• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

خیبرپختون خوا پولیس میں خواتین کی تعداد ایک فیصد سے بھی کم ہے

بات چیت: قیصر خان، پشاور

اسسٹنٹ انسپکٹر جنرل(اے آئی جی) آف پولیس، خیبر پختون خوا، عائشہ گُل کا تعلق خیبر پختون خوا کے ضلع صوابی کے علاقے گدون آمازئی سے ہے۔ ان کے والد ایئر فورس سے منسلک تھے، اس لیے عائشہ نے پرائمری سے ایف ایس سی تک تعلیمی مدارج پاکستان ایئر فورس اسکول، پشاور سے طے کیے۔ بعد ازاں، پشاور یونی وَرسٹی سے اکنامکس میں بیچلرز کرنے کے بعد نسٹ،اسلام آباد سے اکنامکس میں ایم ایس کیا اور اسٹیٹ بینک آف پاکستان میں ملازمت اختیار کرلی، لیکن ملازمت کے ساتھ مقابلہ جاتی امتحان کی تیاری بھی جاری رکھی۔ 2015ء میں سی ایس ایس کے امتحان میں حصّہ لیا اور کام یابی حاصل کرکے 2016ء میں محکمۂ پولیس میں بطور اے ایس پی شمولیت اختیار کی۔ 

عائشہ گُل کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ وہ سی ایس ایس کا امتحان پاس کرکے پولیس میں شمولیت اختیار کرنے والی پہلی پختون خاتون ہیں۔ محکمۂ پولیس میں بطور اے ایس پی فرائض سنبھالنے کے بعد پہلی پوسٹنگ اسلام آباد میں بطور اے ایس پی، مارگلہ ہوئی۔ عائشہ اے ایس پی کوہ سار ،ٹریفک پولیس اسلام آباد اور فرنٹیئر کانسٹیبلری میں بھی خدمات سرانجام دے چُکی ہیں۔ اور حال ہی میں انہیں اے آئی جی صنفی مساوات (Gender Equality)، خیبر پختون خوا کے عُہد ے پر تعیّنات کیا گیا ہے۔واضح رہے، اس عُہدے پرفائزہونے والی وہ پاکستان کی پہلی خاتون ہیں۔ گزشتہ دِنوں ہم نے قوم کی اس ذہین و فطین، بہادر اور با صلاحیّت بیٹی سے ملاقات کی، جس کا احوال نذرِ قارئین ہے۔

نمایندہ جنگ سے بات چیت کرتے ہوئے (عکّاسی: فرمان اللہ جان)
نمایندہ جنگ سے بات چیت کرتے ہوئے (عکّاسی: فرمان اللہ جان)

س: سی ایس ایس کرنے کے بعد کسی اور نسبتاً آسان محکمے کا انتخاب کرنے کے بجائے محکمۂ پولیس ہی کاانتخاب کیوں کیا؟

ج: محکمۂ پولیس کے انتخاب کے پسِ پردہ کوئی ایک نہیں، دو، تین وجوہ ہیں۔ پہلی وجہ تو یہ کہ میرے والد ریٹائرڈ ایئر فورس ملازم ہیں، تو بچپن ہی سے مجھے یونی فارم سے بے حد لگاؤ تھا، ایک خاص قسم کی کشش محسوس ہوتی تھی، دوسری وجہ یہ کہ اس محکمے کے انتخاب کے بعد میرا عوام سے رابطہ بڑھ گیا، ان کے مسائل سمجھنے اور حل کرنے میں آسانی ہوگئی اور پھرپولیس فورس میں چوں کہ خواتین کی تعداد بہت کم ہے، تو مَیں کوئی چیلنجنگ کام کرنا چاہتی تھی۔

س: بطور اے آئی جی، صنفی مساوات آپ کی ذمّے داریاں کیاہیں؟

ج: خیبر پختون خوا پولیس میں جینڈر ایکوالٹی کا عُہدہ انسپکٹر جنرل آف پولیس خیبر پختون خوا، معظّم جاہ انصاری کا برین چائلڈ، اُن کی پروگریسیو سوچ کا مظہر ہے اور انہوں نے ہی میری تعیناتی بھی کی۔ جب مَیں نے خیبر پختون خوا پولیس میں شمولیت اختیار کی، تو آئی جی پی صاحب نے کہا کہ ’’خواتین، بچّوں اور خواجہ سرائوں کے دیرینہ مسائل کے حل کے لیے فی الفور اقدامات ناگزیر ہیں، اس لیے میری خواہش ہے کہ آپ صوبے میں صنفی مساوات کے لیے کام کریں۔‘‘ جس کے بعد مجھے اے آئی جی صنفی مساوات، خیبر پختون خوا تعیّنات کردیا گیا۔ 

جہاں تک بات ہے، اس عُہدے کی ذمّے داریوں کی، تو اس حوالے سےدو مقاصد پیشِ نظر ہیں، اوّل محکمۂ پولیس میں جو خواتین پولیس افسران اور اہل کار ڈیوٹی انجام دے رہی ہیں، ان کے لیے ماحول موزوں اور بہتر بنایا جائےکہ اب تک محکمۂ پولیس میں خواتین اہل کاروں کے لیے ڈے کیئر سینٹرز ہیں،تھانوں میں واش رومز کی مناسب سہولتیں ہیں اور نہ ہی پِک اینڈ ڈراپ کی سہولت میسّر ہے۔ اور صرف کے پی کے ہی نہیں، ہر صوبے میں خواتین پولیس اہل کارکئی مسائل سے دوچار ہیں، جنہیں حل کرنے سے ان کی کارکردگی مزید بہتر ہوجائے گی۔ 

دراصل دورانِ کار خواتین پولیس اہل کارو ں کو یہ فکر لاحق رہتی ہے کہ اُن کےڈیوٹی پرہونے کے دور ان ،اُن کے چھوٹے بچّوں کا خیال کون رکھے گا، جس کے باعث ان کا فوکس ڈیوٹی پر نہیں رہتا، اس کے علاوہ بھی ان کے کئی مسائل ہیں، جن کے بتدریج حل کے لیے ہم حکمتِ عملی بنا رہے ہیں۔ اس وقت خیبر پختون خوا پولیس میں خواتین کی تعداد ایک فی صد سے بھی کم ہے، جب کہ بین الاقوامی معیار کے مطابق پولیس میں خواتین کی تعداد 10فی صد ہونی چاہیے ۔ بحیثیت اے آئی جی ،صنفی مساوات میرے فرائض میں شامل ہے کہ مَیں معاشرے میں پولیس کا امیج بہتر کروں، تاکہ زیاد ہ سے زیادہ خواتین محکمۂ پولیس میں شمولیت اختیار کرسکیں۔ 

پولیس میں شمولیت سے قبل خود مجھے بھی نہیں معلوم تھاکہ پولیس میں خواتین اہل کار بھی ہوتی ہیں، جب تک کمیونٹی کو پولیس میں لیڈیز اہل کاروں کی ذمّے داریوں کے بارے میں نہیں بتائیں گے، تب تک معاشرے کی بیٹیاں اس شعبے کی جانب راغب نہیں ہوں گی، لہٰذا میرا سب سے بڑا ٹاسک ہی یہ ہے کہ لوگوں سے بات چیت کرکے انہیں بتاؤں کہ شعبۂ پولیس بھی ایک باوقار، مہذّب اور قابلِ عزّت شعبہ ہے، جہاں مَردوں کے ساتھ خواتین کے لیےبھی آگے بڑھنے کے کئی مواقع ہیں۔ 

جب تک ہم خواتین کو محکمۂ پولیس میں ملازمت سے متعلق آگاہی نہیں دیں گے، وہ ڈاکٹر یا اسکول ٹیچر تو بنیں گی، مگر پولیس آفیسر بننے کے خواب نہیں دیکھیں گی۔ ویسے بھی پولیس کا شعبہ ایک چیلنجنگ پروفیشن ہے، اس لیے لڑکیاں یہ بھی سوچیں کہ وہ محکمۂ پولیس میں ایک اچھے کیریئر کے ساتھ ساتھ ملک و قوم کی خدمت کا فریضہ بھی احسن طریقے سے سر انجام دے سکتی ہیں۔

س: اے آئی جی صنفی مساوات کے عُہدے سے عام خواتین کو کیا فائدہ ہو گا؟

ج: پشاور میں خواتین کے مسائل کے حل کے لیے ویمن پولیس اسٹیشنز موجود ہیں، جہاں خواتین کی شکایات سُنی اور درج کی جاتی ہیں۔ تاہم، اگروہاں کسی کا مسئلہ حل نہیں ہوتا، تو خواتین مسائل کے حل کے لیے ہم سے رجوع کرسکتی ہیں۔ ہم قانون کے مطابق ان کے مسائل ترجیحی بنیادوں پر حل کریں گے۔ 

خواتین کی فوری داد رسی کے لیے بہت جلد ویمن پولیس اسٹیشنز میں کال سینٹرز قائم کیے جارہے ہیں،جہاں اگر پولیس کنٹرول 15پر کسی خاتون کے حوالے سے کوئی کال آئے گی، تو نہ صرف اس پر فوری ایکشن لیا جائے گا، بلکہ مذکورہ خاتون کے ساتھ مسلسل رابطہ رکھا جائے گا۔ نیز، صوبے بھر میں خواتین، بچّوں یا خواجہ سرائوں سے متعلق کوئی بھی غیر معمولی واقعہ رونما ہونے کی صُورت میں اے آئی جی جینڈر ایکوالٹی کے دفتر سے متعلقہ تھانوں سے رابطہ کیا جا سکتا ہے۔ پھر ضرورت پڑنے پر ہم لیڈی پولیس ٹیم بھجوانے کے علاوہ، کیس کا فالو اَپ بھی کرتے ہیں۔

س : اکثر خواتین ایف آئی آر درج نہ ہونے کی شکایت کرتی ہیں، ایسا کیوں ہے؟

ج: خواتین کی جانب سے ایف آئی آر کا عدم اندراج نہ کرنےکی شکایت عام ہے اور اس میں کسی حد تک صداقت بھی ہے، لیکن اس کی بڑی وجہ محکمۂ پولیس میں خواتین افسران اور اہل کاروں کی کمی ہے۔ سوچنے کی بات ہے، جب ویمن پولیس اسٹیشنز میں کسی خاتون کی ایف آئی آر درج ہوگی، تو پھر اس سے انویسٹی گیشن بھی ہوگی اور مرد افسران یا اہل کار تو خواتین سے انویسٹی گیٹ نہیں کر سکتے۔ اس وقت صوبے بھر میں صرف آٹھ خواتین اسسٹنٹ سب انسپکٹرز ہیں اور یہ تعداد خواتین کی شکایات/ذاتی نوعیت کے کیسز کی انویسٹی گیشن کے لیےقطعاً ناکافی ہے۔

س: محکمۂ پولیس میں خواتین کو جس مقصد کے لیے بھرتی کیا جاتاہے،کیاان سے وہی کام لیا بھی جاتا ہے؟

ج: اگر مَیں اسلام آباد پولیس کی بات کروں، تو وہاں خواتین پولیس اہل کاروں سے مَردوں کے برابر ہی ڈیوٹی کروائی جاتی ہے۔ وہاں لیڈیز پولیس لااینڈ آرڈر کی سچویشن میں موقعے پر جاتی اور انویسٹی گیشن بھی کرتی ہیں،لیکن پشاور میں صورتِ حال مختلف ہے۔ یہاں لیڈیز پولیس سے زیادہ سخت ڈیوٹی نہیں لی جاتی۔ اگر اسلام آباد میں کوئی خاتون ایس ایچ او کسی جگہ چھاپہ مارنے جاتی ہے، تو اِسے کوئی بڑا مسئلہ سمجھا جاتا ہے، نہ غیر معمولی بات، لیکن ہمارے صوبے میں عام طور پر خاتون پولیس افسران کا کسی کے گھر پر چھاپہ مارنے یا چوک پر ڈیوٹی دینے کا رواج عام نہیں۔

س: پولیس میں مَردوں کے مقابلے میں خواتین کو کیا رعایتیں حاصل ہیں؟

ج: ضم شُدہ اضلاع میں پولیس میں بطور کانسٹیبل بھرتی کے لیے خواتین کی تعلیمی قابلیت میٹرک کے بجائے مڈل رکھی گئی ہے، فزیکل ٹیسٹ (دَوڑ) میں بھی رعایت دی جاتی ہے، نیز ان کا تحریری ٹیسٹ بھی نہیں لیا جاتا اور یہ رعایت آئندہ دس سال تک دی جاتی رہے گی۔ اب تو ہم نے بھی حکومت کو ایک سمری ارسال کی ہے کہ صرف ضم شُدہ اضلاع میں نہیں، صوبے کے تمام اضلاع میں پولیس فورس جوائن کرنے کی خواہش مند خواتین کو یہ رعایت دی جائے۔

س: جو خواتین پولیس میں شمولیت اختیار کرنا چاہتی ہیں، لیکن انہیں خاندان کی طرف سے اجازت نہیں، اُن کے لیے کچھ کہنا چاہیں گی؟

ج: میری کوشش ہے کہ مَیں ایسے خاندانوں کے ساتھ ملاقات کرسکوں اور انہیں بتائوں کہ مَیں خود بھی اسی محکمے کا حصّہ ہوں اور با قاعدہ ڈیوٹی انجام دے رہی ہوں۔ میری خواہش ہے کہ محکمۂ پولیس میں اپنی بہن،بیٹیوں سے ملازمت کروانے کے حوالے سے ان کے سارے خدشات دُور کیے جائیں اور میری تو تمام والدین سے اپیل ہے کہ وہ اپنی بچیوں سے تعلیم کے حصول میں بھرپور تعاون کریں کہ اُن کی تعلیمی قابلیت جتنی اچھی ہوگی، وہ اُتنے ہی بہتر انداز میں کام کرسکیں گی۔

س: محکمۂ پولیس میں شمولیت کے بعد خواتین کی گھریلو زندگی متاثر ہوتی ہے؟

ج: فیملی سپورٹ کے بغیر خواتین یہ پروفیشن اختیار نہیں کرسکتیں، کیوں کہ یہ ایک مشکل اور چیلنجنگ پروفیشن ہے، جس میں دن کا کوئی پتا ہوتا ہے، نہ رات کی خبر،اسی لیے بالخصوص پولیس فورس جوائن کرنے والی خواتین کےاہلِ خانہ کا سپورٹیو اور انڈراسٹینڈنگ ہونا بےحد ضروری ہے۔

س: پولیس فورس جوائن کرنے کے فیصلے پر آپ کے خاندان والوں کا کیا ردّ عمل تھا؟

ج: سی ایس ایس کا امتحان پاس کرنے کے بعد جب پولیس میں میری ایلوکیشن ہوئی، تو جیسا کہ پولیس کے بارے میں ایک عام تاثرہے کہ یہاں کرپٹ افراد کی تعداد زیادہ ہے، تو اسی طرح میرا اور فیملی کا بھی یہی خیال تھا، لیکن پولیس فورس میں شمولیت کے بعد اندازہ ہوا کہ یہ تاثر سراسر غلط ہے۔

س: آپ کی آئیڈیل شخصیت کون ہیں؟

ج: میرے والد میرے آئیڈیل ہیں۔

س: پولیس میں شمولیت اختیار کرنے سے پہلے کبھی پولیس سے واسطہ پڑا تھا؟

ج: محکمے میں آنے سے قبل کبھی پولیس سے واسطہ نہیں پڑا تھا، لیکن سی ایس ایس کے بعد میری اوّلین ترجیح پولیس ہی تھی اور الحمدُ للہ مَیں اپنے اس فیصلے پربہت خوش اور مطمئن ہوں۔

س: ملازمت کا مشکل دَور کون ساتھا؟

ج : میری پروفیشنل لائف مین تین ایسے کیسز آئے، جنہیں منطقی انجام تک پہنچانے کے لیے بہت بےچین اور پریشان رہی۔ جب مَیں بطور اے ایس پی، کوہ سار ڈیوٹی انجام دے رہی تھی، تو اسلام آباد ایف-6 میں ایک جیولری شاپ میں دن دِہاڑے ڈکیتی کی واردات ہوئی تھی، تو اس کیس کو حل کرنے میں مجھے بہت پریشانی ہوئی، لیکن بالآخر وہ حل کرہی لیا۔

س: کیا آپ کو بچپن سے پولیس فورس جوائن کرنے کا شوق تھا؟

ج: چوں کہ میرے والد ایئر فورس میں ملازمت کرتے تھے، تو ابتدا میں خواہش تھی کہ مَیں بھی ایئر فورس جوائن کروں، لیکن والدین کی خواہش تھی کہ مَیں ڈاکٹر بنوں اور ڈاکٹر بننا میرے بس کی بات نہیں تھی کہ میری دل چسپی اکنامکس کے مضامین میں تھی، تو پہلے مَیں بینکنگ سیکٹر کی طرف گئی اور پھر سی ایس ایس کا امتحان پاس کرنے کے بعد پولیس کی ملازمت اختیار کرلی۔

س: کوئی ایسی خواہش، جو پوری نہ ہوئی ہو؟

ج: میری ایسی کوئی خواہش نہیں، جو پوری نہ ہوئی ہو اور مَیں نے خود کو بےجا خواہشات کا غلام بھی نہیں بنایا ہوا کہ جن کے پورا نہ ہونے پر افسوس ہو۔

س: گھر کا کام کاج کرتی ہیں؟

ج: جی بالکل! مجھے گھر صاف سُتھرا رکھنا بہت پسند ہے، تو صفائی سُتھرائی کے کاموں میں آگے آگے رہتی ہوں۔

س: کوئی فیصلہ کرتے وقت دل کی سُنتی ہیں یا دماغ کی؟

ج: فیصلہ کرتے وقت کوشش کرتی ہوں کہ دل و دماغ دونوں ایک ہی پیج پر ہوں، لیکن اگر ایسا نہ ہو، تو پھر دل کی سُنتی ہوں۔

س: شادی کب تک کرنے کا ارادہ ہے؟

ج: جب اللہ کو منظور ہو گا تو شادی بھی ہو جائے گی۔

س: فلمیں،ڈرامے دیکھنے کا شوق ہے؟

ج: پاکستانی ڈرامے دیکھنے کا بہت شوق ہے، خصوصاً جیو ٹی وی کے ڈرامے ضرور دیکھتی ہوں۔

س: محکمۂ پولیس میں شمولیت اختیار کرنے کی خواہش مند خواتین کو کیا پیغام دینا چاہیں گی؟

ج: مَیں جہاں بھی جاتی ہوں، یہی پیغام دیتی ہوں کہ پولیس ایک بہت اچھا، باوقار پروفیشن ہے، خواتین کو اس شعبے میں ضرور آنا چاہیے۔ یاد رکھیں، مَیں یہ مشورہ یوں ہی نہیں دے رہی، بلکہ اس شعبے میں پانچ سال گزارنے کے بعد دے رہی ہوں، یعنی اس میں میرا مشاہدہ اور تجربہ دونوں ہی شامل ہیں۔ مَیں جب محکمۂ پولیس اختیار کرنے کا سوچ رہی تھی، تو مَیں نے بھی بہت سی خواتین افسروں سے مشورہ کیا تھا، جنہوں نے اپنے تجربات کی بنیاد پر مجھے پولیس جوائن کرنے کی صلاح دی۔ 

اگر خواتین کے لیے پولیس میں شمولیت اختیار کرنا کوئی معیوب بات ہوتی، تو سی ایس ایس جیسا مشکل ترین امتحان پاس کرنے کے بعد مَیں بھی پولیس کی بجائے کسی اور محکمے کا انتخاب کرتی کہ مَیں بھی اس معاشرے کی ایک عام سی لڑکی ہوں۔