• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان میں جب سے سرکار بدلی ہے، عمران خان کی عوامی مقبولیت بڑھ گئی ہے۔ سرکار گرانے اور عدم اعتماد کی تحریک میں سابق صدر پاکستان آصف علی زرداری کا کردار نمایاں نظر آتا ہے اور اس پر کمال یہ ہے کہ وہ اپنے اس کردار کو سازش نہیں بلکہ ایک موثر مداخلت کا نام دیتے نظر آ رہے ہیں۔ ان کی منصوبہ بندی میں کچھ تاخیر سابق وزیراعظم پاکستان میاں نواز شریف کی وجہ سے بھی ہوئی۔ میاں نواز شریف اور ان کی متوقع جانشین مریم نواز دونوں کا خیال تھا کہ عمران سرکار کو اپنا وقت پورے کرنے کا موقع دیا جائے اور اس کے بعد انتخابات میں زیادہ مشقت کی ضرورت نہ ہو گی مگر دوسری طرف شہباز شریف، بلاول بھٹو زرداری کے دل میں جگہ اور تحریک عدم اعتماد کے لیے مولانا فضل الرحمٰن کو ہم نوا بنا چکے تھے، اس معاملے میں عسکری انتظامیہ بھی غیرجانبداری کی طرف مائل نظر آئی۔

تحریک عدم اعتماد سے چند ماہ پہلے کا ذکر ہے، جنرل قمر جاوید باجوہ نے وزیراعظم پاکستان سے ملاقات کی اور فوج میں کچھ تبدیلیاں کرنے کے لیے مشاورت کی۔ ان میں نمایاں آئی ایس آئی کے لیے نئے کمانڈنٹ کا تعین کرنا تھا، شنید ہے کہ کپتان عمران خان کو جنرل قمر جاوید باجوہ کے فیصلے سے اختلاف تھا۔ جنرل قمر جاوید باجوہ نے اختلاف سے اختلاف تو نہ کیا مگر احساس دلایا کہ اس طرح کی مداخلت عسکری حلقوں کے لیے مناسب نہیں۔ پھر ایک سینئر جنرل کے مستقبل کا بھی سوال تھا، وقتی طور پر معاملہ ٹل تو گیا مگر تعلقات میں اعتماد کم ہونا شروع ہوا۔ دوسری طرف اسی دوران اپوزیشن نے بھی فوج پر تنقید دوبارہ شروع کر دی، اس میں نواز لیگ نمایاں تھی، اسی وقت امریکی دوستوں نے آصف علی زرداری کو یقین دلایا کہ اب پاکستان میں عسکری انتظامیہ عمران حکومت سے مطمئن نہیں ہے، آپ ابجمہوری نظام کے لیے اہم کردار ادا کر سکتے ہیں، ماضی قریب میں اُس وقت بلاول زرداری کی امریکی یاتراشاید اسی تناظر میں تھی۔

اس تمام منصوبہ بندی سے پہلے مولانا فضل الرحمٰن ایک لانگ مارچ کی دھمکی دے چکے تھے اور اسلام آباد میں دھرنا دینے کا اعلان بھی کر دیا گیا تھا۔ اس موقع پر عسکری انتظامیہ نے اہم اتحادی اسپیکر پنجاب اسمبلی کو آزمانے کا سوچا، وہ مولانا فضل الرحمٰن سے ملے اور ان سے بھائی چارے کا اظہار کیا اور یقین دلایا کہ وہ آنے والے دنوں میں ان کو مایوس نہیں کریں گے۔ مولانا کو بیرونِ ملک دوستوں نے بھی مشورہ دیا، ابھی لوہا گرم نہیں ہوا، کچھ دن انتظار کرنا مناسب ہوگا۔ مولانا اب انتظار میں تھے کہ ان کے ساتھ جو وعدے ہوئے ہیں، وہ کب شرمندۂ تعبیر ہوتے ہیں۔ سابق صدر آصف علی زرداری نے مولانا کو یقین دلایا کہ ان کا منصوبہ کیا ہے اور اس میں سابق وزیراعلیٰ پنجاب کا کیا کردار ہے؟ مولانا نے شہباز اسپیڈ پر اطمینان کا اظہار کیا اور یوں تحریک عدم اعتماد کا ہوم ورک مکمل ہوا۔

کپتان عمران خان کی کابینہ بھی تقسیم ہو چکی تھی، عمران خان کے غیرسرکاری مشیر مسلسل ان کو خبردار کر رہے تھے کہ ہماری خارجہ پالیسی ایسی تھی جس کی وجہ سے عمران خان کا بین الاقوامی دنیا پر ایک اچھا تاثر جا رہا تھا، فوج بھی خارجہ امور کے وزیر سے خاصی مطمئن تھی، وزیر خارجہ نے ماضی میں بھی فوج کو مایوس نہیں کیا تھا۔ بیرون ملک مہربان اور دوست جنرل قمر جاوید باجوہ کی کمانڈ سے مطمئن تھے اور جنرل باجوہ نے خطے کی موجودہ صورتحال میں بڑے اہم غیرملکی دورے بھی کیے اور پاکستانی فوج کو بہت ہی عزت اور توقیر ملی، آئی ایم ایف کو بھی حالات کے مدِنظر اپنی پالیسی پر نظرثانی کرنا پڑی۔

عمران خان کو سرکار چلانے میں مسلسل مشکلات کا سامنا تھا، ایک تو نوکر شاہی ان سے مطمئن نہ تھی پھر ایوانِ وزیراعظم میں ان کے سیکرٹری اعظم خان کے اقدامات دوستوں کے لیے پسندیدہ نہ تھے۔ اعظم خان نے یقین دلا رکھا تھا کہ وہ عسکری حلقوں کی طرف سے بےفکر ہو جائیں اور کپتان بےفکر ہو گئے۔ میرا خیال ہے کہ اعظم خان کو پتہ چل گیا تھا کہ عمران خان کی قسمت میں پانچ سال پورے کرنا نہیں ہے۔ اعظم خان نے کوشش کی کہ کابینہ میں مشکوک لوگوں کو نظرانداز کیا جائے مگر وزیر قانون سب کو ہی مات دے گئے اور انہوں نے کپتان کی نائو میں شگاف کیا۔ اعظم خان نے کمال مہارت سے اپنے مستقبل کو محفوظ بنا لیا اور عمران خان کی مرضی سے بیرونِ ملک اعلیٰ عالمی ادارے میں اپنی نوکری پکی کر لی، بس امریکہ نے ایک ہی وعدہ پورا کیا اور کمال کیا۔

کپتان عمران خان نے عدلیہ سے بھی غیرضروری جنگ کا آغاز کیا۔ سپریم کورٹ کے ایک جج پر الزام تراشی کی گئی اور ان کے خلاف صدر پاکستان سے مقدمہ بنوا دیا گیا جس سے بدگمانی اور بداعتمادی میں اضافہ ہوا۔ اس وقت کے چیف جسٹس نے عمران خان کو مشورہ دیا کہ آپ ان اقدامات کے بارے میں تحقیق کریں، پھر الزام لگائیں، عمران خان ان سے متفق تھا اور کچھ کوشش بھی ہوئی مگر سب کچھ تاخیر سے ہوا۔ سپریم کورٹ کے جج صاحبان کو پریشانی تھی کہ کپتان عمران خان کے ان اقدامات کی وجہ سے انصاف میں تاخیر کا دورانیہ اور زیادہ ہو سکتا ہے، انہوں نے کمال دانشمندی سے برادر جج کا مقدمہ سنا اور مناسب فیصلہ بھی دیا۔ ایسی گھمبیر سیاسی صورتحال میں سابق وزیراعظم عمران خان کا دورہ روس کا اعلان ہوا۔ دوستوں کا خیال تھا کہ یہ مناسب وقت نہیں، اُسی وقت روس نے یوکرین پر حملہ کر دیا اور امریکہ نے روسی اقدام کی شدت سے مخالفت کی اور خیال تھا کہ جنگ کی وجہ سے روس اس دورے کو موخر کر دے گا مگر ایسا نہ ہوا۔ عمران خان روس روانہ ہو گئے۔ یہ سب ہمارے دوست اور مہربان ملک کے لیے ناقابلِ یقین اور ناقابلِ برداشت تھا۔ پھر فیصلہ آیا کہ دوستوں کی مدد کرو اور عمران کو بےبس کرو۔ عسکری انتظامیہ نے بھی اپنی غیرجانبداری کا یقین دلایا اور پھر ایک بڑے حملے کا آغاز ہوا۔ دشمن دوست بنے، قلعہ فتح ہوا، جمہوریت کو بچا تو لیا گیا مگر جمہوریت قابلِ اعتبار نہیں کیونکہ اس کو دوست دشمن کی تمیز نہیں، اصل کھیل تو ابھی شروع ہوا ہے، دیکھنا یہ ہے کہ یہ کھیل کتنا عرصہ چلتا ہے؟

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس

ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین