• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اپنی حکومت کے آغاز میں ہی ترجیحات کا تعین کرتے ہوئے وزیر اعظم نواز شریف نے زور دیا تھا کہ معیشت کی بحالی اور توانائی کے بحران کے حل کو ان کی سب سے زیادہ توجہ حاصل ہوگی۔ ان کی حکومت نے معیشت کو مستحکم کرنے کی کوششیں کیں تاہم ان رکاوٹوں کے ساتھ سیکورٹی صورتحال نے وزیر اعظم کو پوری طرح گرفت میں لے لیا ہے۔ معیشت کے استحکام کے حوالے سے ایک قدم آئی ایم ایف سے 6.6 ارب ڈالر قرضے کا معاہدہ طے کیا جانا ہے حال ہی میں جس کی منظوری اس کے ایگزیکٹو بورڈ نے دی ہے۔ آئی ایم ایف سے موصول ہونے والے قرض سے پاکستان کو ادائیگیوں کے توازن کے بحران سے نبردآزما ہونے اور اس کی کرنسی کو لاحق خطرات سے نمٹنے میں بھی مدد ملے گی۔ پاکستان اس بحران کے دہانے پر تھا کیونکہ گزشتہ مہینوں میں اس کے زرمبادلہ کے ذخائر 2008ء کی سطح تک کم ہو گئے تھے اس وقت پاکستان کو زرمبادلہ کی شدید کمی کا سامنا تھا۔ جس وقت پاکستان کو آئی ایم ایف کے قرضے کی پہلی قسط ملی اس وقت تک پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر 5ارب ڈالر سے بھی کم ہوچکے تھے، جو کہ بمشکل ہی پاکستان کی ایک مہینے کی درآمدات کی ادائیگیوں کیلئے کافی تھے جبکہ ملک کے بیرونی قرضوں کی ادائیگی کیلئے خاصے کم تھے تاہم آئی ایم ایف پروگرام حکومت کی معیشت کی بحالی کی تذویر کا کلی نہیں جزوی حصہ ہے جس کے تحت وہ معیشت اور سرمایہ کاری کو خطِ مستدیر تک لے جانا چاہتی ہے۔ حکومت کے پہلے بجٹ کی پالیسی میں مالی استحکام اور توانائی پالیسی کے اہداف کے عناصر شامل تھے۔ حکومت نے توانائی کے شعبے کی ازسرنو تشکیل اور توانائی کے بحران کے حل کیلئے اس میں اصلاحات کا عزم کیا تھا جس کی وجہ سے عوام کو نامصائب حالات کا سامنا کرنا پڑا اور پیداوار لرکھڑا گئی تھی۔ حکومت نے آئی ایم ایف کے فنڈز میں توسیع کی سہولت (ای ایف ایف) کے حصول کیلئے پانچ پیشگی شرائط پوری کرکے وسیع تر اصلاحات کے نفاذ کی جانب ایک اہم آغاز کیا۔ جس میں نئی توانائی پالیسی کے تحت بجلی کے نرخوں میں اضافہ، ٹیکس کے نفاذ کے اقدامات، رواں مالی سال کیلئے جی ڈی پی میں2 فیصد کا ردوبدل، آئی ایم ایف پیکیج کی مشترکہ مفادات کونسل سے منظوری لینا اور زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافے کیلئے زری پالیسی کے اقدامات شامل ہیں۔
آئی ایم ایف پروگرام کا مقصد معیشت کلاں کی نازک صورتحال اور ساختیاتی اصلاحات کے حوالے سے حکومت کی اپنی تذویر میں مدد فراہم کرنا ہے۔ پاکستان کے مالی عدم توازن کی وجہ ساختیاتی مسائل ہیں۔ ای ایف ایف پیکیج اصلاحات کے ذریعے پاکستان کے بنیادی مسائل کو حل کرنے کیلئے تشکیل دیا گیا ہے جس سے سرمایہ کاری اور پیداوار میں اضافہ ہو گا۔ اتنے ہی اہم طور پر آئی ایم ایف سے معاہدہ دوسرے شراکت داروں کی جانب سے پاکستان کی پالیسی و کارکردگی کی بنیاد پر مالی معاونت کی راہیں کھولے گا جس سے توانائی ، آمدنی میں اضافے، سرکاری اداروں اور سماجی تحفظ جیسے پیدواری شعبوں میں اصلاحات ہوسکیں گی۔ حکومت کے اصلاحاتی پروگرام کے کل 12 ارب ڈالر کے حجم میں 6 ارب ڈالر سے رقم کثیرالقومی اور باہمی شراکت داروں بشمول عالمی بینک اور ایشیائی ترقیاتی بینک سے ملے گی۔ حالانکہ کثیر القومی مالی معاونت اہم ہے تاہم یہ نتیجہ خیز ہوگا کہ حکومت کتنے عزم کے ساتھ اپنے معاشی ایجنڈے کا نفاذ کرتی ہے۔ جس کے لئے حکومت کا اجتماعی نظریہ ضروری ہوگا جہاں اسے سب سے بڑا چیلنج پالیسی تشکیل دینے اور احتیاط کے ساتھ اور ہم آہنگ طریقے سے اس کا نفاذ ہے نہ کہ ماضی کی طرح جزوی طریقے اپنائے جائیں۔ معاشی استحکام کے دوران غریبوں اور ناداروں کا تحفظ بھی خصوصی اہمیت کا حامل ہوگا۔خوف کے شکار سیکورٹی ماحول میں معاشی پالیسی پر عملدرآمد کرانا ہوگا، جس میں افغانستان سے امریکی انخلاء میں التوا سے خطرات بڑھ جائیں گے جس کیلئے ٹھوس انتظام کاری کی ضرورت ہے۔
پالیسی کے مطابقت رکھنے والے حصوں میں سخت چیلنجز آگے آنا باقی ہیں۔ جی ڈی پی میں ٹیکس کی کم شرح تمام مالی مسائل کی ماں ہے۔ حکومت کا مالی بحران آمدنی کے ذرائع میں اضافے، ٹیکس کی بنیاد میں اضافے اور ایس آر او طریق کار کے خاتمے کے بغیر حل نہیں ہو سکتا، جس کی شرمندہ کرنے والی مثال مخصوص مفادات کیلئے رعایتیں اور استثنیٰ دینا ہے جس سے اصل حجم میں کمی واقع ہوتی ہے قومی خزانے کو اربوں کا نقصان ہوتا ہے۔ غیر ضروری ایس آر اوز خاتمے کے کیلئے حکومت کے تین مرحلوں پر مشتمل منصوبے کا امتحان اس وقت ہوگا جب اس پر عمل ہوگا، منصوبے کے تحت ایس آر اوز کی شناخت کی جائے پھر انہیں سمجھ کر ان میں سے غیر ضروری ایس آر اوز کا خاتمہ کردیا جائے گا۔ حکومت کو متفرق انکم ٹیکس نظام کو ختم کرنا ہوگا، جس میں مختلف ذرائع آمدن پر مختلف شرحوں سے ٹیکس عائد کیا جاتا ہے جبکہ زراعت پر انکم ٹیکس بالکل نہیں ہے۔آمدنی کو بروئے کار لانے کے حوالے سے سنجیدہ طور پر نمٹنے کیلئے مرکز اور صوبوں کے تعلقات کو ازسرنو استوار کرنا ہوگا۔ گزشتہ نیشنل فنانس کمیشن ایوارڈ کے تحت وفاق کے تحت جمع کردہ ٹیکسز کی آمدنی کا حصہ صوبوں کو دیا گیا لیکن ان پر اپنی حدود میں ٹیکس کے وسائل پیدا کرنے کی کوئی ذمہ داری عائد نہیں کی گئی۔ جب تک صوبائی سطح پر ٹیکس کو متحرک نہیں کیا جاتا آمدنی کا بحران مزید ابتری کا شکار ہوگا جس میں مرکز کو شدید مالی خسارے کا سامنا ہوگا۔حکومت 4 سال میں آمدنی کو دگنا کرنا چاہتی ہے، اس کے لئے ٹیکس کے طریق کار میں بڑے پیمانے پر تبدیلیاں لانا ہوں گی جس میں چھوٹ کا خاتمہ اور ٹیکس کے نفاذ کی مشینری کو مستحکم کرنا ہوگا۔ حکومت کو آمدنی میں اضافے کیلئے ایک تذویر متعین کرنا ہوگی جس میں اہداف پر عملدرآمد کا واضح طریقہ کار بھی ہونا چاہئے، ساتھ ہی صوبے بھی اس سے متفق ہوں اس کے بغیر تعلیم، صحت اور تربیت کیلئے اشد ضروری وسائل دستیاب نہیں ہوسکتے ساتھ ہی سرکاری اداروں کی عوامی خدمات نئے وسائل پیدا کئے بغیر بہتر نہیں ہوسکتیں۔ توانائی کے شعبے میں اصلاحات سب سے اہم ہیں۔ حکومت کو اپنی توانائی کی پالیسی کے نفاذ کیلئے اپنی تذویری سمت میں مستقل مزاجی دکھانی ہوگی۔ بجلی پر سبسڈیز کے خاتمے کیلئے اس کے نرخوں مین ردوبدل کرنا ہو گا جس کا حجم گزشتہ سالوں میں 4 ارب ڈالر سالانہ تک رہا ہے۔ اس میں کمی حکومت کو رواں مالی سال میں معیشت کلاں کے عدم توازن کو بہتر کرنے کا ایک ذریعہ مل جائے گا۔ بجلی کی طلب و رسد کی خلیج کم کرنے کے حکومتی منصوبے کا دارومدار اس شعبے میں نجی سرمایہ کاری پر ہے، جس کا دارومدار عمومی تجارتی ماحول پر ہے جس میں معاشی پہلو کے زمرے میں مراعات اور وسعت ہونا شامل ہے جبکہ غیر معاشی پہلو کا انحصار سیکورٹی عوامل پر ہے، اس صورتحال سے واضح ہوتا ہے کہ چیلنجز فطرتاً ایک دوسرے سے ملے ہوئے ہوتے ہیں، جنہیں حل کرنے کیلئے حکومت کو جامع حکمت عملی کی ضرورت ہے جس میں مختلف پالیسی امور عملدرآمد کیلئے احتیاط کے ساتھ ایک دوسرے سے باربط کیا جائے۔ملک کی جی ڈی پی میں سرمایہ کاری کی شرح میں اضافے کا دارومدار کاروباری ماحول میں بہتری پر ہے جو کہ 2007ء سے14 فیصد سے کم ہوکر اب 11 فیصد سے بھی کم ہوگئی ہے۔ معاشی پیداوار میں مستقل اضافے کیلئے اس کا دوگنا ہونا لازمی ہے۔ مقامی تاجروں کے اعتماد کی بحالی اور براہ راست بیرونی سرمایہ کاری لانے کیلئے کوشش اور وقت درکار ہے لیکن اس کے امکانات کا انحصار حکومت کے اصلاحاتی ایجنڈے کے نفاذ، سیکورٹی صورتحال میں بہتری پر ہے۔ اس کا انحصار معیشت میں بیوروکریسی کی مداخلت میں کمی پر بھی ہے۔ رکی ہوئی بیرونی آمد زر ادائیگیوں کے توازن پر دباوٴ کم کرنے اور زرمبادلہ کے ذخائر بڑھانے کیلئے بھی ضروری ہے، جیسا کہ تجارت کو آزاد کرنا برآمدات میں اضافہ بھی ضروری ہے۔جی ڈی پی میں برآمدات کی شرح بمشکل10 فیصد پر رکی ہوئی ہے اگر زرمبادلہ کے ذخائر میں وقت کے ساتھ اضافہ کرنا ہے تو اس شرح کو بڑھانا ہوگا۔ نادہندہ سرکاری اداروں کی ازسرنو ڈھانچہ سازی بھی ترجیحات میں شامل ہونی چاہئے جو کہ لمبے عرصے سے قومی خزانے کو ضرب لگارہے ہیں اور قوم کی خدمت کرنے کے بجائے اپنے ملازمین کی خدمت کررہے ہیں۔ انکی انتظامیہ پیشہ ورانہ ہونی چاہئے لیکن وقت کے ساتھ ساتھ ان کی نجکاری کاروباری ماحول میں بہتری لانے میں بڑی حد تک مدد دے گی۔اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ حکومت کو اپنے معاشی ایجنڈے کے نفاذ کیلئے ہمہ گیر اقدامات کی ضرورت ہوگی، اس کی بنیاد یہ تسلیم کیا جانا ہے کہ پاکستان کے معاشی مسائل ختم ہوسکتے ہیں۔ معیشت کی مستقل بنیادوں پر بحالی کیلئے بڑی تبدیلیوں اور بیوروکریسی اور سیاستدانوں کے مفادات کے خلاف کام کرنے کی اہلیت کی ضرورت ہوگی، جوکہ لبمے عرصے سے تبدیلی کی مزاحمت کررہے ہیں۔ پاکستان کے رہنماوٴں کے پاس اہم انتخاب یہ ہے کہ گزشتہ دہائی میں عالمگیریت کی جس لہر نے ترقی پذیر دنیا کی معیشتوں کو عروج سے ہمکنار کرنے میں مدد دی اسے پانے میں ناکامی کے بعد کیا ہمارا ملک ان ابھرتی ہوئی منڈیوں میں اپنے لئے جگہ تلاش کریگا اور یا محض اپنے اندر ہی کم آمدنی والے ممالک کی فہرست کے اندر محصور رہے گا یا محض دنیا کے زیادہ تر ممالک سے پیچھے اور اپنے عوام کی توقعات پوری کرنے میں ناکام رہے گا؟ ملک میں ایک معقول اکثریت کی حامل اور بیرون ملک مفادات کی تجدید کا اظہار کرنے والی حکومت کے پاس پاکستان کے معاشی مستقبل کو تابناک بنانے کا نادر موقع ہے۔ حکومت توانائی اور عزم سے یہ مستقبل محفوظ بناسکتی ہے۔
تازہ ترین