• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
یہ قدرت کا قانون ہے اورانسانی تاریخ گواہی دیتی ہے کہ کوئی قوم ہمیشہ محکوم رہ سکتی ہے نہ حاکم  دنیا میں کتنی ہی محکوم قومیں گزری ہیں جنہوں نے دارورسن کی آزمائشوں کے باوجود مصمم عزم اور جہد مسلسل سے غلامی کی زنجیریں توڑڈالیں۔ کتنے ہی فرعون تھے جو ظلم وجبر کے تمام تر ہتھیاروں کے باوجود محکوم قوموں کے جذبہ حریت کے سامنے نہ ٹھہر سکے اور مات کھا گئے۔ جموں وکشمیر پر بھی ظلم کرنے والوں کا حشر ہمیشہ عبرتناک ہوا۔ کشمیری اگران کے آگے بے بس ہوئے تو قہر خداوندی نے انہیں مٹادیا۔ ان میں ایک وحشی ہون حملہ آور مہر گل بھی تھا۔ ساتویں صدی عیسوی کے آغاز میں اس نے تخت کشمیر پر قبضہ کرلیا۔ اس وقت بودھ مت کشمیر کا سرکاری مذہب تھا۔ مہرگل نے اس کے ہزاروں پیروکاروں کو قتل کیا اوران کی خانقاہیں جلا دیں۔ وہ جدھر جاتا عورتوں مردوں اوربچوں بوڑھوں کو تہ تیغ کرتا چلاجاتا۔ کہیں چیلوں اور گدھوں کے غول نظر آتے تو لوگ جان لیتے کہ مہر گل کی فوج ادھر آرہی ہے۔ یہ اتنا سفاک تھاکہ ایک مہم کے دوران اس کا ہاتھی پیر پنجال کے پہاڑ سے پھسل کر نیچے ہزاروں فٹ گہرائی میں جاگرا  گرتے اورمرتے ہوئے ہاتھی کی چیخیں مہرگل کواتنی پسند آئیں کہ اس نے ایک ایک کرکے ایک سو ہاتھیوں کو پہاڑ سے نیچے گرایا اوران کی چیخوں سے لطف اندوز ہوتا رہا۔ اللہ نے اپنی مخلوق کو بچانے کے لئے اس کے حواس چھین لئے اور بے بسی کے عالم میں اس نے خودکشی کرلی۔ اس کے ساتھ ہی اس کا لشکربھی تتر بتر ہوگیا اور کشمیریوں کو اس عذاب سے نجات مل گئی۔ چودہویں صدی کے آغاز میں تاتاریوں کے سردار ذوالقدر خان نے کشمیر کو تا راج کیا۔ اس وقت ایک بزدل ہندوراجہ سہدیو یہاں کاحکمران تھا۔ وہ خود تو بھاگ کر پہاڑوں میں روپوش ہوگیا۔ رعایا کو تاتاریوں کے رحم وکرم پر چھوڑ دیا۔ ذوالقدر تاتاری نے گاؤں کے گاؤں جلاڈالے۔ ہزاروں مردوں کو قتل کرڈالا عورتوں اور بچوں کوغلام بنا لیا۔ آخر کار اللہ کا قہر اس پر نازل ہوا۔ ذوالقدر اور اس کا لشکر برفانی طوفان میں دب کر صفحہ ہستی سے مٹ گیا۔
جموں وکشمیر پرزیادہ عرصہ اچھے یابرے مقامی راجے اوربادشاہ ہی حکومت کرتے رہے۔غیرملکی تسلط تیسری صدی قبل مسیح میں اس وقت قائم ہوا جب ذات پات اور چھوت چھات کے برہمنی نظام نے لوگوں کا جینا محال کردیا اور تاریخ کو کروٹ بدلنے کے لئے کسی نجات دہندہ کی ضرورت محسوس ہوئی۔ یہ نجات دہندہ مگدھ کا راجہ اشوک تھا جو آگے چل کر ہندوستان کا اشوک اعظم کہلایا۔ اس نے کشمیر کارخ کیاتو عوام کی حمایت حاصل نہ ہونے کی وجہ سے مقامی راجہ مقابلے سے بھاگ گیا اورکشمیریوں نے اشوک اوراس کے مذہب بودھ مت کو قبول کرلیا جو ہندو مت کے مقابلے میں محبت اور مساوات کا مذہب تھا۔ بعدکے دورمیں مسلم سلاطین نے بھی یہاں حکمرانی کی۔ ان پر زوال آیا تو کشمیر بیرونی حملہ آوروں کی جنت بن گیا۔ پہلے مغلوں پھر یکے بعد دیگرے افغانوں  سکھوں انگریزوں کی مدد سے ڈوگروں اور آخر میں بھارت کو بھی کشمیر پرقبضے کا موقع مل گیا۔ تلخ تاریخی حقیقت یہ ہے کہ باہمی رقابتوں  مناقشتوں اور سازشوں میں الجھے ہوئے کشمیری وزراء  امراء اورعمائدین اکثرخود ہی غیرملکی طالع آزماؤں کوجاجاکر بلاتے رہے۔ ہندوستان کے مغل بادشاہوں نے کشمیر پرکئی حملے کئے۔ ہربارناکام رہے۔ کامیاب ہوئے تواس وقت جب مقامی چک خاندان کے مظالم سے تنگ آ کر علما کے ایک وفد نے شیخ یعقوب صرفی اور بابا آدم خاکی کی قیادت میں دہلی جا کر اکبر اعظم کو کشمیر پر قبضے کی دعوت دی۔ چک بادشاہ مغل لشکر کا مقابلہ نہ کرسکا اور یوں کشمیری صدیوں کے لئے اپنی آزادی سے محروم ہوگئے۔ مغل 1586ء سے 1752ء تک دہلی سے اپنے گورنروں کے ذریعے جموں وکشمیر پر حکومت کرتے رہے۔ ان گورنروں نے مغل اقتدار کی حفاظت اور دہلی کا خزانہ بھرنے کے لئے ظلم وستم اور لوٹ مار کے نئے ریکارڈ قائم کئے جن کی تفصیل کا یہ مختصر کالم متحمل نہیں ہوسکتا جب تبدیلی ناگزیر ہوگئی تو کشمیری امراء میرمقیم کنٹھ اور خواجہ ظہیر نے افغانستان کے حکمران احمد شاہ ابدالی کو جو لاہور تک پہنچ چکا تھا کشمیر پرحملے کی دعوت دی۔ اس نے 1753ء میں اپنے معتمد عبداللہ خان ایشک اقاصی کو فوج دے کر بھیجا۔ اقاصی نے مغلوں کو شکست دی اور کشمیر کابل کی افغان سلطنت کا حصہ بن گیا۔ افغان دور مغلوں سے بھی زیادہ تباہ کن ثابت ہوا۔ مغلوں کی طرح افغان گورنر بھی نئے نئے ٹیکس لگا کر پیسہ جمع کرتے رہے۔ چاول زعفران اور پھلوں کی ساری پیداوار ضبط کرکے کابل بھیجی جانے لگی۔ مظلوم زمینداروں نے تنگ آ کر پھلوں کے باغات کاٹ دیئے اور چاول اورزعفران کی کاشت بند کردی۔ کشمیری عورتیں زبردستی اغوا کرکے کابل کے بازاروں میں فروخت ہونے لگیں اور تنومند مرد گرفتارکرکے بار برداری کے کاموں میں لگادیئے گئے۔ نامور کشمیری شاعر غنی کاشمیری نے افغانوں کے مظالم اپنے اس شعر میں بیان کردیئے ہیں۔ ”ہماری کمائی ہوئی روزی آخر میں دوسروں کے حصے میں چلی جاتی ہے۔ ہماری قسمت اس چکی جیسی ہے جو سارا دن پیستی رہتی ہے لیکن اس کے اپنے پلے کچھ نہیں پڑتا”۔
آخر کار اس ظلم کے خاتمے کا وقت بھی آپہنچا۔ سری نگرمیں معتمد مالیات پنڈت بیربل کی زیرصدارت ہندو اور مسلمان عمائدین کااجلاس ہوا جس میں افغانوں سے نجات کے لئے پنجاب کے سکھ حکمران رنجیت سنگھ سے مدد لینے کا فیصلہ ہوا۔ بیربل رنجیت سنگھ سے ملا۔ اس نے افغانوں کو شکست دے کر کشمیر پر قبضہ کرلیا۔ اس سے افغانوں کا ظلم تو ختم ہوا لیکن سکھوں کا دور ستم رانی شروع ہوگیا۔ ممتاز مورخ محمد دین فوق کے الفاظ میں ” افغان تلخ گھونٹ تھے تو خالصہ بہادر زہر میں بھجے ہوئے تیر نکلے “۔ رنجیت سنگھ کو صرف پیسے سے دلچسپی تھی۔ سکھ دھرم کی حکومت تھی اس نے کشمیر میں ہندوؤں اورمسلمانوں کا جینا حرام کردیا۔ جامع مسجد سری نگر سمیت سینکڑوں مساجد کو تالے لگوادیئے گئے۔ گاؤکشی جرم قراردی گئی۔ جس کی سزا موت تھی۔ اس دور میں ہزاروں کشمیری ترک وطن پرمجبور ہوئے۔ پنجاب اور دوسرے علاقوں میں آج بھی ا ن کی نسلیں آباد ہیں۔ سکھوں کی حکومت کو بھی زوال آناتھا سو آیا لیکن جاتے جاتے انہوں نے کشمیریوں پر ایک اور آفت ڈھا دی۔ انہوں نے 75 لاکھ روپے میں کشمیر کو ہی بیچ دیا۔ یہ سودا بھی ان سے ایک کشمیری گلاب سنگھ نے کیا۔ کشمیریوں نے مزاحمت تو کی مگر ابھی غلامی ان کے مقدر میں تھی سو کامیاب نہ ہوسکے اورجب آزادی کا سورج طلوع ہونے والا تھا تو شیخ عبداللہ اوران کے ساتھیوں نے بھارت کو بلالیا۔ اس کے ردعمل میں کشمیریوں کی نمائندہ سیاسی جماعت کل جموں وکشمیر مسلم کانفرنس کو پاکستان سے الحاق کا فیصلہ کرنا پڑا۔کشمیری اس وقت بھارتی مظالم کی چکی میں پس رہے ہیں لیکن آج نہیں تو کل اس سے نجات کا وقت بھی آنے والا ہے۔
تازہ ترین