تہوار ہمیشہ سے انسانی معاشرت کا ایک اہم حصّہ رہے ہیں۔ رمضان المبارک کے بعد جب عید الفطر آتی ہے، تو اس اسلامی تہوار کا ہر طرف نہایت خوش دِلی اور پُرجوش انداز سے استقبال کیا جاتا ہے۔ تمام چھوٹے، بڑے اللہ کے حضور شُکر گزاری کے جذبے سے سَرشار اس موقعے کو باہم خوشیاں بانٹتے اور میل ملاقات کا ذریعہ بناتے ہیں۔ خوشی و مسرت، ملنے ملانے کا موقع ہو، تو عموماً انواع و اقسام کے کھانوں کا بھی اہتمام کیا جاتا ہے۔ عزیز رشتے دار، دوست احباب ایک دوسرے کے گھر آتے جاتے اور طرح طرح کے کھانوں سے لُطف اُٹھاتے ہیں۔ عرب تاریخ میں اسلام سے قبل عربوں کے ہاں یوم السّبع، یومِ السّباسب اور کئی دیگر تہواروں کا ذکر ملتا ہے۔
بنی اسرائیل کی شریعت میں بھی تہوار مقرر کیے گئے تھے، جن کا تعلق تاریخ کے کچھ اہم واقعات اور شخصیات سے تھا۔ رسول کریم ﷺ نے مسلمانوں کے تہوار کے لیے عید الفطر اور عید الاضحی کے دِن مقرر فرمائے۔ ہم جانتے ہیں کہ یہ دونوں تہوار اسلام کے دو عظیم مظاہر سے متعلق ہیں۔ عید الفطرکا تہوار رمضان المبارک میں روزوں کی عبادت مکمل ہونے کے بعد یکم شوال کو منایا جاتا ہے۔ یہ تہوار اللہ ربِّ کریم نے اُن لوگوں کے لیے مقرر کیا ہے، جو تقویٰ اختیار کرنے کے ساتھ اللہ کی رضا کے حصول کے لیے راتوں کو قیام کرتے ہیںاور دِن کو محض اللہ تعالیٰ کی خوش نودی کے لیے بھوکے پیاسے رہتے ہیں۔ عید الفطر کو ہماری شریعت میں نہایت اہمیت حاصل ہے۔
بلاشبہ عیدین کے تہوار، اللہ کے ذکر، اس کی نعمتوں کے شُکر اور تفریحات کے لیے خاص ہیں،لہٰذا تمام مسلمان عید کے روز صُبح سویرے تیاری کرتے اور نمازِعید کا اجتماعی اہتمام کرتے ہیں۔ عید کی نماز کا اجتماع بھی جمعے کی نماز کی طرح بڑا اجتماع ہوتا ہے اور اس کا اہتمام سرکاری عمال کے ذمّے ہے۔ اس موقعے پر دُنیا بَھر کے مسلمان اللہ کی بندگی کرتے، اس کا شُکر بجا لاتے ہیں،آپس میں ملتے ملاتے، خوشیاں بھی بانٹتے ہیںاورخوشی کے اس موقعے پر پُرتکلف کھانوں ، عزیز و اقارب کی ضیافت کے ساتھ اپنی تہذیب و ثقافت کے مطابق کچھ نہ کچھ کھیل ، تفریح کا اہتمام بھی ضرورکیا جاتا ہے۔ یہ تہوار حضورﷺ نے ہجرت کے بعد مدینہ منوّرہ میں مقرر کیے۔
حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ رسالت ِمآبﷺ مدینہ تشریف لائے، تو وہاں لوگوں نے دو دِن مقرر کر رکھے تھے، جن میں وہ کھیل کود سے دِل بہلاتے تھے۔ آپ ﷺنے پوچھا،’’یہ کیا دِن ہیں؟‘‘ لوگوں نے بتایا کہ جاہلیت میں یہ ہمارے کھیل تماشے کے دِن رہے ہیں۔جس پر آپ ﷺنے فرمایا’’اللہ تعالیٰ نے ان کی جگہ تمہارے لیے ان سے بہتر دو دِن مقرر کر دیے ہیں۔ عیدالفطر اور عید الاضحیٰ۔‘‘ نبی کریم ﷺکا ارشاد ہے ’’یہ ایّام کھانے پینے، باہم خوشی کا لُطف اُٹھانے اور اللہ کو یاد کرنے کے ہیں۔‘‘حضرت عائشہ صدیقہ ؓسے روایت ہے کہ عید کا دِن تھا۔ کچھ لونڈیاں بیٹھی وہ اشعار گارہی تھیں، جو جنگ بعاث سے متعلق انصار نے کہے تھے کہ اِسی دوران حضرت ابوبکر صدیقؓ تشریف لائے اور فرمایا، ’’ نبی ﷺکے گھر میں گانا بجانا؟‘‘اس پر آپ ﷺنے فرمایا’’ابو بکر ؓرہنے دو، ہر قوم کے لیے تہوار کا ایک دِن ہے اور آج ہماری عید کا دِن ہے۔‘‘اسی طرح ایک بار عید کے دِن کچھ حبشی بازی گر کرتب دکھا رہے تھے۔آپ ﷺ نے یہ کرتب نہ صرف خود دیکھے، بلکہ حضرت عائشہ ؓ کو بھی دکھائے۔
سوال یہ ہے کہ’’ عید کے یہ تہوار کیوں ضروری ہیں؟‘‘ تو عمومی مشاہدہ ہے کہ عید کے پُرمسرت موقعے پر زیادہ تر افراد باہم ناراضیوں اور غلط فہمیوں کو دُور کرنے کی کوشش کرتے اور اپنے رشتوں کی تجدید کرتے ہیں۔ ایک دوسرے سے اپنے تعلقات و وابستگیوں کا کُھل کر اظہار کیا جاتا ہے، تو گپ شپ اور مل بیٹھ کر کھانے پینے کے لیے ضیافتوں، پُرتکلف دعوتوں کا اہتمام بھی ہوتا ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ ہر رشتہ، تعلق جذبات کی باطنی کیفیات کے ساتھ خارجی ظہور کابھی تقاضا کرتا ہے، لہٰذا باہم ملنا ملانا اور محبّتیں بانٹنا ہی وہ فطری طریقہ ہے، جس سے رشتوں اور تعلقات سے متعلق ہمارے احساسات اور پنہاں جذبوں کی تسکین ممکن ہو سکتی ہے، تو اس طرح کے مواقع بھی ان تہواروں ہی کے ذریعے میسّر آتے ہیں۔
عیدالفطر اسلامی تہوار ہے، جسے مقرر کرنے کے کچھ مقاصد اور منانے کے کچھ طریقے بھی وضح کیے گئے ہیں۔ انہی ہدایات کی روشنی میں عید الفطر کا یہ تہوار صدیوں سے اسلامی تعلیمات اور دینی جذبے کے ساتھ منایا جارہا ہے۔ تاہم، گزرتے وقت کے ساتھ اب دیکھنے میں آرہا ہے کہ ہمارے اس تہوار میں اسلامی ہدایات نظر انداز کی جا رہی ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ جہاں ہماری غفلت و کوتاہی ہے، وہیں ایک سبب دیگر تہذیبوں کا غلبہ بھی ہو سکتا ہے۔
عید کے یہ مواقع ہمیں ہماری تہذیب و ثقافت اور اپنی روایات کے احیاء کی دعوت بھی دیتے ہیں، تو ہمیں اس موقعے سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے اپنے اسلاف کی اقدار کے مطابق اس تہذیبی روایت کو زندہ کرنے اور اس کی نشوونما کی کوشش کرنی چاہیے، جس کا ارتقا اور پرورش اسلام کے دامن میں ہوئی، جو ہمارے دین کے معاشرتی تصوّرات کے زیر اثر وجود پذیر ہوئی، جو کبھی اللہ کی بندگی سے آزاد نہیں ہو سکتی، جس کی بنیادیں حفظِ حیا، حفظِ مراتب اور امر بالمعروف اور نہی عن المنکر جیسے عناصر سے اُٹھائی گئی ہیں۔
یہ حقیقت ہے کہ ہمارے معاشرے میں مَرد و خواتین معاشرتی طور پر بالعموم دیگر تہذیبوں اور بالخصوص ہندومت کے تہذیب و تمدن اور ان کی گزشتہ تاریخ سے متاثر نظر آتے ہیں، جس کی ایک جھلک ہم اپنی شادی بیاہ اور دیگر تقریبات میں بھی دیکھ سکتے ہیں۔ اب مغربی تہذیب کے غلبے نے بھی جو محض ’’آزادی ‘‘ سے منتج ہے، ہمیں اس حد تک متاثر کردیا ہے کہ ہمارا اپنا تہذیبی و ثقافتی سرمایہ جو ہمیں اسلام کی آغوش سے ملا، بالکل آخری سانسیں لے رہا ہے۔ یہ غلبہ بڑے شہروں اور قصبوں میں زیادہ نمایاں طور پر دیکھا جا سکتا ہے کہ مغربی میڈیا اور دیگر تہذیبوں تک ان افراد کی رسائی زیادہ ہے۔ یاد رکھیں کہ اسلام کی جنگ اگر ہم تہذیب کے میدان میں ہار گئے، تو پھر عقائد و نظریات کے میدان میں بھی جیتنا بھی ہمارے لیے آسان نہیں رہے گا۔
عید کے تینوں ایّام میں بالعموم ہر گھر میں پسندیدہ اور مرغوب کھانوں کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ چوں کہ مہمانوں کی خاطر مدارات ہماری معاشرتی روایات کا ایک اہم حصّہ تصوّر کی جاتی ہے،تو ہم عزیز و اقارب، پڑوسیوں اور دوست احباب کو ان کھانوں میں شریک تو کرتے ہی ہیں،لیکن اگرکوئی اپنے یہاں مدعو کرے، تو اس کی دعوت قبول بھی کرتے ہیں۔ یہ پیار و محبّت کا اظہار اور اس کو بڑھانے کا ذریعہ ہی نہیں، ہمارے پیارے نبی ﷺکا اسوہ بھی ہے۔ ہمارے نبیٔ مہربانﷺ کے دسترخوان پر کوئی مہمان آتا، تو آپ ﷺبار بار اس سے فرماتے، ’’کھائیے اور کھائیے۔‘‘ جب مہمان خُوب سیر ہو جاتا اور بہت انکار کرتا، تو تب اصرار چھوڑتے۔ ویسے تو عیدالفطر کے موقعے پر تواضع میٹھے پکوانوں سے کی جاتی ہے، مگر اب اس پُرمسرت موقعے پر بھی لوگ زیادہ تر گوشت سے بنے مختلف کھانوں سے لُطف اندوز ہوتے نظر آتے ہیں۔
یہ دعوتیں، خاطر داریاں اس وقت ہمیں مشکل میں مبتلا کر دیتی ہیں، جب ہم کھانوں سے لُطف اُٹھاتے ہوئے اپنی صحت کو بالکل ہی نظر انداز کرتے ہر قسم کے کھانوں پر ہاتھ صاف کرتے نظر آتے ہیں۔ بالخصوص رمضان المبارک کے فوراً بعد۔ حالاں کہ مسلسل 30 روز تک طلوعِ آفتاب تا غروبِ آفتاب تک کچھ نہ کھانے پینے کے باعث ہمارا معدہ ایک خاص معمول اور وقت کا عادی ہو چُکا ہوتا ہے، جس کے نتیجے میں کھانے پینے کے معاملے میں احتیاط ناگزیر ہے۔
ہر طرح کے پکوان اور اللہ کی بے بہا نعمتوں سے لُطف اندوز ہونا ممنوع نہیں ہے، مگر ماہِ رمضان کے بعد بسیار خوری نظامِ انہضام کے لیے بعض اوقات نقصان دہ ثابت ہوسکتی ہے۔ عید الفطر کے موقعے پر عام دِنوں کے مقابلے میں زیادہ تلی ہوئی، مرغّن غذائیں استعمال کی جاتی ہیں، جس کی وجہ سے خوشی کے اس دِن پر کئی افراد کا نظامِ ہاضمہ خراب ہوجاتا ہے۔ یاد رہے، معدے کی تیزابیت، سینے میں جلن، بدہضمی، مروڑ اوردست وغیرہ کا سبب یہ تیز مسالے دار اور تلے ہوئے مرغّن کھانے ہی ہیں۔
بلاشبہ روزہ ایک تربیتی عمل ہے، جو کھانے پینے کے معاملات کو ایک ڈسپلن کا پابند کرتا ہے، مگر عید کے دِن ہم اس نظم و ضبط کو توڑ کر اپنے جسم کے ساتھ انتہائی زیادتی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ ہمیں عید کے روز بالخصوص بعض امور ضرور پیشِ نظر رکھنے چاہئیں، تاکہ ماہِ صیام کے بعد معدے پر زائد بوجھ طبّی مسائل کا سبب نہ سکے۔ ذیل میں چند امور درج کیے جارہے ہیں، جنہیں محض عید کے دِن تک محدود رکھنا ہی کافی نہیں، بلکہ صحت مند زندگی کے لیے ان اصولوں کو اپنے معمولات کا حصّہ بنالیا جائے تو بہتر ہے۔
٭ کھانا کھانے سے قبل ایک گلاس پانی پینا اپنی بڑھتی خوراک میں کمی لانے کا مؤثر ترین طریقۂ کار ہے ۔ تن درست جسم اورصحت مند زندگی کے لیے ضروری ہے کہ زیادہ سے زیادہ پانی پیئں۔چوں کہ روزوں کے دوران ہمارے جسم میں پانی کی کمی واقع ہوجاتی ہے۔ اس کے علاوہ پانی ہمارے جسم سے پسینے اور پیشاب کے ذریعے ،جب کہ سانس لینے کے عمل سے بھی مسلسل خارج ہورہا ہوتا ہے، تو ضروری ہے کہ جسم میں پانی کی مقدار برقرار رکھنے کے لیے زیادہ سے زیادہ پانی پیا جائے۔ علاوہ ازیں، پانی کا زائد استعمال وزن کی کمی کے لیے بھی معاون ثابت ہوتاہے۔ تاہم ، ایک صحت مند فرد کے لیےپانی کی کتنی مقدار ضروری ہے، اس کا انحصار روزمرّ ہ سرگرمیوں پر ہے۔ عمومی طور پر روزانہ 8سے10 گلاس پانی پینا چاہیے۔
٭ جب بھی کھانا کھائیں اچھی طرح چبا کر کھائیں۔ ایک مقولہ ہے ’’اللہ تعالیٰ نے بتیس دانت دیے ہیں، تو بتیس دانتوں سے چبا کر کھائیں۔‘‘یاد رکھیے،غذا ہضم کرنے کا عمل معدے سے نہیں، بلکہ چبانے ہی سے شروع ہوجاتا ہے۔ دراصل منہ میں موجود لعابِ دہن میں ایسے خامرےپائے جاتے ہیں، جو خوراک کے معدے میں پہنچنے سے قبل ہی اسے قابل ہضم بنانا شروع کردیتے ہیں۔
٭ ماہِ صیام کے بعداپنی غذا میں سبزیاں، سلاد اور پھلوں کا استعمال بڑھانے کی کوشش کریں۔ سبزیوں اور پھلوں میں موجود ریشہ اور پانی پیاس بجھانے کے ساتھ پیٹ بَھرنے کا احساس بھی دلاتے ہیں۔ پھلوں میں موجود مٹھاس ہمارے جسم میں میٹھے کے لیے پائی جانے والی طلب بھی کم کرتی ہے۔اس طرح ہم ان عوامل سے بھی بچ سکتے ہیں، جو وزن بڑھانے کا سبب بنتے ہیں۔
٭ عیدکے موقع پر میٹھے کے ساتھ گوشت کے مختلف پکوان بھی بنائے جاتے ہیں ،جن میں سے ایک تلا ہوا گوشت بھی ہے۔ تلے ہوئے گوشت کے استعمال میں لازماً احتیاط برتی جائے،کیوںکہ گوشت کا زائد اور مسلسل استعمال کولیسٹرول، یورک ایسڈ ، بُلند فشارِ خون اورامراضِ قلب کا سبب بن سکتا ہے۔عید کے موقعے پر میٹھے، نمکین اور دیگر اشیاء کے استعمال کے نتیجے میں بدہضمی ، اسہال ، قے وغیرہ کی شکایات بھی عام سُننے میں آتی ہیں، لہٰذا اس طرح کے مسائل سے بچنے کے لیے غذا کو معتدل رکھنا از حدضروری ہے۔
٭ مرغّن غذائیں، زائد نمکیات اور تیز مرچ مسالے والے کھانے معدے کے السر، ذہنی تنائو، بلڈ پریشر اور جگر کی سوزش کا سبب بن سکتے ہیں۔ نیز، بعض اوقات خون کے خلیات اور ان کی گردش پربھی براہِ راست اثر انداز ہوتے ہیں، جس کے نتیجے میں ذہنی و جسمانی بیماریاں لاحق ہونے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔ کوشش کریں کہ اس طرح کی اشیاء اعتدال میں استعمال کی جائیں۔
٭ ہمارے یہاں مرغّن کھانوں اور بار بی کیو کے ساتھ کولڈڈرنکس اور سوڈا واٹر کا استعمال لازمی سمجھا جاتا ہے۔ یہ عمومی خیال ہے کہ اس طرح کے مشروبات ہاضمے میں مددگار ثابت ہوتے ہیں،جو درست نہیں۔ درحقیقت کولڈڈرنکس وغیرہ صحت کے لیے سخت نقصان دہ ہیں کہ ان میں شامل بعض کیمیائی مادّے مختلف عوارض کا سبب بن سکتے ہیں، لہٰذا ان کا استعمال کم سے کم کیا جائے۔ زیادہ بہتر تو یہی ہے کہ ان کی جگہ تازہ مشروبات، تازہ پھلوں کے جوسز اور لیموں پانی استعمال کیے جائیں کہ یہ ہاضمے میں معاون ثابت ہوتے ہیں اور سینے کی جلن وغیرہ سے بھی محفوظ رکھتے ہیں۔
٭ عیدتہوار کے مواقع پر پسندیدہ اور مرغّن کھانوں کی زیادتی اور ان کے مضر اثرات سے بچنے کی عمومی ہدایت سے قطع نظر یہ بات بھی جان لینا ضروری ہے کہ اگر کھانے پینے میں بے اعتدالی کو معمول نہ بنایا جائے اور متوازن غذا کا استعمال کیا جائے، تو ہم زندگی بَھر کے لیے خوشی و مسرت کے ایسے تمام مواقع سے بَھرپور لُطف اُٹھا سکتے ہیں۔ یہ ذہن نشین کرلیں کہ کھانے کا بنیادی اصول پیٹ بَھر کھانا نہیں، بلکہ ہمیشہ بھوک رکھ کر کھانے کی عادت ہے۔ اِسی طرح بے وقت اور بغیر بھوک کے کھانے بھی سے اجتناب برتا جائے۔
اس اصول کی توضیح کرتے ہوئے ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’انسان کو چاہیے کہ اپنے معدے کے تین حصّے کرے۔ ایک ٹھوس غذا کے لیے، ایک پانی کے لیے اور ایک حصّہ (ہوا کے لیے)خالی رہنے دے، تاکہ سہولت سے سانس لے سکے۔‘‘ ایک اور موقعے پر آپ ﷺ نےفرمایا’’ہم وہ قوم ہیں، جو اس وقت تک نہیں کھاتے، جب تک ہمیں بھوک نہیں لگتی اور جب کھاتے ہیں، تو پیٹ بَھر کر نہیں کھاتے۔‘‘ جو افراد بے وقت اوربسیار خوری کی وجہ سے موٹاپےکے شکار یا کسی مرض میں مبتلا ہیں، اُنھیں عید کے موقعے پر بھی کھانے پینے میں اعتدال کے ساتھ احتیاط سے بھی کام لینا چاہیے، بالخصوص بلڈ پریشر، ذیابطیس اور معدے کے السر میں مبتلا مریضوں کو، کیوں کہ ان تینوں امراض کا براہِ راست تعلق ہماری غذا سے ہے۔
عید الفطر کے پُرمسرت موقعے پر کھانے پینے میں اعتدال سے کام لیں، تاکہ میٹھی عید، میٹھی ہی رہے اور ہم اپنے عزیزو اقارب اور دوستوں کے ساتھ مل جُل کر خُوب لطف اندوزہوسکیں۔ (مضمون نگار،علومِ اسلامیہ اور علمِ نفس کے طالب علم ہیں)