• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مسلم لیگ (ن) کے صدر اور پہلی مرتبہ پاکستان کے وزیراعظم بننے والے میاں شہباز شریف نے کہا ہے کہ ہم بھارت کے ساتھ بہتر تعلقات کی جانب پیش قدمی اور تمام تصفیہ طلب مسائل حل کرنا چاہتے ہیں جن میں مسئلہ کشمیر بھی شامل ہے۔

مسلم لیگ ن کے سربراہ نے بتایا کہ گزشتہ روز مجھے وزیراعظم مودی کا فون آیا تھا، ہماری کافی تفصیلی گفتگو ہوئی جس کے آخر میں انہوں نے مجھے مبارک دی اور نیک خواہشات کا اظہار کیا، میں نے بھی ان کا شکریہ ادا کیا۔ شہباز شریف نے پاکستان اور بھارت کے درمیان تعلقات بہتر بنانے کیلئے جن اقدامات کا اعلان کیا ہے ان کا مقصد یہ ہے کہ جنوبی ایشیا میں حقیقی امن اور سلامتی قائم ہو اور کشمیر سمیت تمام مسائل کے حل کیلئے اپنی کوششوں کا عملی آغاز کیا جا سکے۔

 شہباز شریف بنیادی طور پر مثبت سوچ کے حامل شخص ہیں انہوں نے کئی بار اپنی اس فکرو نظر کا اظہار کیا ہے کہ آپ کو منزل پر پہنچنے کیلئے پہلی سیڑھی پر قدم رکھنا پڑتا ہے۔

ہماری تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ یہاں تشدد، جارحیت اور آمریت کے طریقوں سے کوئی مسئلہ حل نہیں ہوا اور اگر حل ہوا بھی ہے تو وہ دیرپا ثابت نہ ہو سکا۔

 اب عوام کی غالب اکثریت دونوں ملکوں کے درمیان مفاہمت اور دوستی چاہتی ہے اور تمام حل طلب مسائل جمہوری طور طریقوں اور پُرامن بات چیت کے ذریعے حل کرنے کی خواہشمند ہے جسے اب تک نظر انداز کیا جاتا رہا ہے۔

مگر اب ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس خواہش کو زیادہ دیر تک نظر انداز نہیں کیا جا سکے گا۔ اور پاکستان و بھارت امن و مفاہمت کی طرف پیش قدمی کرنے پر مجبور ہو جائیں گے کہ نہ صرف ان دونوں ملکوں بلکہ پورے جنوبی ایشیا کا مفاد اس میں ہے کہ اس پورے خطے میں امن و سلامتی کو یقینی بنایا جائے، اس امن و سلامتی کو یقینی بنانے کیلئے پاک وہند کے مابین مفاہمت شرط اولین ہے۔

پاکستان اور بھارت برسوں سے اپنے اپنے موقف پر ڈٹے رہنے کے بجائے بات چیت اور مکالمے کی راہ تلاش کریںکہ پاک وہند کی ساری تاریخ ناکام مذاکرات سے عبارت ہے۔ دوستی کا سوال تو ایک طرف ٹھہرا سوچنے کی بات یہ ہے کہ آیا ہم باہمی دشمنی کے متحمل ہو سکتے ہیں؟

میرے حساب سے اس وقت سب سے اہم مسئلہ دونوں ممالک میں عوام الناس کی آمد و رفت کے حوالے سے کام کرنے کی ضرورت ہے اس سےرائے عامہ میں تبدیلی کے مواقع پیدا ہونگے۔

دونوں ملکوں میں شکوک و شبہات اس قدر پھیلادیئے گئے ہیں کہ گزشتہ 75برس سے ہم محض ایک دوسرے پر الزامات کی بوچھاڑ ہی کرتے آئے ہیں جبکہ دونوں ملکوں کی دوستی نہ صرف ممکن ہے بلکہ ضروری بھی ہے۔ میرے حساب سے حالیہ تحریک عدم اعتماد میں میاں شہباز شریف کی نمایاں کامیابی پاک بھارت امن دوستی، کیلئے ایک بے حدنیک شگون ہے۔ ہر وہ دن جب دشمنی کے خدشے میں شدت پیدا نہ ہو تو یہ ایک بہتر قدم ہے جسے میں ایک نعرہ کی صورت میں یوں کہنا چاہوں گا۔ ‘‘ بھارت چلو شہباز شریف ہم تمہارے ساتھ ہیں ‘‘۔

پہلی مرتبہ وزیراعظم بننے والے بھارت سے دوستی کرنے کے خواہاں شہباز شریف نے لگی لپٹی رکھے بغیر کہا کہ ’’ یہ ہندوستان اور پاکستان کے درمیان تعلقات کو بہتر بنانے کیلئے سنہری موقع ہے۔

مسائل کے حل کا بہترین موقع ہے۔ میں ایسی کئی مثالیں پیش کر سکتا ہوں جب حریفوں نے یا ایک دوسرے کے مخالف نے ہمارے مسائل سے بھی زیادہ مشکل مسائل کو حل کیا ہے ‘‘۔ مجھے وہ دن بھی یاد ہے جب وزیر اعظم سے پہلے واجپائی بھارت کے وزیر خارجہ تھے تب پاکستان اور بھارت کے درمیان اگر بہت اچھے نہیں تو اچھے تعلقات ضرور تھے۔

پھر جب واجپائی بحیثیت وزیر اعظم بس کے ذریعے لاہور پہنچے تو ’’کارگل کا حادثہ‘‘ پیش آ گیا، یہ حادثہ پرویز مشرف کا پیدا کیا ہوا تھا۔ نواز شریف کو وزیر اعظم ہوتے ہوئے بھی اسکا علم نہ تھا، یہی وجہ ہے کہ نواز شریف سول امور میں فوجی مداخلت پر کبھی خوش نہیں ہوئے وہ فوج کی سویلین معاملات میںبےجا مداخلت پر نکتہ چینی کرتے رہے ہیں، اب بھی کر رہے ہیں، یہ کوئی معیوب بات نہیں۔

ادھر میں پاکستان و بھارت کے ’’اربابِ اختیار‘‘ سے درخواست کروں گا کہ وہ اپنی ماہوار ایٹمی دھمکیوں کے بجائے دوستی کیلئے ہاتھ بڑھائیں۔

یہاں میں یہ بات اور نکتہ سمجھنے میں حق بجانب ہوں کہ میاں نواز شریف کے بعد کسی حکمران میں اتنی سوجھ بوجھ نہیں ہے کہ وہ بر صغیر میں بڑھتی ہوئی خاک و خون کی آندھی کا تدارک کر سکے۔ میں یہ بات پوری دیانت داری سےکہتا ہوںکہ پاک بھارت دوستی کے اس ٹوٹے ہوئے سلسلہ کو وہیں سے جوڑا جائے جسے ’’اعلانِ لاہور‘‘ کہتے ہیں اور جو نواز شریف کے مرہون منت ہے۔ کسی عارف نے کیا پر مغز بات کہی ہے کہ ’’جن حقیقتوں کا سامنا جرات اور صاف گوئی کے ساتھ نہ کیا جائے وہ پلٹ کر ہماری ہی پشت پر وار کر بیٹھتی ہیں ‘‘۔

اب دیکھنا یہ ہے کہ اس نظریہ پر شہباز شریف پورے اترتے ہیں یا نواز شریف کو ملک بدر کرنے والے …

تازہ ترین