• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
بنے بنائے سیٹ اپ کو تباہ و برباد نہیں کرنا چاہئے، پاناما لیکس کی آڑ میں ملک میں اختلاف و انتشار نہیں پھیلانا چاہئے، خصوصاً ان حالات میں جب امریکہ اور پاکستان کے مابین کشیدگی اپنے عروج پر ہے۔ امریکہ نے ڈرون حملوں کا دائرہ بلوچستان تک وسیع کردیا ہے۔ امریکہ پاکستان کو سبق سیکھانے کے لئے اسرائیل ،بھارت اور دیگر ممالک کے ساتھ مختلف سطحوں پر تعاون بڑھا رہا ہے۔ وقت کی پکار ہے اور حالات کا تقاضاہے کہ تمام سیاسی و مذہبی جماعتیں اپنے ذاتی نوعیت کے اختلافات کو پس پشت ڈال کر قومی ایشوز اور ملکی سلامتی کے معاملا ت پر متحد ہوجائیں، ورنہ خاکم بدھن ہمارے حالات بھی مشرقِ وسطیٰ شام، عراق، فلسطین جیسے ہوتے دیر نہیں لگے گی۔
مانا کہ پاناما لیکس کی پہلی اور دوسری قسط کے بعد معلوم ہوگیا ہے کہ کرپشن کے اس حمام میں ہماری ساری قیادت ہی ننگی ہے۔ جب تک ہمیں صالح اور دیانتدار قیادت نہیں مل جاتی اس وقت تک حالات یونہی دگر گوں رہیں گے۔ تاریخ شاہد ہےکہ جب کسی ناکام ترین ریاست کو بھی کوئی صالح قیادت، کامیاب کپتان، وژنری رہنما اور اچھا حکمراں مل گیا تو اس نے ریاست کی ناکامی کو کامیابی میں بدل دیا۔ یاد کریں سنگاپور انیسویں صدی تک ایک ہولناک قسم کا جزیرہ تھا۔ لوگ یہاں جاتے ہوئے بھی ڈرتے تھے۔ پھر 1965ء میں سنگاپور کو ’’لی کو آن یو‘‘ کی شکل میں ایک ایسا رہنما مل گیا جس نے تیس سالوں میں ایک بنجر جزیرے کو دنیا کی بہترین ریاست بنادیا اور آج سنگاپور کو آئیڈیل سمجھا جاتا ہے۔ لوگ دور دور سے آکر ان سے رہنمائی لینے پر مجبور ہیں۔ اس کی معیشت دنیا کی دس بڑی معیشتوں میں شمار ہوتی ہے۔ انہوں نے کس طرح سنگاپور کو تحت الثریٰ سے اوجِ ثریا تک پہنچایا؟ مہاتیر محمد نے تین دہائیوں میں ملائشیا کو کہاں پہنچادیا۔ جب وہ ملائشیا کے وزیراعظم بنے تو اس وقت ملائشیا کا شمار تیسری دنیا کے پسماندہ ترین ممالک میں ہوتا تھا لیکن ان کی انتھک جدوجہد کی بدولت صرف دو دہائیوں کے بعد ملائشیا کا شمار پہلی دنیا میں ہونے لگا۔ وہ ایک ایسا ملک بن گیا جو معیشت، سرمایہ کاری اور صنعت وحرفت میں یورپ اور امریکہ کا مقابلہ کرنے لگا۔ ملائشیا جیسے پسماندہ ملک کو اگر مہاتیر محمد جیسا دور اندیش حکمران نہ ملتا تو وہ کبھی ترقی یافتہ ممالک کی فہرست میں نہیں آسکتا۔ دبئی جہاں تیس پینتیس سال پہلے اونٹ ریس ہوا کرتی تھی۔ دبئی کا نام سن کر لوگوں کے ذہنوں میں ایک لق ودق صحراء کا تصور اُبھرتا تھا۔ پھر اس کی خوابیدہ قسمت نے انگڑائی لی اور اس کو ’’زید بن سلطان النہیان‘‘ جیسا اولو العزم رہبر مل گیا۔ انہوں نے دن رات محنت کی۔ کئی سالوں تک ہفتہ وار چھٹی بھی نہیں کی۔ ہر شعبے میں ایمان دار لوگوں کو بھرتی کیا۔ انصاف اور قانون کی بالادستی کو یقینی بنایا۔ انہوں نے ایک دفعہ بھیس بدل کر اپنی گاڑی ممنوعہ ایریا میں پارک کردی۔ ٹریفک اہلکار آئے، گاڑی اُٹھاکر تھانے لے گئے اور چالان کردیا۔ زید بن سلطان نے بلابھیجا: ’’تمہیں معلوم ہے یہ گاڑی کس کی ہے؟‘‘ جواب آیا: ’’ملک کے بادشاہ زید بن سلطان کی ہے۔‘‘ ’’تو پھر یہ جرات کیسے کی گئی؟‘‘ ٹریفک سارجنٹ نے جواب دیا: ’’قانون کی نظر میں سب برابر ہیں۔ آپ نے قانون کی خلاف ورزی کی ہے۔‘‘ اس پر زید بن سلطان نے تاریخی جملہ کہا: ’’اب دبئی ترقی کی شاہراہ پر چڑھ چکا ہے۔ اس کی ترقی کوئی نہیں روک سکتا۔‘‘ اور آج کا دبئی چالیس سال پہلے والے دبئی کا عکس ہے۔ تین دہائیاں پہلے جہاں اونٹوں، گھوڑوں اور گدھوں کی ریسیں ہوا کرتی تھیں اب وہاں پر آسمان کی بلندیوں کو چھوتی ہوئی جگمگاتی عمارتیں ہیں۔ اگر دبئی کو زید بن سلطان النہیان جیسا قابلِ فخر حکمران نہ ملتا تو آج بھی وہاں ریت کے ٹیلے ہی ہوتے۔ سراب کبھی حقیقت کا روپ نہ دھارتا۔ یہی حال روانڈا کا تھا۔ جب بھی بد امنی، محرومی ، کرپشن،غربت وغیرہ کا ذکر آتا تھا تو اکثر لوگ روانڈا کی مثال دیتے تھے۔ پسماندگی و ناانصافی کا تذکرہ ہوتا تھا تو بھی روانڈا کی مثال دیتے تھے۔ ظلم کی بات ہوتے ہی روانڈا کی منظر کشی شروع کردیتے تھے، لیکن یہ روانڈا سن 2000ء سے پہلے کا روانڈا تھا۔ اس کے بعد کا روانڈا بدل چکا ہے۔ آپ روانڈا کی اس تاریخ کو سامنے رکھیں اور اس کے بعد پاکستان کے حالات پر نظر دوڑائیں تو کئی مماثلتیں دکھائی دیں گی۔ ہمیں بھی روانڈا کی طرح اقدامات کرنے ہوں گے، بلکہ اس سے چار قدم آگے بڑھ کر کام کرنا ہوگا۔ روانڈا طرز کا ایک جنگی جرائم کاٹربیونل قائم کریں۔ مجرموں کو کیفرکردار تک پہنچائیں۔جب تک ملک افراتفری کا شکار رہے گا، اس وقت تک یہاں خوشحالی کی کونپلیں نہیں پھوٹ سکیں گی۔ ہمارے پڑوسی ملک چین کو اگر مائوزے تنگ جیسا انقلابی شخص اور چواین لائی جیسا زیرک رہنما نہ ملتا تو چین کبھی ترقی نہ کرتا اور آج بھی چینی قوم ’’چینی‘‘ سے زیادہ حیثیت نہ رکھتی۔ آج چین کی صنعت کاری نے امریکہ اور یورپ کی منڈیوں پر قبضہ کررکھا ہے اور شاید عنقریب وہ سپر پاور بھی بن جائے۔ چینی قوم کی ہی کہاوت ہے ’’آلو نہ مانگو، آلو کا بیج مانگو۔‘‘ ہمارے حکمراں چین کے دوروں پر دورے تو کرتے رہتے ہیں لیکن ان سے کچھ حاصل کرنے کی کوشش نہیں کرتے۔ دنیا کے کئی ممالک ایسے ہیں جہاں پر سیاسی طوفان کا ریلا آئے یا کالی آندھی چلے۔ آمریت راج کررہی ہو یا جمہوریت کرشمے دکھارہی ہو، کبھی ملک کی ترقی نہیں رُکتی۔ ملک کے عوام کی بھلائی اور فلاح کے لئے شروع کئے گئے منصوبے یونہی رواں دواں رہتے ہیں۔ ان کے انفرا اسٹرکچر میں ترمیم ممکن نہیں لیکن پاک وطن میں عجب چلن ہے جب بھی دوچار سال بعد صدر، وزیراعظم اور دیگر وزارتوں کے قلمدان بدلتے ہیں تو پہلے سے جاری منصوبوں کو یکسر ختم کرکے اپنی منشا کے مطابق منصوبوں پر کام شروع کردیا جاتا ہے۔ کسی نے قوم کے قیمتی اثاثے کوڑیوں کے دام فروخت کئے تو کسی نے قوم کے خون پسینے کی کمائی سے سرے محل تعمیر کئے۔ کسی نے بھوک اور پیاس سے سسکتے عوام کو چھوڑ کر گھوڑوں اور گدھوں کو مربع اور بادام کھلانے میں رتی برابر شرم محسوس نہ کی۔ کسی نے اپنوں کو نوازنے کے لئے بنیادی قوانین میں تبدیلیاں کیں۔ کسی نے قومی مفاد پر ذاتی مفاد کو ترجیح دی۔جب پاک وطن کے حکمرانوں کی اس دلگداز تاریخ پر نظر ڈالتا ہوں تو مجھے سب اپنی اپنی بقا اور مفاد کی جنگ لڑتے نظر آتے ہیں۔دکھ تو اس بات کا ہے آج بھی ہمارے رہنما اسی قسم کے نعرے لگاکر قوم کو مشتعل کررہے ہیں۔ قوم نے اپنا ملک بچانے کے لئے اپنا تن من دھن ہر آڑے وقت میں قربان کردیا اور ہر اس شخص کا ساتھ دیا جس نے خود کو قوم کا ’’نجات دہندہ‘‘ ثابت کرنے کی کوشش کی۔ بے بس قوم آج بھی پیٹ پر پتھر باندھ کر اور اپنے خون پسینے کی کمائی میں سے ٹیکس دے کر ملک کی ترقی وخوشحالی کے لئے کوشاں ہے لیکن انہیں کوئی صحیح، صلاح اور دیانتدار قیادت نہیں مل رہی جو ملک و قوم کی تقدیر بدل دے۔ اچھا لیڈر ہمیشہ اپنی قوم کو بڑی ہوشیاری سے ناکامی کے بھنور سے نکال دیتا ہے اور اپنے عمل سے اپنی قوم کی رہنمائی کرتا ہے۔ بے شک ہماری ضرورت صالح قیادت ہے، جب تک ہمیں ایسی قیادت نہیں مل جاتی اُس وقت تک اسی قیادت پر اعتماد کرنا چاہئے، کیونکہ حدیث شریف میں آتا ہے کہ خواہ حکمرں کیسے بھی ہوں، ان کی اطاعت کرنی چاہئے۔ بخاری شریف میں ہے: ’’حکمرانوں کی اطاعت کرو اگرچہ وہ حبشی غلام ہی کیوں نہ ہو۔‘‘

.
تازہ ترین