہش کروگے، وہ پوری ہوگی۔ آپ جو سوچو گے، وہ آپ کے سامنے آجائے گا۔ بچپن میں کھانا پینا ہی سب سے بڑا اثاثہ ہوتا ہے، سو، سمجھانے کے لیے کہتیں،’’ اگر تم کچھ کھانا چاہو گے، تو وہ تمہارے پاس آجائے گا۔ جیسے کوئی پھل یا کوئی بھی چیز۔‘‘ یعنی آپ کو اس کے لیے کوئی مشقّت یا دوڑ دھوپ نہیں کرنی پڑے گی، بس اِدھر خواہش کی، اُدھر پوری ہوگئی۔ اُس وقت تو ایسے ماحول کا فقط تصوّر ہی کیا جا سکتا تھا، لیکن ایک بات ضرور ہے کہ یقین سا ہوتا تھا کہ ایسا ہی ہوگا، پر کیسے ہوگا؟ اس کا کوئی آئیڈیا نہیں تھا۔ لیکن اب ٹیکنالوجی میں ترقّی کے ساتھ یہ باتیں عملی لگتی ہیں۔
سب سے پہلے تو ٹی وی ریموٹ کنٹرول ہی پر بڑی حیرانی ہوتی تھی کہ دُور ہی سے اُس کا بٹن دبانے سے ٹی وی کُھلتا، بند ہوجاتا یا دیگر فنکشنز انجام پاتے۔ پھر کئی اورچیزوں میں بھی اُس کا عمل دخل شروع ہو گیا، جیسے کھلونا گاڑیاں، کھلونا جہاز جب کہ اب تو پچھلے چند برس سے بڑے بڑے ڈرون، ریموٹ کنٹرول ٹیکنالوجی سے چلائے جا رہے ہیں۔ اِسی طرح موبائل فون کی آمد کے بعد تو جیسے انقلاب آگیا، بس نمبر ملائیں اور سات سمندر پار بیٹھے لوگوں سے بغیر تار کے بات کرلیں، جب کہ اسمارٹ فون نے تو جیسے دنیا ہی بدل کے رکھ دی۔ ساتھ ہی آواز (وائس کمانڈ) اور حرکت (موشن) سینسر سے چیزوں کو چلانے والی ٹیکنالوجی آگئی، جس نے ریموٹ کنٹرول کی بھی چُھٹّی کر دی۔اُدھر کوئی حکم دیا،اُدھر تعمیل ہونے لگی۔
آج کل آپ اپنی بہت سی ڈیوائسز وائس کمانڈ سے چلاتے ہیں۔ بلب، پنکھے، دروازے اور بہت سی دوسری اشیا آپ کی زبان سے نکلے حکم پر چلتی اور بند ہوتی ہیں۔ موبائل فون آپ کے حکم کی بجا آوری کرتے ہوئے سرچ کرنے اور کال ملانے سے لے کر ایپس کھولنے، بند کرنے کے علاوہ بہت سے امور انجام دیتا ہے، جن سے آپ دُور بیٹھے گھر، دکان یا آفس کی نگرانی کرسکتے ہیں۔ ٹیکنالوجی کی ترقّی اور اس کی قبولیت ہمارے دَور کی بڑی کام یابی ہے۔ اِس وقت دنیا کو گلوبل ویلیج کہا جا تا ہے۔ اگر دنیا میں کہیں بھی کوئی اہم واقعہ پیش آتا ہے، تو لمحوں میں دنیا کے ہر کونے تک اس کی اطلاع پہنچ جاتی ہے اور پھر لوگوں کو یقین بھی ہوتا ہے کہ یہ ممکن ہے۔
آج کل معذور افراد کو مصنوعی اعضا لگائے جارہے ہیں، جو اعصابی نظام سے جوڑ دیے جاتے ہیں۔ اِس طرح انسان اپنی سوچ کے ذریعے اصل اعضا کی طرح اُنہیں حرکت دیتا ہے۔ اس ٹیکنالوجی کو’’ نیورالنک‘‘ کہا جا رہا ہے اور اس کے عام ہونے کے بعد شاید ہر انسان اپنی سوچ کی مدد سے وہی کچھ عام زندگی میں کر سکے، جو وہ آج کل وائس کمانڈ سے کر رہا ہے، جیسے بلب، پنکھا، ٹی وی وغیرہ کھولنے، بند کرنے یا کوئی بھی کام کرنے کے لیے آپ فقط سوچیں اور وہ کام ہوجائے۔ یہ تو انسانی سوچ اور کھوج ہے، جو اِتنی شان دار ٹیکنالوجی بنا کر زندگیوں کو سہل بنا رہی ہے، لیکن اللہ، جس نے اس کائنات اور انسان کو تخلیق کیا، اس کی ٹیکنالوجی یقیناً بہت ایڈوانس ہوگی، بلکہ اگر کہا جائے کہ وہ ٹیکنالوجی کی انتہا ہوگی، جس کے ذریعے جنّت میں انسان جو خواہش کرے گا، وہ فوراً پوری ہوجائے گی۔ ایسی ٹیکنالوجی کی مثالیں 14 سو سال پہلے سے ہمارے سامنے ہیں، لیکن ہم اپنے ذہن و خیال کی پستی کی وجہ سے اُن کی بلندی اور رُوح تک نہیں پہنچ پاتے۔
(1)واقعۂ معراج، ٹیکنالوجی کا شاہ کار تھا، جس میں حضرت محمّد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلّم کو ٹائم اور اسپیس کی حدود سے نکل کر کائنات کی انتہا تک کا سفر رات کے چند لمحوں میں کروایا گیا۔آج کل ایسی ہی ایک ٹیکنالوجی پر سائنس دان کام کر رہے ہیں، جسے’’ورم ہول‘‘ کہا جارہا ہے۔ اس کا تھیم یہی ہے کہ اگر انسان اس میں کام یاب ہوگیا، تو دنیا کے چند گھنٹوں کے اندر کسی گیلیکسی کی سیر ممکن ہوجائے گی، لیکن اسے عمل میں لانے میں شاید ابھی کئی صدیاں یا ہزاروں سال لگ جائیں۔فلم’’انٹر اسٹیلر‘‘ میں ورم ہول دکھایا گیا ہے، جس میں ایک کردار خلا میں 2 سال کے قریب وقت گزارتا ہے اور جوان رہتا ہے، جب کہ زمین پر اُس دَوران 80 سال گزر جاتے ہیں۔
(2)معراج سے واپسی پر جب مکّہ مکرّمہ میں نبی کریم ﷺ سے بیتُ المقدِس کی تفاصیل پوچھی گئیں، تو بیتُ المقدِس آپ ﷺ کے سامنے لاکر رکھ دیا گیا اور آپ ﷺ نے دیکھ دیکھ کر اس کی ساری تفصیل بیان کردی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا"پھر مسجد کو (میرے سامنے) لایا گیا، مَیں دیکھ رہا تھا، حتیٰ کہ عقال یا عقیل کے دروازے کے پاس رکھ دی گئی، میں اس کا وصف بیان کرنے لگا اور مَیں اُس کی طرف دیکھ رہا تھا۔‘‘
شاید یہ بیتُ المقدِس کا کوئی ہائی ٹیک ملٹی ڈائی مینشنل ہولوگرام تھا، جو آپ ﷺ کے سامنے رکھ دیا گیا، جسے دیکھ دیکھ کر آپؐ نے القدس کی تفصیلات بتائی ہوں گی۔ہولوگرام کسی چیز کا ورچوئل تھری ڈی ماڈل ہے، جسے آپ کسی اسکرین کے مقابلے میں سامنے کی بجائے چاروں طرف سے دیکھ سکتے ہیں۔ لیکن ابھی تک سائنس دانوں کو اسے بنانے میں مکمل کام یابی حاصل نہیں ہو سکی، تاہم اس پر تجربات جاری ہیں۔ ہولوگرام کو آپ "اسٹار وار" مووی میں دیکھ کر اندازاہ لگا سکتے ہیں کہ یہ کیا ہوتا ہے۔
(3) واقعۂ معراج ہی کے دوران آسمان کی بلندیوں سے حضرت محمّد ﷺ کو چار نہریں نظر آئیں،جن میں سے دو کے متعلق بتایا گیا کہ یہ دریائے نیل و فرات ہیں۔ (صحيح بخاری، 3887)۔انٹرنیشنل خلائی اسٹیشن سے نظر آنے والے زمینی اجسام میں دریائے نیل و فرات بھی شامل ہیں۔ جب کہ یہی بات حضرت محمد ﷺ صدیوں پہلے بتا گئے۔ کیا اُس وقت کوئی تصوّر کر سکتا تھا کہ صدیوں بعد خلا سے کبھی انہی چیزوں کو اسی طرح دیکھا جائے گا؟ کیا اب بھی واقعۂ معراج اور اس کے ٹیکنالوجیکل کمال میں کوئی شک رہ جاتا ہے؟
(4)قیامت کے دن جہاں اگلے پچھلے اربوں، کھربوں انسان ایک ہی میدان میں جمع ہوں گے، وہاں کے لیے کہا گیا ہے کہ’’ جہنّم کو گنہہ گاروں کے سامنے لایا جائے گا‘‘،’’اور وہ دن ہوگا، جب ہم جہنّم کو کافروں کے سامنے لائیں گے۔‘‘ (سورۃ الکہف، 100)۔ یہ کیسے ممکن ہوگا؟ جب کہ احادیث کے مطابق اس کی تپش 500 سال دُور سے محسوس کی جا سکے گی، یعنی جہنّم سورج سے کہیں زیادہ گرم اور بڑی ہوگی، جبھی اس کی تپش اِتنی دُور سے محسوس کی جاسکے گی۔
شاید قیامت کے دن بھی کوئی ملٹی ڈائمینشنل ہولوگرام ہوگا یا ملین گیگا بائیٹ اسپیڈ کے ساتھ کوئی بہت بڑی اسکرین، جس پر جہنمیوں کو جہنّم میں جانے سے پہلے میدانِ حشر ہی میں جہنّم دِکھادی جائے گی۔ میدانِ حشر میں جنّتی بھی ہوں گے اور اسی طرح جنّت اُن کے سامنے لائی جائے گی’’ اور جنّت متّقین کے قریب لائی جائے گی ، کچھ بھی دُور نہ ہوگی۔‘‘( سورۂ ق، 31)۔ یا شاید اگلے جہان میں ٹائم اور اسپیس کے طول وعرض ہماری دنیا سے مختلف ہوں گے اور جس طرح آج کل دنیا گلوبل ویلیج ہے، اسی طرح آخرت میں دوریوں کے باوجود فاصلے سُکڑ جائیں گے۔ اس کا صحیح تصوّر کرنا تو شاید ممکن نہ ہو، لیکن جادوئی فلمز جیسے’’ہیری پوٹر‘‘ وغیرہ کو دیکھنے سے ایسی باتوں کا تصوّر کیا جاسکتا ہے، جس میں اداکار پردے کے اُس پار جاتے ہی دوسری دنیا میں پہنچ جاتے ہیں۔
(5) روزِ محشر نامۂ اعمال ہاتھ میں تھما دیا جائے گا، جس میں زندگی بَھر کی ذرّہ برابر نیکی اور ذرّہ برابر ہر برائی درج ہوگی (سورۃ الزلزلۃ)۔ دنیا میں لوگوں کی بائیوگرافی کی کتب، جن میں اُن کی زندگی کا فقط خاص احوال درج ہوتا ہے، کئی سو صفحات پر مشتمل ہوتی ہیں، جب کہ نامۂ اعمال میں انسان کی زندگی کے لمحے لمحے کی داستان ہوگی، تو آپ اندازہ کیجیے کہ وہ کتنی ضخیم کتاب ہوگی؟
کیا یہ کوئی کاغذ کی کتاب ہوگی، نہیں، بلکہ شاید یہ کوئی موبائل یا آئی پیڈ ٹائپ کی بہت ہی ایڈوانس ڈیوائس ہوگی، جو کسی بھی انسان کی پوری زندگی کی ہولوگرافک پریزینٹیشن پر مشتمل ہوگی اور وہ انسانی ذہن سے کنٹرول ہونے والی ہوگی، جس سے انسان اپنی زندگی کے کسی لمحے کے فعل کو اس میں موجود اور زندہ پائے گا اور اپنی سوچ کے ساتھ آسانی کے ساتھ اُس کی ورق گردانی بھی کر سکے گا۔
(6) ’’جب جنّت اور جہنّم آباد ہوجائیں گی، تب اُن کے باسی ایک دوسرے سے مکالمہ بھی کریں گے (سورۃالاعراف، آیت 44 سے 50)۔ حدیث میں ہے کہ’’ جنّت کے ایک سو درجے ہیں اور ہر درجے کے درمیان اِتنا ہی فاصلہ ہے، جتنا آسمان اور زمین کے درمیان ہے۔‘‘ (جامع ترمذی و دیگر)۔ اس سے لگتا ہے کہ جنّت شاید سیکڑوں سیّاروں پر مشتمل ہوگی اور ایک پوری کائنات ہوگی۔
قدرتی طور پہ جہنّم اُن سے کہیں دُور واقع ہونی چاہیے، تو جنّت و جہنّم کے لوگ ایک دوسرے کو دیکھ کر کس طرح آمنے سامنے کی طرح باتیں کر سکتے ہیں؟ میرے خیال میں یہ رابطہ بھی کسی بہت بڑی اور طاقت وَر لیکن دوطرفہ اسکرین کے ذریعے ہوگا، جو انتہائی ہائی ٹیک انٹرنیٹ سے منسلک ہوگی اور دونوں طرف کے لوگ آمنے سامنے کی طرح ایک دوسرے سے باتیں کرسکیں گے۔
(7) جنتیوں کو محلّات اور سلطنتیں یا جاگیریں عطا ہوں گی اور وہ اپنی اپنی سلطنتوں کو ہائی ٹیک سی سی ٹی وی کی مدد سے مانیٹر کر سکیں گے، کیوں کہ جنّت، زمین کی طرح محدود نہ ہوگی بلکہ اُس کی وسعت’’ آسمانوں اور زمین‘‘ جتنی ہوگی، بلکہ وہ وقت ٹیکنالوجی کا شاہ کار ہوگا اور اُس وقت کی کائنات جنتیوں کی سیر گاہ ہوگی۔ اِس لیے آج کل کے نوجوانوں سے گزارش ہے کہ انٹرنیٹ پر گیمز کھیل کر اور دیگر فضول چیزوں پر اپنا وقت برباد کرنے کی بجائے جنّت کی تیاری کریں، جہاں کا انٹرنیٹ لامحدود اور کائنات کی وسعتوں کو چُھوتا ہوا ہوگا۔ ’’دوڑو اور ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کرو، اپنے ربّ کی مغفرت اور اُس جنّت کی طرف، جس کی وسعت آسمان و زمین جیسی ہے، جو مہیا کی گئی ہے،اُن لوگوں کے لیے ،جو اللہ اور اُس کے رسولوں پر ایمان لائے ہوں۔ یہ اللہ کا فضل ہے، جسے چاہتا ہے عطا فرماتا ہے۔ اور اللہ بڑے فضل والا ہے۔‘‘ (سورۃ الحدید21)۔