تحریکِ انصاف کی ممنوع فنڈنگ کے کیس کے درخواست گزار اکبر ایس بابر کا کہنا ہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کا فیصلہ اس کیس کو منطقی انجام تک پہنچا دے گا۔
انہوں نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ممنوع فنڈنگ ثابت ہوتی ہے تو اس کے اثرات جماعت اور چیئرمین پر ہوں گے، کیس کا فیصلہ ہونے جا رہا ہے تو منصفوں پر شکوک کا اظہار کیا جا رہا ہے۔
اکبر ایس بابر نے مزید کہا کہ پاکستان کے لیے سب سے اہم مسئلہ فسطائیت کا ماحول ہے، جب عوام اور ادارے آمنے سامنے ہو گئے تو تباہی دور نہیں ۔
تحریکِ انصاف کی ممنوع فنڈنگ کے کیس کے درخواست گزار نے یہ بھی کہا کہ جمہوریت یہ تھی کہ اپوزیشن بینچز میں بیٹھ کر تقریر کرتے۔
الیکشن کمیشن آف پاکستان میں پی ٹی آئی کی مبینہ ممنوع فارن فنڈنگ کے کیس کی سماعت کے دوران پی ٹی آئی کے وکیل نے کہا کہ اگر کمیشن یہ اخذ کرتا ہے کہ کچھ پیسے ممنوع فنڈنگ سے ہیں تو ہم فوراً اسے قومی خزانے میں جمع کروا دیں گے۔
چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ کی سربراہی میں 3 رکنی بنچ نے مبینہ ممنوع بیرونی ملک فنڈنگ کیس کی سماعت کی۔
دورانِ سماعت پی ٹی آئی نے کمیشن کے نامکمل ہونے کا سوال اٹھا دیا۔
اکبر ایس بابر کے وکیل نے کہا کہ یہ اعتراض پہلے بھی اٹھایا گیا تھا لیکن خارج کیا گیا۔
وکیل انور منصور نے دلائل دیتے ہوئے اعتراض عائد کیا کہ الیکشن کمیشن مکمل فعال نہیں ہے، دو ممبرز کی غیر موجودگی میں الیکشن کمیشن اس پر آرڈر جاری نہیں کر سکتا۔
چیف الیکشن کمشنر نے استفسار کیا کہ جو عدالتی حکم 30 روز کا آیا اس پر کیا کہیں گے؟
اس پر انور منصور نے کہا کہ میں دلائل سے راہِ فرار اختیار نہیں کروں گا، اعتراض کا مقصد سماعت رکوانا نہیں ہے۔
پی ٹی آئی کے وکیل نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے جو آبزرویشن دیں وہ بدقسمتی ہے، جن باتوں پر دلائل نہیں دیے گئے تھے وہ بھی حکم نامے میں شامل کر دی گئیں، فارن فنڈنگ ہوسکتی ہے لیکن ممنوع فنڈنگ نہیں کی جا سکتی۔
تحریکِ انصاف کے وکیل نے کہا کہ اسکروٹنی کمیٹی نے زیادہ تر رپورٹ درخواست گزار کی انفارمیشن پر تیار کی، حنیف عباسی کیس میں کہا گیا ہے کہ درخواست گزار خود قابلِ اعتماد ہونا چاہیے۔
پی ٹی آئی کے وکیل انور منصور نے مزید دلائل کے لیے 3 دن کا وقت مانگ لیا۔
چیف الیکشن کمشنر نے ریمارکس دیے کہ اس کے بعد سماعت روزانہ کی بنیاد پر کی جائے گی۔
الیکشن کمیشن آف پاکستان نے مزید سماعت آئندہ ہفتے تک ملتوی کر دی۔