• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

’’میں خون کے دریامیں تیر رہاہوں (یعنی اتنا خون بہا چکا ہوں)َ۔ اب اسی راستے پررواں رہنے کی نسبت واپس پلٹنا مشکل ہے ‘‘۔( شیکسپیئر، میکبتھ)

گزشتہ چند ہفتوں کے پیش آنے والے واقعات عجیب و غریب الجھا ہوا منظر نامہ پیش کرتے ہیں۔ جمہوری طور پر منتخب ہونے والے وزیر اعظم کو عدم اعتماد کے ووٹ کے ذریعے اقتدار سے ہٹا دیاگیا۔ اس کے پیچھے ایک سازش بھی کارفرما تھی اور اراکین ِپارلیمنٹ کے سامنے ترغیب کے دستر خوان پر سجائے گئے نقدی سے بھرے ہوئے تھیلے، انعامات اور ٹکٹوں کے وعدے بھی۔ ان سیاست دانوں کو اپنا سیاسی کیرئیر بچانے کے لیے یہ سب کچھ درکار تھا۔ پیش آنے والے واقعات کا پورا سلسلہ آئین کے آرٹیکل 63A اور 69 کی خلاف ورزی تھا۔ یہ ان شقوں کی خلاف ورزی تو تھی ہی،اس میں عدالت کا اغماض بھی شامل تھا۔ فاضل عدالت نے پہلے تو چھٹی کے دن از خود نوٹس لیا اور اس کے بعد اپنے چیمبرز میں انتظار کرنے والے جج حضرات نے کسی توہین پر گرفت کے لیے نصف شب کچہری لگالی۔

یہ اس وقت ہوا جب حکومت نے عدالت عظمیٰ کے سامنے ایک صدارتی ریفرنس پیش کیا جس میں اس سے آرٹیکل 63A کی تشریح کرنے کی درخواست کی گئی تھی تاکہ ترغیبات اور مراعات کے عوض وفاداری تبدیل کرنے کی مذموم رسم کو ختم کیا جا سکے۔ یہ اس حقیقت کے باوجود ہوا کہ حکومت نے چیف جسٹس سے درخواست کی تھی کہ وہ اس خفیہ خط کے مندرجات کا جائزہ لیں جس میں ایک سینئر امریکی اہلکار اور واشنگٹن میں تعینات پاکستانی سفیر کے درمیان ہونے والی گفتگو کی تفصیل ہے۔ اور یہ اس حقیقت کے باوجود ہوا کہ آئین کے آرٹیکل 69 کے تحت سپریم کورٹ کے پاس نہ تو پارلیمنٹ کی کارروائی کو دیکھنے کا کوئی اختیار تھا اور نہ ہی وہ ڈپٹی اسپیکر کے حکم کو ختم کرنے کی مجاز تھی۔ عدالت نے صدر، وزیر اعظم اور پارلیمنٹ کے کل اختیار کو اپنے ہاتھ میں لیتے ہوئے دن اور وقت کا تعین کردیا کہ کب اجلاس بلایا جائے اور عدم اعتماد پر رائے شماری کرائی جائے۔ اس طرح پارلیمنٹ کی ساکھ کو روند دیا گیا۔

لیکن اس غیر معمولی فعالیت میں عدالت اکیلی نہیں تھی۔ ظاہر تھا کہ یہ کسی حکم کی بجاآوری ہے۔ اسکرپٹ لکھا گیا تھا اور اس پر عمل درآمد کے لیےعدالت کے حوالے کیا گیا تھا۔ اس میں آئین، پارلیمنٹ یا ان لوگوں کے حقوق کا کوئی ذکر نہیں تھا جو کلیدی عہدوں پر فائز تھے اور وہ عوام جنہوں نے اسمبلیوں کے اراکین کو منتخب کرنے کے لیے اپنا جمہوری حق استعمال کیا تھا۔ بس ایک ہتھوڑے سے سب کچھ مسمار کردیا گیا۔ ہدف صرف خان تھا اور یہ سب کچھ سینئرامریکی اہلکار کی طرف سے دی گئی دھمکی کے عین مطابق تھا جس کا ذکر پاکستانی سفیر کے دفتر خارجہ کو بھیجے گئے خط میں موجود ہے۔ سازش تھی یا مداخلت، خط ایک حقیقت ہے جسے اب سب تسلیم کر چکے ہیں۔

جب سے عمران خان نے عہدے کا حلف اٹھایا تھا، پی ڈی ایم کی جماعتیں تحریک انصاف کی حکومت کو اقتدار سے باہر کرنے کی کوشش میںتھیں۔ جب بھی انھوں نے قدم اُٹھایا، شرمندگی اور بدنامی کا سامنا ہی کرنا پڑا۔ وہ اگلی بار پہلے سے زیادہ بے چین ہوکر کوشش کرتیں۔ اور یہ کوئی راز نہیںکہ ان میں سے بیشتر قیادت کی سنگین مالیاتی جرائم کی وجہ سے عدالتوں سے ضمانت پر تھی۔ انہیں خدشہ تھا کہ اگر سزا ہو گئی تو ان کی آزادی اور ان کا سیاسی مستقبل، دونوں سلب ہو جائیں گے۔ اس لٹکتی ہوئی تلوار سے بچنے کاواحد راستہ اقتدار کی راہداریوں میں پناہ لینا تھا۔ متعدد مواقع پر، کچھ طاقتور آوازوں نے ان کی طرف سے اپنے پسندیدہ افراد کو کلیدی عہدوں پر تعینات کرنے کے لیے سفارش کی۔ بار بار انکار پر ان کی مایوسی بڑھتی رہی۔

عمران خان پاکستان کی خارجہ پالیسی کو علاقائی اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ ہم آہنگ کرنے کے لیے کوشاں تھے۔ اس نے صورت حال کو مزید بگاڑ دیا۔ امریکہ افغانستان سے انخلا کے بعد سے غصے سے آگ بگولہ تھا۔ اوپر سے حکومت مغربی سرحد کے پار آپریشن کرنے کے لیے امریکا کو اڈے فراہم نہ کرنے کے لیے پرعزم رہی۔عام طور پر یہ سمجھا جارہا تھا کہ پاکستان امریکی ’بلاک‘ کا حصہ رہے گا لیکن جب اس میں تبدیلی آنا شروع ہوئی اور وزیراعظم نے دوطرفہ تعلقات کے دائرہ کار کو بڑھانے کے لیے روس کا دورہ کیا تواُن کواقتدار سے ہٹانے کا کھیل شروع ہوا۔یہی وجہ ہے کہ امریکی اعلیٰ عہدیدار نے پاکستانی سفیر کے ساتھ گفتگو میں سخت زبان استعمال کی۔اس کا وقت اور پس منظر بہت اہم تھا۔

عمران خان حکومت کو تبدیل کرنے کے لیے پارٹیوں کے اتحاد کو اکٹھا کرنے کے لیے پردے کے پیچھے بہت سی کیمیاگری ہوئی۔ امریکہ کی طرف سے دھمکی سات مارچ کو دی گئی اور آٹھ مارچ کو عدم اعتماد کی قرار داد پیش کر دی گئی۔

لیکن خان کمزوری دکھا کر نہیں نکلا۔خان کا پاکستان کے لیے آزادی کی واپسی کا پیغام جنگل کی آگ کی طرح پورے ملک میں تمام حلقوں تک پھیل گیا۔ ہر طبقے سے تعلق رکھنے والے لوگ لبیک کہتے ہوئے اس پیغام کے گرد جمع ہو گئے ہیں: ہم آزادی چاہتے ہیں اور ’’درآمد شدہ حکومت‘‘ کو قبول نہیں کریں گے۔ اسلام آباد میں زبردست مظاہرے کے بعد، پشاور اور کراچی کے جلسے اہم رہے ہیں اور لاہور میں ہونے والے جلسے کو ملک کی تاریخ کا اب تک کا سب سے بڑا جلسہ قرار دیا جا رہا ہے۔

یہ کوئی عام جدوجہد نہیں۔ یہ 1940 کا باب پلٹا جارہا ہے۔ جدوجہد ایک انقلاب کی شکل اختیار کر رہی ہے۔ عوام کی گونجتی ہوئی آواز کو دبایا نہیں جاسکتا۔ سازشیوں اور ان کے معاونین اور ان کی مدد کرنے والوں کے خواب وبائی مرض کا شکار ہوچکے ہیں۔ ان بیمارراہوں پر مزید خاک اُڑے گی۔ ان کی بیماری اور بڑھے گی، اور پاکستان صحت منداور توانا ہوکر اس آزمائش سے نکلے گا۔

تازہ ترین