دو جگہوں پر لوگوں کی اکثریت موجودہ حکومت کے جَیِّد سیاستدانوں سے خوش نہیں، یہ ایک الگ بحث ہے کہ یہ لوگ کس حد تک درست اور کہاں غلط ہیں، بہرحال، پہلے تو وزارتِ خارجہ سے منسلک بیوروکریٹس، ڈپلومیٹس اور ٹیکنوکریٹس کو اعتماد میں لینا ہوگا، یہ حساس اور کام کے لوگ ہیں۔ دوسرا دیارِ غیر میں بسنے والے کچھ لوگ آصف علی زرداری اور شریف فیملی سے ضرورت سے زیادہ نالاں ہیں، ان سے مکالمے کی اشد ضرورت ہے۔ وزارتِ خارجہ کیلئے ایک تیسری توجہ طلب اہم جگہ اندرون و بیرونِ ملک و مقبوضہ کشمیر میں رنج و الم اور جمہوری ثمرات کے متلاشی کشمیری ہیں!
ماضی میں عرصہ دراز تک وزارتِ خارجہ کا قلم دان میاں نواز شریف نے اپنے پاس بھی رکھا، یہاں تک کہ بےنظیر کو پہلی دفعہ 1988میں وزیر خارجہ صاحبزادہ یعقوب کی شکل میں باقاعدہ اسٹیبلشمنٹ سے ملا جو ایک اسٹرٹیجک مانگ کہی جا سکتی ہے۔ اور آج ایک وفاقی وزیر اور ایک وزیر مملکت قلم دان تھامے ہوئے ہیں جنہیں تفویض کار سے کام لینا ہوگا کہ کون آغا شاہی اور کون ذوالفقار علی بھٹو پر تحقیق کرے گا، بہت سادہ سی بات کہ ماہر ڈپلومیٹس سے کنسیپٹ پیپرز تیار کروائیں۔ ملیحہ لودھی، سردار مسعود خان، حسین حقانی، شیری رحمٰن، اعزاز احمد چوہدری، خورشید قصوری، سردار احمد علی، عابدہ حسین، طارق فاطمی وغیرہ جیسے سینئرز کی ماہرانہ فکر سے استفادہ کریں۔ اہم باتوں میں یہ بھی ضروری ہے کہ قابلِ قدر اوورسیز پاکستانیوں سے ڈائیلاگ کی ضرورت ہے کہ ان کیلئے قومی و صوبائی اسمبلی اور سینیٹ میں مخصوص نشستیں بہتر ہیں یا ووٹ کا حق؟
میں اکثر ٹاک شوز اور کالموں میں عرض کرتا ہوں کہ ہم بھارتی لابنگ کے خلاف اور امور کشمیر کے حوالے سے وزارتِ خارجہ کا ایک وزیر مملکت کیوں لانچنہیں کرتے؟ آج گر ایک وفاقی وزیر ہیں اور وزیر مملکت بھی سو امور احسن انداز بانٹے بھی تو جا سکتے ہیں۔ یہ بھی لازم ہے کہ امریکہ اور چائنہ، ایران اور سعودیہ کو اعتماد اور اعزاز کے ساتھ متوازی لے کر چلا جائے، روس، ترکی اور ملائیشیا سے تجارتی و اقتصادی رشتے میں مزید گہرائی پیدا کرنےکی ضرورت ہے۔
منشاتھی مگر آج کے کالم میں یہ بحث نہیں سمیٹ پاؤں گا کہ ان نازک حالات میں بلاول بھٹو کو وزارتِ خارجہ لینی چاہئے تھی یا نہیں؟ ( ان شاء اللہ اگلے کالم میں) ذہن نشیں رہے، ذوالفقار علی بھٹو، جنرل یحیٰی، محمد علی بوگرہ، فیروز خان نون اور فاروق لغاری نے بھی یہ ذمہ داری نبھائی! جو بھی ہو یا ہوا، اب بانی پاکستان کے مشن کے مطابق پاکستان کو ایک متحرک، ترقی پسند، اعتدال پسند اور جمہوری اسلامی ملک کے طور پر فروغ دینا فرض ہے۔ ہماری خارجہ پالیسی سبھی اقوام کے ساتھ دوستی اور خیر سگالی پر مبنی ہوگی تو کامیابی قدم چومے گی!
موجودہ اپوزیشن، ماضی میں حکومت ہوتے ہوئے مطلوبہ خارجہ اہداف نہ پا سکی، جانے ناتجربہ کاری تھی یا کوئی پالیسی ایرر کہ اپنی خارجی و داخلی کامیابیوں کو سامنے لانے کے بجائے سارا زور لیٹر گیٹ پر لگا ڈالا، جو غیر جانبدار حلقوں کیلئے ناقابل قبول ٹھہرا!
ایک بات پر راقم حیران ہے کہ ہمارے ڈپلومیٹس اور خارجی قیادت عالمی اداروں کو گاہے گاہے اصلی ڈیٹا اور حقائق فراہم کیوں نہیں کر پاتی ،یہ تساہل پسندی کیوں ہے کہ آئے دن سروے رپورٹس میں ہماری حالت کو بگاڑ کا استعارہ بنا کر پیش کیا جاتا ہے، حالانکہ ہر معاملے میں پاکستان کا گراف بہت نیچے ہو ایسا ہرگز نہیں ہے، نامکمل ڈیٹا کی بنیاد پر کبھی ہمارے پاسپورٹ تو کبھی عدلیہ کو عالمی رینکنگ میں رگیدا جاتا ہے۔ وہ اکثر نامکمل شماریات کو بنیاد بناتے ہیں۔ بین الاقوامی اداروں کو کس ’’خوبصورت‘‘ انداز میں اعداد و شمار پیش کرنے ہیں، کوئی پنجاب کے ’’جملہ‘‘ وائس چانسلرز سے پوچھے، بات بن جائے گی!
وقت مختصر ہے یا نہیں، اس سوچ میں وقت ضائع کرنے کے بجائے بلاول بھٹو کو چند بنیادی امور کیلئے لنگوٹ کسنا ہوگا، کہیں خشت ِاول کی ضرورت ہے، تو کہیں اعتماد کی اور کہیں بیک ہک، ہولڈ اور ہٹ پالیسی کی: (1) بھارت کے مقابل (2) ایران اعتماد پر (3) افغان صورتِ حال (4) روسی غیر جانبداری (5) سعودی لیگیسی (6) چائنہ پلاننگ، اور (7) متوازن امریکی دوطرفہ تعلقات جیسے امور پر ٹیم ورک اور قائدانہ فہم و فراست کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔ امپورٹ ایکسپورٹ کے دروازے اس گلوبل ویلیج میں کبھی بند نہیں ہوتے سو نئے ایونیو کو دریافت اور پرانوں کو بحال کرنا بھی اولین ترجیحات کا لازمی حصہ ہونا ضروری ہے کہ گلشن کا کاروبار چلے، اور گلشن کے کاروبار کیلئے لازم ہے (1) ریاست میں سوشل ڈویلپمنٹ کے دریچے کھلیں (2) عام شہری کے رہن سہن کے معیار میں کوالٹی و کوانٹٹی کا صحت، تعلیم اور نیوٹریشن میں عملاً نظر آنا بھی ضروری ہے اور (3) گڈ گورننس جیسی چیزیں خارجہ پالیسی میں لازمی ہوں۔ یہی نہیں ہائیر ایجوکیشن کمیشن، لیبر ونگ، سائنس و ٹیکنالوجی کی وزارت، سی پیک کی تکمیل، جوہری توانائی کی معاشی و معاشرتی و دفاعی مثبت پیشرفت، تعلیمی اسکالرشپس، انرجی سیکٹر وغیرہ وزارت خارجہ کے وہ بہن بھائی ہیں جو معاونت اور نشوونما کیلئے ہمیشہ وزارتِ خارجہ سے امیدیں وابستہ کئے ہوتے ہیں۔ یہ بھی ضروری ہے کہ ہمارے سفیر جنگی بنیادوں پر برآمدات، تحقیق، اور باہمی مفاد کے باب میں پل اور رابطہ کاری پروفیشنل فریضہ ادا کرنے میں سستی نہ کریں اس کیلئے حکومت کو سیاسی لنکس کو بالائے طاق رکھتے ہوئے باصلاحیت اور محب وطن ڈپلومیٹس سے استفادہ کرنا ہوگا، جن کی کمی بہرحال نہیں مگر کوآرڈی نیشن، آرگنائزیشن اور کوآپریشن کا فقدان بہرحال ہے، سبز پاسپورٹ کو عزت دلوانے میں جتنا وزارتِ خارجہ کا کردار ہے اتنا ہی فرض عام شہری کا بھی ہے!
بلاول بھٹو کو سوچنا ہوگا ان کی آج کی حکومتی ذمہ داری اس کا اچھا یا برا مستقبل تراشنے جا رہی ہے، اور اسے اپنی اسٹیٹس مین والی صلاحیتوں کو سامنے لاتے ہوئے خارجی امور میں قومی مفادات، اعتماد، واضح حکمت عملی، جامعیت، زودفہمی، قوت فیصلہ، نُکتَہ آفرینی، مستقل مزاجی اور نُکتَہ آرائی سے کام لینا ہوگا۔ بلاول بھٹو کو یہ اعزاز تو بہرحال حاصل ہے کہ اس کے پاس اس کا ایک تعارف ہے جو اس سے پہلے بارڈر پار کرجاتا ہے لیکن بھارتی و روسی و امریکی امور کی گتھیاں سلجھانا اتنا بھی آساں نہیں بہرکیف سفارتی حرف و سخن میں گنجلک ضرور ہے، مگر عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی!