• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان اِس وقت سیاسی بحران سے گزر رہا ہے۔ پاکستان کے عوام جمہوریت سے بہت زیادہ مایوس ہوئے ہیں، اِس میں جمہوریت کا قصور ہے یا سیاستدانوں کا؟ میرا خیال ہے اِس میں جمہوریت کا کوئی قصور نہیں مگر جمہوریت کے بارے میں ہماری سیاسی اشرافیہ کا کردار بہت ہی خراب نظر آ رہا ہے اور جب جمہوریت کے تناظر میں قانون اور اصول کی تشریح کے لیے ملک کی اعلیٰ عدلیہ سے رجوع کیا جاتا ہے تو وہاں سے بھی کوئی رہنمائی نہیں ملتی۔ عدلیہ بہت سارے ایسے فیصلے کر سکتی ہے جن کی مدد سے جمہوریت کو مضبوط کیا جا سکتا ہے مگر اُن فیصلوں پر عمل کون کرے؟ حالیہ دنوں میں جس طریقے سے انتقالِ اقتدار ہوا، اُس پر عوامی ردِعمل بھی حیران کن ہے۔ متحدہ اپوزیشن، جس کو بھان متی کا کنبہ بھی کہا جا رہا ہے، کو پہلے تو کابینہ کی تشکیل میں خاصے دن لگ گئے اور جو کابینہ بنائی، اس پر بھی اب سوال کیے جا رہے ہیں۔

اِس سیاسی بحران میں آئی ایم ایف اور مہربان دوست ملک امریکہ کا کردار بہت نمایاں ہو کر سامنے آیا ہے۔ امریکہ کے پاکستان پر احسان بھی بہت ہیں اور پاکستان کے حکمرانوں نے کبھی اپنے دوست ملک امریکہ کو مایوس بھی نہیں کیا مگر امریکہ پاکستان سے کبھی خوش نہیں ہوا۔ پاکستان کی سابقہ حکومتوں کا امریکی انتظامیہ سے زیادہ امریکی افواج سے تعلق رہا اور امریکہ نے بھی افواجِ پاکستان پر سیاست دانوں سے زیادہ اعتماد کیا۔ پھر کچھ ایسے اشارے بھی ملتے ہیں جن کی وجہ سے امریکہ پر اعتبار کرنا آسان نہیں ہے۔ پاکستان کے پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان کا قتل ہوا تو برطانیہ اور امریکہ شک کے دائرے میںآئےاور اب بھی ہیں ،بعد ازاںبھٹو صاحب کا عدالتی قتل بھی امریکہ کے دبائو کی وجہ سے ہوا۔ اپنے من پسند ضیاء الحق کو بھی امریکہ نے ہی مروایا۔ امریکہ نے پاکستان میں کبھی نیک نامی نہیں کمائی۔

ملک میں اس وقت مخلوط سرکار ہے جو آئی ایم ایف سے مذاکرات کرنے جا رہی ہے۔ گزشتہ تین برسوں میں آئی ایم ایف پاکستان کے حکمرانوں سے خوش نہ تھا اور وہ مسلسل پاکستان کو دبائو میں رکھتا رہا مگر اب اُس کے تیور بدلے بدلے نظر آ رہے ہیں اور وہ مذاکرات سے پہلے ہی یہ نوید دے رہا ہے کہ پاکستان کو معیشت بہتر بنانے اور ملک چلانے کےلیے مناسب اور اپنی من پسند شرائط پر قرضوں کا اچھا سا پیکیج دے سکتا ہے، جس کے بدلے میں پاکستان کو ان کے اصولوں پر معیشت چلانی ہوگی اور اس طرح پاکستان کبھی قرضوں کی معیشت سے آزاد نہ ہو سکے گا۔ آئی ایم ایف پاکستان کی معیشت کو سرمایہ دار معیشت بنانے کے منصوبے پر عرصہ دراز سے کام کر رہا ہے۔

اس مشکل صورتحال میں جب کپتان عمران خان کی حکومت کو ختم کرنے کی سیاسی کوشش ہو رہی تھی تو چین نے پاکستان کو یہ باور کروانے کی کوشش بھی کی مگر منصوبہ ساز جو امریکہ کی مدد سے سب کچھ کر رہےتھے، انہوں نے چین کی مشاورت کو یکسر نظرانداز کر دیا۔ سابق وزیراعظم پر الزام لگایا جا رہا ہے کہ وہ امریکہ کے ساتھ مضبوط تعلقات نہ بنا پائے، اس میں ایک بات واضح ہے کہ صدر بائیڈن کے حکومت میں آنے سے قبل پاکستان کے امریکہ کے ساتھ تعلقات اچھے تھے۔ عمران خان نے سابق امریکی صدر کے ساتھ برابری کی سطح پر رابطہ رکھا اور امریکہ کا دورہ بھی کیا مگر اُس کے جانے کے بعد دونوں ملکوں کی افواج کے تعلقات تو بہتر رہے لیکن حکومتوں کے تعلقات میں ویسی گرمجوشی باقی نہ رہی۔

اِس وقت مخلوط سرکار کو سب سے زیادہ فکر آنے والے بجٹ کی ہے۔ اُس بجٹ میں آئی ایم ایف کا دخل اور مشاورت پاکستان کی معیشت کے لیے کتنی مناسب ہوگی؟ یہ ایک اہم سوال ہے جو ہماری معیشت کے لیے بھی ایک خطرہ بن سکتا ہے اور پھر آپ کو آئندہ چند ہفتوں میں انتخابات کے لیے رقوم کا تعین بھی کرنا ہے اور ہمارے دفاعی بجٹ پر بھی نظرثانی کی ضرورت ہے۔ ہماری عسکری انتظامیہ کی ان معاملات پر گہری نظر ہے مگر وہ امریکہ پر زیادہ اعتماد کا اظہار کر رہی ہے۔ پاکستان کی جمہوریت اور سیاست میں افواج پاکستان کا کردار بہت اہم رہا ہے۔ ماضی میں ان پر الزام لگتا رہا ہے کہ وہ مارشل لا لگا کر جمہوریت کو نظر انداز کرتے تھے مگر فوجی انتظامیہ کا جوابی بیان بھی مدِنظر رکھنا ضروری ہے۔ جمہوریت کا راگ الاپنے والے سیاسی لوگ نہ ہی سیانے تھے اور نہ وہ جمہور پر یقین رکھتے تھے۔ متحدہ پاکستان کے زمانے میں ہمارے سیاستدانوں نے قومی اسمبلی کے بنگالی ڈپٹی اسپیکر کو تشدد کر کے قتل کر دیا تھا۔ اب جو کچھ پنجاب اسمبلی میں ہوا ہے وہ ماضی سے کچھ زیادہ مختلف نہیں ہے، اِس صورتحال میں آئی ایس پی آر مداخلت کر سکتی تھی اور اس سے مدد بھی مانگی گئی مگر عسکری انتظامیہ راضی نہ ہوئی۔

افغانستان کے معاملہ میں پاکستان نے امریکہ کی بھرپور مدد کی مگر امریکہ چین کی وجہ سے پاکستان کو مسلسل نظرانداز کررہا تھا اور کر رہا ہے، مخلوط سرکار کو اس کا اندازہ بھی نہیں۔ اس وقت مخلوط سرکار اور عسکری انتظامیہ کو سابق کپتان عمران خان پر اعتبار نہیں، یہی وجہ ہے کہ عمران خان سیاست سے بےدخل ہوتے نظر آ رہے ہیں جبکہ عوام عمران خان کی آواز بن رہے ہیں اور انتخابات کا معاملہ حل ہوتا نظر نہیں آ رہا۔ تحریک انصاف کی قیادت عدالتی فیصلوں سے بھی متفق نہیں ہے۔عمران خان کا اب پاکستان کی سیاست سے باہر ہونا ملک کے مستقبل کے لیے ایک بڑا خطرہ بن سکتا ہے۔ اِس سال نومبر میں فوج کے نئے کمان دار کا تعین بھی ہونا ہے۔ موجودہ مشکل صورتحال کے تناظر میں امریکہ اور بھارت دونوں پاکستان کو کمزور دیکھنا چاہتے ہیں اور ان بحرانوں کا حل صرف اور صرف جلد از جلد انتخابات میں ہی ہے۔

تازہ ترین