• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

دنیا کا ہر صاحبِ ذوق انسان شاعری پسند کرتاہے اس کی وجہ یہ ہے کہ شاعری میں فصاحت کی انتہا ہوتی ہے۔ شاعر ایک مصرعے اور ایک شعر میں وہ بات بیان کردیتاہے، جو انسان کی پوری زندگی کا احاطہ کیے ہوتی ہے۔

میری ساری زندگی کو بے ثمر اس نے کیا

عمر میری تھی مگر اس کو بسر اس نے کیا

یہ الفاظ سنتے ہی اس دنیا کے بے بس اور کمزور انسان بلک اٹھتے ہیں۔ بے شمار بیویاں اپنے شوہر اور بے شمار شوہر اپنی بیویوں کے بارے میں ہوبہو یہی جذبات رکھتے ہیں۔

فصاحت کیا ہے ؟ کم از کم الفاظ میں بہت بڑی بات کو بیان کر دینا۔ دنیا میں آج تک جتنے بھی شعر کہے گئے‘ ان کا ایک بڑا حصہ عورت کی خوبصورتی پہ مرتکز ہے۔محبوب کا چہرہ زندگی کی سب سے قیمتی اور نادر چیز بن جاتاہے۔

تیری صورت سے کسی کی نہیں ملتی صورت

ہم جہاں میں تری تصویر لیے پھرتے ہیں

رات اور چاند‘ ہر چیز میں شاعر کو محبوب کی جھلک نظر آتی ہے؛

رات پھیلی ہے تیرے سرمئی آنچل کی طرح

چاند نکلا ہے تجھے ڈھونڈنے پاگل کی طرح

دوسری طرف خدا جہاں ان چیزوں کا ذکر کرتاہے‘ جن میں خوبصورتی کو سجا دیا گیا ہے تو وہاں عورت کے ساتھ اولاد کاذکرآتاہے۔ چھ ماہ سے تین سال کے بچّے میں اس قدر خوبصورتی ہوتی ہے جو بیان سے باہر ہے۔ انسان اس میں کھو سا جاتاہے۔یہ اولاد اس کی زندگی کا سب سے قیمتی سرمایہ بن جاتی ہے۔ اسے آسودہ رکھنے کے لیے وہ دن رات محنت کرتاہے۔ پھر جیسے جیسے وقت گزرتاہے‘ بچّے کی خوبصورتی کم ہوتی چلی جاتی ہے۔ اس کے ساتھ ہی اسے ملنے والے لاڈ پیار میں کمی واقع ہو نے لگتی ہے۔شیر خوار بچوں میں آخری درجے کی خوبصورتی اس لیے پیدا کی گئی کہ ماں باپ ان کی حفاظت کو اپنی زندگی کا سب سے بڑا مقصد بنا لیں۔ یوں انسان اور حتیٰ کہ جانوروں کی نسل بھی کامیابی سے آگے بڑھتی رہتی ہے۔

خوبصورت عورت کو پانے کے لیے لوگوں نے اپنی جانیں نچھاور کیں۔بڑے بڑے لوگ اپنے محبوب کے در پہ بھکاری بن گئے۔ جاگیروں کے مالک محبوب کے جانور سنبھالنے لگے۔ خوبصورت عورتوں کی خاطر کئی جنگیں ہوئیں اور لاکھوں افراد قتل ہو گئے۔ بے شمارنامور افراد خواتین کو ہراساں کرنے کے الزام میں رسوا ہوئے۔ امریکی صدر بل کلنٹن اور سی آئی اے کے چیف جنرل ڈیوڈ پیٹریاس کو اپنے معاشقوں کے سنگین نتائج بھگتنا پڑے۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ دنیا کے سب سے طاقتور ملک کا صدر اور دنیا کی سب سے طاقتور خفیہ ایجنسی کا چیف بھی عورت کی اس خوبصورتی کے مقابل بے بس ہو چکے تھے۔

لیکن اولاد اور عورت کی یہ ساری خوبصورتیاں جھوٹی ہیں۔ یہاگر جھوٹی نہ ہوتیں تو بلی ایک دن اچانک اپنے بچے چھوڑ کر کیوں بھاگ جاتی ہے۔ ٹائیگریس ایک دن اچانک اپنے بچوں سے جگہ (Territory) کی ملکیت پہ کیوں خوں ریز جنگ پہ اتر آتی ہے۔ یہ ساری خوبصورتیاں مصنوعی طور پر نازل کی گئی ہیں انسان پراور تمام جانداروں پر۔ جس طرح کمپیوٹر صفر اور ایک کی زبان سمجھتا ہے، اسی طرح ہمارے دماغوں پر بھی کچھ ہدایات لکھی ہوئی ہیں۔ ان ہدایات کو اگربدل دیا جائے تو آپ کو اپنی اولاد مکروہ لگنے لگے اور کاکروچ میں خوبصورتی نظر آئے۔ ایک بھینسے کو کالی اور موٹی بھینس کیوں اتنی ہی خوبصورت لگتی ہے، جیسے انسان کو ایک حسین عورت۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ خوبصورتی اس چیز میں نہیں ہے‘ جسے ہم دیکھ رہے ہیں۔ خوبصورتی دیکھنے والے کی آنکھ میں نہیں بلکہ دیکھنے والے کے دماغ میں ہوتی ہے۔ خوبصورتی کے معیار ہمارے دماغوں میں تخلیق کیے گئے ہیں۔ ان معیارات میں اگر تبدیلی کر دی جائے تو آپ کو کبھی عورت اور اولاد خوبصورت نہ لگے۔معیار تبدیل کر دیا جائے تو محبوب کی زلف کی جگہ آپ کاکروچ کی دو انٹینا نما مونچھوں کی تعریف کرتے ہوئے پائے جاتے۔ کاکروچ کے سرخ پروں کو شفق سے تشبیہ دی جاتی۔

اب سنیں قرآن کی فصاحت۔ اللہ کہتاہے ’’ سجا دی گئی لوگوں کے لیے شہوات کی محبت‘ عورت‘ اولاد‘ سونے چاندی کے ڈھیر‘ گھوڑے‘ جانور اور کھیتی۔ اور اللہ کے پاس ان سے بہتر بدلہ ہے‘‘۔

اس سے زیادہ فصاحت اور ممکن ہی نہیں۔ اصل مسئلہ یہی ہے کہ کچھ چیزیں سجا دی گئی ہیں۔ انسان بے بس ہے۔ انسان جب مزاحمت کی بجائے خود کو ان سجائی گئی چیزوں کے حوالے کر دیتاہے تو وہ نیم پاگل ساہو جاتا ہے۔ آپ کا کیا خیال ہے کہ یہ جو سیاستدان پارٹیاں بدلتے ہوئے، لوٹے کہلاتے ہوئے دن رات بے عزت ہو رہے اور دوسروں کو بے عزت کر رہے ہیں، یہ نارمل ہیں ؟ کل ایک شخص اعلان کررہا تھا کہ میں اسے گلیوں میں گھسیٹوں گا اور آج اسی شخص کو سر آنکھوں پہ بٹھا رہا ہے، یہ نارمل ہے ؟ یہ شہوات کی محبت میں دیوانے ہو چکے ہیں۔ انسان جب شہوات کی محبت میں ایک خاص حد سے بڑھ جائے تو پھر وہ ایک نشئی ہو جاتا ہے۔ اسے نشے کے علاوہ اور کسی چیز سے غرض نہیں ہوتی۔ دولت کی طلب نشہ ہی تو ہے۔ میں زندگی میں پانچ سو بوری گندم کھا سکتا ہوں لیکن میں پانچ کروڑ بوریاں اکھٹی کرکے بھی مزید کے پیچھے بھاگ رہا ہوں تو کیا یہ پاگل پن نہیں ؟

ان سب چیزوں میں پھندے ہیں، ٹریپ ہیں۔ مخالف صنف کی محبت شاید مصنوعی طور پر انسان کے دماغ میں تخلیق کی گئی ہے تاکہ نسل بڑھتی رہے۔ ور نہ تو نفس اپنے آپ ہی سے محبت کرتاہے۔ جب یہ محبتیں اٹھا لی جائیں گی تو انسان کہے گا کہ کون سا محبوب‘ کون سی اولاد اور کون سے ماں باپ۔ اس وقت نفس میں صرف اپنی ہی محبت باقی رہ جائے گی۔ کیسا خوفناک ہوگا وہ وقت!

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس

ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین