ایڈز ایک مہلک، جان لیوا مرض ہے، جوایک مخصوص وا ئرس ایچ آئی وی یعنی ہیومن امینوڈیفی شینسی وائرس (HIV:Human Immunodeficiency Virus)سے پھیلتا ہے۔ ہمارے جسم کا دفاعی نظام اللہ تعالیٰ کا ایک بہترین انعام ہے کہ ِاسی کی بدولت ہم ہر طرح کے جراثیم سے محفوظ رہتے ہیں، مگربدقسمتی سے ایچ آئی وی ہمارے مدافعتی نظام ہی پر حملہ آور ہوکر اُسے اس قدرکم زور کردیتا ہے کہ ایک وقت آتا ہے، وہ بالکل ناکارہ ہوجاتا ہےاورجسم مستقل بنیادوں پر بیرونی دشمنوں کے رحم و کرم پرآجاتا ہے۔ پاکستان میں مَرد، خواتین کی نسبت ایچ آئی وی انفیکشن سے زیادہ متاثر ہیں اور متاثر ہونے والوں کی زیادہ تر تعداد 20 سے 44 سال کی عُمرکے افراد پر مشتمل ہے۔
دراصل یہ وائرس خون کے سفید خلیات کو ناکارہ یا ہلاک کرتا ہے،جس کے نتیجے میں مریض ایڈز کا شکار ہوتا ہے۔ جسم میں جب ان خلیات کی ہلاکت کا عمل شروع ہوتا ہے، تو ابتدا میں مریض بظاہر صحت مند نظر آتا ہے، مگر اندر ہی اندر جسم کا دفاعی نظام بے اثر ہورہا ہوتا ہے اور یہ صورتِ حال کافی عرصے تک برقرار رہتی ہے۔ عموماً وائرس کے حملہ آور ہونے کے دو سے دس سال کے اندر یا اس سے بھی زائد عرصے میں ایڈز مریض کو مکمل طور پر اپنا شکار بناتا ہے۔ اور وائرس جسم میں داخل ہونے کی وجوہ میں سرِ فہرست غیر جنسی تعلقات، باڈی فلیوڈز اور متاثرہ ماں ہیں (جونومولود میں وائرس منتقل کرنے کا سبب بنتی ہے)۔
دیگر اسباب میں خون کی غیر محفوظ منتقلی، غیر مطہرآلاتِ جرّاحی، سرنجز کا ایک سے زائد بار استعمال اور جِلد پر نقش ونگار ( ٹیٹوز) بنوانا وغیرہ شامل ہیں۔ اگر علامات کی بات کی جائے، تو گرچہ اس کی کچھ مخصوص علامات نہیں، لیکن ایک ماہ سے زائد عرصے تک بخار، اسہال، بھوک نہ لگنا، وزن میں کمی، دائمی کھانسی، نمونیا، جسم پر بڑے بڑے سُرخ داغ، ایسا فُلو یا انفلوئنزا، جو مہینوں تک ٹھیک نہ ہو اور جسم کے مختلف حصّوں میں گلٹیاں ظاہر ہونے جیسی علامات ظاہر ہوسکتی ہیں۔
اگر کسی فرد میں ان میں سے کوئی علامت موجود ہو، تو فوری طور پر کسی مستند معالج یا کسی بھی ایچ آئی وی کلینک سے ر ابطہ کیا جائے۔ ایڈز کی تشخیص کے لیے فوری طور پر خون کا ٹیسٹ کیا جاتاہے، گرچہ کام یاب علاج کے ضمن میں تاحال کوئی ویکسین دریافت نہیں ہوسکی، تاہم ایسی جدید اور مؤثر ادویہ دستیاب ہیں، جن کے استعمال سے جسم میں موجود وائرس کی افزایش کا عمل سُست پڑجاتا ہے۔ سو، علاج معالجہ اور احتیاطی تدابیر پر عمل بہرحال ناگزیر ہے۔
مرض سے تحفّظ کے لیے جو احتیاطی اقدامات اختیار کیے جاسکتے ہیں، اُن میں جنسی بے راہ روی سے اجتناب سرِ فہرست ہے۔ ہمیشہ اپنے شریکِ حیات تک محدود رہیں۔ خون کا عطیہ لینے سے قبل ایچ آئی وی اسکریننگ کروائیں، حجام سے ہمیشہ نیا بلیڈ استعمال کرنے پر اصرار کیاجائے۔ اِسی طرح انجیکشن لگوانے کی صُورت میں بھی ہمیشہ نئی سرنج کا استعمال لازم ہے۔ اس کے علاوہ ا گر خدانخواستہ خاندان، محلّے یا گاؤں کے کسی فرد میں ایچ آئی وی/ایڈز تشخیص ہوجائے، تو مریض سے وابستہ تمام افراد بھی لازماً اپنا ٹیسٹ کروائیں۔ مثبت طرزِ زندگی اختیار کریں، متوازن غذا کا استعمال کیا جائے، مکمل نیند لیں اور تمباکونوشی سےاجتناب برتیں، تاکہ دفاعی نظام مضبوط رہے۔
ہمارے یہاں ایڈز سے متعلق کئی توہمات اور مفروضات عام ہیں، جن کی وجہ سے ہمارا رویّہ ایڈز کےمریضوں سے اچھا نہیں ہوتا۔ انہیں نفرت وحقارت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے، حتیٰ کہ ان سے ملاقات سے بھی گریز کیاجاتا ہے۔ یاد رکھیں، ایڈز کا مرض ہاتھ ملانے یا گلے ملنے سے پھیلتا ہے، نہ ساتھ کھانے، پینے اور مریض کے کپڑے استعمال کرنے سے۔ اس مرض میں مبتلا مریضوں کی تیمارداری کی جائے اور ان سےمعمول کے تعلقات استوار رکھیں۔ ان سےخندہ پیشانی سے پیش آئیں کہ یہ ہماری نفرت کے نہیں، توجّہ اور ہم دردی کے مستحق ہیں۔
یہ امر افسوس ناک ہے کہ ایچ آئی وی کی روک تھام ہماری ترجیحات میں شامل نہیں، جس کے نتیجے میں ایڈز شعبۂ صحت کے لیے ایک چیلنج بنتا جارہا ہے۔ حکومت کو اس کی روک تھام کے لیے فوری طور پر نہ صرف ٹھوس اقدامات کرنے چاہئیں، بلکہ مرض کی تشخیص و علاج کے لیے ہر شہر میں مکمل سہولتیں بھی فراہم کی جائیں۔ (مضمون نگار، لیاقت یونی ورسٹی اسپتال، حیدرآباد کے شعبہ گیسٹروانٹرولوجی سے بطور سینئرمیڈیکل آفیسر وابستہ ہیں)