• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کچھ واقعات ہمیں حیران، پریشان اور حواس باختہ چھوڑ دیتے ہیں۔ سرکاری اور غیر سرکاری ذرائع ہمیں بھاشن دیتے رہتے ہیں کہ کچھ جاننا، معلوم کرنا اور واقعات کو سمجھنا ہمارا بنیادی حق ہے۔ کوئی مائی کا لال ہمیں ہمارے حق سے محروم نہیں کرسکتا۔ مگر اس کے برعکس ایک نہیں بلکہ انیک مائی کے لال ہمیں ہمارے حق سے محروم کردیتے ہیں۔ مائی کے لالوں کو ہمیں ہمارے حق سے محروم کرنے سےکوئی روک نہیں سکتا۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ مائی کے لال ٹارزن ہیں اور کوئی ان کو لوگوں کو ان کے بنیادی حق سے محروم رکھنے سے رو ک نہیں سکتا۔ ایسا نہیں ہے۔ پاکستان میں اینٹ کا جواب پتھر سے دینے و الوں کی کمی نہیں ہے۔ مسئلہ یوں ہے کہ پاکستان میں اینٹ مارنے و الوں کو اینٹ نہیں ملتی اور جواباً اینٹ کا جواب پتھر سے دینے و الوں کو پتھر نہیں ملتے۔ پاکستان میں نہلوں پہ دہلوں کی بھی کمی نہیں ہے مگر کیا کیجئے کہ نہلوں اور دہلوں کا آپس میں ربط نہیں ہوتا۔ لہٰذا مائی کے غائب اور الوپ لالوں کوکوئی روک ٹوک نہیں سکتا۔ وہ پس پردہ ہمیں ہمارے حقوق، خاص طور پر بنیادی حقوق سے محروم کرتے رہتے ہیں۔ آپ حقوق غصب کرنے والے مائی کے لالوں کو دیکھ نہیں سکتے۔ وہ لوگ آپ کے اردگرد ہوتے ہیں مگر دکھائی نہیں دیتے۔

اس کتھا سے میری مراد ہے کہ غیر معمولی حقائق کی تہہ تک پہنچنے کے لیے بظاہر مائی کے لال آپ کا راستہ نہیں روکتے۔ آپ جاننے اور سمجھنے کے لیے واقعات میں ملوث قیادت تک پہنچ نہیں سکتے۔ یہ طے ہے کہ بڑے واقعات کسی قیادت کے بغیر سرزد نہیں ہوتے اور قیادت تک پہنچنا آپ کے اور میرے بس کی بات نہیں ہے۔ مثلاً پچھلے دنوں ایک خاتون خودکش حملہ آور نے ایک وین کو دھماکے سے پاش پاش کردیا۔ وین میں تین چار چینی یعنی Chinese اساتذہ سوار تھے۔ سب کے سب مارے گئے اور ڈرائیور چونکہ پاکستانی تھا، وہ شہید ہوا۔ چائنیز اساتذہ کراچی یونیورسٹی میں قائم Confucious Centre میں پاکستانی طلبہ کو چائنیز زبان سکھاتے تھے۔ چند برسوں بعد پاکستان میں آنے والا دور انگریزی کے ساتھ ساتھ چینی زبان کا دور ہوگا۔ چینی زبان میں مہارت رکھنے والے پاکستانیوں کو چین میں اعلیٰ تعلیم اور ہنرمندی سیکھنے میں آسانی ہوتی ہے۔ اس کام کے لیے کراچی یونیورسٹی نے چینی عالم اور فلسفی کے نام سے کنفیوشس سینٹر قائم کر رکھا ہے۔ مجھے یہ اعزاز حاصل ہے کہ بوہرہ پیر کے قریب پرنسیز اسٹریٹ پر مرہٹا اسکول میں قائم کراچی یونیورسٹی کے آرٹس فیکلٹی کے ان طلبا کے پہلےگروپ میں شامل تھا جنہیں زیر تعمیر کراچی یونیورسٹی کے نئے کیمپس میں تعمیر شدہ آرٹس بلاک میں شفٹ کیا گیاتھا۔ ہمارا گروپ طلبا کا پہلا گروپ تھا جنہوں نے شہر سے تب بارہ میل دور کراچی یونیورسٹی کے نئے کیمپس میں قدم رکھا تھا۔ سن تھا انیس سو اٹھاون، انسٹھ۔ تب جنگ اخبار میں ایک صاحب ہفتہ وار کالم لکھتے تھے، ’’شہر سے بارہ میل پرے‘‘ مجھے ان کا نام یاد نہیں آرہا۔ مادر علمی سے وابستہ انیک یادیں ہیں میرے پاس۔

پچھلے دنوں کراچی یونیورسٹی کے کیمپس پر چائنیز اساتذہ کے بہیمانہ قتل کے واقعہ کا مجھے بہت دکھ ہے۔ مجھے نہیں یاد پڑتاکہ کراچی یونیورسٹی کی تاریخ میں اساتذہ کو اس طرح موت کے گھاٹ اتاردیا گیا ہو۔میں روح تک کانپ گیا ہوں۔ جس معاشرے میں استاد کی عزت نہ ہو، وہ معاشرہ بڑا بدنصیب معاشرہ ہوتاہے، ایسے معاشرے میں پھول بوئیں تو زمین سے کانٹے نکل آتے ہیں۔ ایسا معاشرہ ذہنی طور پر بیمار اور اپاہج بن جاتا ہے۔ لوگ ایسے معاشرے میں نفسا نفسی کے عالم میں جیتے ہیں اور نفسا نفسی کے عالم میں مر جاتے ہیں۔ اس واقعہ پر ٹیلی وژن پر دکھائے اور سنائے جانے والے تبصروں اور اخبارات کے تجزیوں سے پتہ چلا ہے کہ اس ہولناک واردات کا ماسٹر مائنڈ مجید بریگیڈ ہے اور مجید بریگیڈ کا تعلق بلوچ لبریشن آرمی سے ہے۔ مائی کے لالوں سے مجید بریگیڈ اور بی ایل اے کا پتہ معلوم کرنےکی کوشش کی، مگر بے سود۔ پتہ تو تب بتاتے جب مائی کے لال ملتے۔ مائی کے لال کبھی نہیں ملتے۔ مگر آس پاس آپ ان کی موجودگی محسوس کرسکتے ہیں۔ میں مجید اور بی ایل اے سے کچھ پوچھنا چاہتا ہوں۔ میں کچھ جاننا چاہتا ہوں، کچھ سمجھنا چاہتا ہوں۔ چائنیز اساتذہ کوموت کے گھاٹ اتارنے سے مجید بریگیڈ اور بی ایل اے نے کیا حاصل کرلیا ہے؟ کچھ تو پتہ چلے۔ مقصد کے بغیر کوئی کچھ نہیں کرتا۔ یہ عنصر انسان کی فطرت میں شامل ہوتا ہے۔ میں جاننا چاہتا ہوں کہ اساتذہ کو موت کے گھاٹ اتارنے و الوں کا مقصد کیا تھا؟ مادر علمی کی زمین پر اساتذہ کا خون بہانے سے مجید اور بی ایل اے کو کیا ملا ہے؟ کیا ان کو گوادر مل گیا ہے؟ سونے کی کانیں مل گئی ہیں؟ سی پیک CPEC کا بستر گول ہوگیا ہے؟ کچھ تو پتہ چلے۔ کوئی بے مقصد کسی کی جان نہیں لیتا، کیا اساتذہ کے قتل کے بعد بلوچ سردار بلوچستان کے عام آدمی کے لیے اسکول، کالج، یونیورسٹیاں اور ہنر سکھانے کے لیے ادارے کھولنے اور کھلوانے پر رضامند ہوگئے ہیں؟ بی ایل اے والےکس سے بلوچستان کو آزاد کرانا چاہتے ہیں؟ بلوچستان کو پہلے آپ سرداروں سے آزاد کروائیں۔ سرداروں نے آپ کو مفلسی اور بیچارگی میں قید رکھا ہوا ہے۔ وہ اپنے ووٹ بینک کو شعور سے محروم رکھنا چاہتے ہیں۔ اساتذہ کو ایک تعلیمی ادارے میں موت کے گھاٹ اتار کر آپ نے اپنے مقاصد حاصل کرلیے ہیں؟ کوئی تو کچھ بتلائے!

تازہ ترین