• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وفد پاکستان سے اسرائیل نہیں واشنگٹن سے تل ابیب گیا، پاکستانی صحافی

کراچی (ٹی وی رپورٹ)جیو کے پروگرام ’’آپس کی بات ‘‘ میں اینکر منیب فاروق کے سوال پر کہ آپ کے وفد کا اسرائیل جانے کا کیا مقصد تھا جواب میں وفد میں شامل احمد قریشی نے کہا کہ ہم مذہبی ہم آہنگی اور مسلم یہودی مفاہت کے لئے اسرائیل گئے.

وفدپاکستان سے اسرائیل نہیں گیا واشنگٹن سے تل ابیب گیا، اجازت باقاعدہ حکومت پاکستان نے سابقہ حکومت نے یعنی کہ سابق وزیر اعظم عمران خان کی حکومت نے دی.


اینکر کے سوال کہ آپ دیکھتی ہیں کہ اسرائیل فلسطینیوں کے ساتھ کیا کر رہا ہے جواب میں انیلہ علی نے کہا کہ دونوں سائیڈ مل کر اپنا مسئلہ حل کرسکتے ہیں،اینکر کے سوال کہ آپ کو وہاں امن بھی نظر آیا ہوگا جواب میں احمد قریشی نے کہا کہ فلسطینی بھی بیٹھ رہے ہیں اسرائیلیوں کے ساتھ عرب بھی بیٹھ رہے ہیں.

اینکر کے سوال کہ آپ کے کیااحساسات ہیں وہاں جاکرجواب میں سمیع خان نے کہا کہ میں پاکستانی امریکن بزنس مین ہوں، میری دلچسپی اس وفد میں یہ تھی کہ جو اپنے خیالات ہیں اسرائیل کے بارے میں، یہودیوں کے بارے میں اور اس تنازع کے بارے میں، اس چیز کو آزمایا جائے .

 میزبان منیب فاورق نے اپنے تجزیئے میں کہا کہ اسرائیل کے بارے میں پاکستان کی ریاستی پالیسی ہے جو پوزیشن ہے وہ بالکل کلیئر ہے ۔میزبان منیب فاروق نے کہا کہ احمد قریشی سب سے پہلے آپ سے یہ سوال ہے اور بہت سے لوگوں کے ذہن میں یہ سوال موجود ہے اور بہت سے لوگ پوچھ بھی رہے ہیں.

 جنہوں نے کچھ اسٹوریز جو چل رہے ہیں یا سوشل میڈیا پر جو کچھ چل رہا ہے تو سب سے پہلے یہ جاننا چاہتے ہیں آپ نہ وہاں بزنس کرنے گئے نہ وہاں پر آپ کوئی نوکری کرنے گئے لیکن آپ کا وہاں جانے کا مقصد اس وفد کے ساتھ جانے کا مقصد کیا تھا آپ نے کیا حاصل کیا خاص طور پر آپ ایسے وقت میں گئے جہاں پر پہلے سے وہاں پر ابھی جس طرح آپ نے کچھ تصاویر بھی شیئر کیں اور ہمارے دیکھنے والوں کو وہ نظر بھی آرہی ہوں گی آپ مسجد اقصیٰ بھی گئے بہت کچھ وہاں پر ہوا ہے بہت کچھ ایسا ہے جو اب بھی ہو رہا ہے.

 اب اسرائیلی صدر سے بھی ملے لوگوں کے ذہن میں یہ سوال آتا ہے کہ یہ وفد اس کا مقصد کیا ہے ایک ہوتا ہے ناں ون پوائنٹ ایجنڈا اس وفد سے کیا حاصل ہوا کیا اس سے کوئی لابی ہے جو کہ اب ہو رہی ہے جس کا آپ حصہ بن رہے ہیں اور کچھ ایسا ہے کیوں کہ یہ ایک ایسی چیز ہے جس کی وجہ سے آپ پر تنقید ہونا شروع ہو گئی ہے شروع میں ڈاکٹر شیری مزاری صاحبہ نے جو کہا میں آتا ہوں اس پر بھی لیکن مقصد کیا ہے جانے کا ؟

 احمد قریشی نے کہا کہ ٹھیک ہے اچھا سوال ہے اب یہ جو وفد ہے یہ پاکستانی امریکیوں کا ہے یہ پاکستان سے وفد نہیں گیا یہ واشنگٹن سے تل ابیب گیا ہے تو یہ اول تو پاکستان سے نہیں ہے اور اس کی تفصیل جو ہے میرے ساتھ جو وفد کی ہیڈ ہیں اور جس این جی او نے اس وفد کو تشکیل دیا وہ ابھی خود بتاتی ہیں ہمارے ساتھ انیلہ علی صاحبہ بیٹھی ہیں لیکن میں آپ کو پہلے یہ بتا دوں کہ پاکستان کا جو موقف ہے.

 اسرائیل سے وہ بالکل کلیئر ہے پاکستان تعلقات اس وقت تک نہیں بنائے گا جب تک ایک آزاد فلسطینی ریاست نہیں بنتی تو یہ بات ہے اس کو نہ میں تبدیل کر سکتا ہوں نہ کوئی اوراین جی او کر سکتی ہے اور نہ ہی جو وفد یہ گیا ہے ان کا یہ مقصد ہے یہ نہیں ہے ہمارا جو آسان مقصد ہے میں تو جرنلسٹ ہوں میرا تو مڈل ایسٹ میں کوریج اور کام ہے میں کرتا رہوں گا ہر جگہ پر میرا انٹرسٹ ہے پہلے بھی ملاقاتیں اسرائیلیوں سے ہوتی رہی ہیں.

 مختلف کانفرنسوں میں ادھر ادھر میں تو اس طرح گیا لیکن وفد کا جو مقصد تھا وہ بھی آسان ہے وفد جو ہے وہ انٹر فیتھ ہارمنی مذاہب میں ہم آہنگی اور مسلم یہودی مفاہت کے لئے اس وفد کے اند ر سب سے پہلے یہ بھی بتا دوں آپ کو کہ 75سال میں پہلی دفعہ پاکستان نے جاری کیا ایک پاسپورٹ جس کے اوپر اپنے ایک شہری کو اس کی جو مذہب کے خانے میں یہودی لکھا ہے اور اسے اجازت باقاعدہ حکومت پاکستان نے سابقہ حکومت نے یعنی کہ سابقہ وزیر اعظم عمران خان کی حکومت نے باقاعدہ اجازت دی اس پاکستانی شہری کو جو یہودی پاکستانی شہری ہے کہ آپ آفیشل طور پر یہودی اپنا لکھوائیں بھی پاسپورٹ پر مذہب اور آپ اسرائیل اپنے مقدس مقامات کی زیارت کرنے جائیں تو وہ پاکستانی فیشل بن خلد ہمارے ساتھ تھے .

اس وفد کے اندر اور اس کا کریڈٹ جو ہے وہ پاکستانی امریکیوں کو جاتا ہے کہ انہوں نے مدد کی اور حکومت پاکستان کو ہمیں پاکستانیوں کو جاتا ہے ہماری ریاست کو اور سابقہ حکومت کو بھی کریڈٹ میں دے دوں گا یہاں پر کہ انہوں نے یہ پاسپورٹ جو ہے جاری کیا تو ایک یہ انٹر فیس ہارمنی ہے ۔

میزبان منیب فاروق نے کہا کہ انیلہ صاحبہ یہ بتایئے گا کہ لوگ یہ بھی جاننا چاہتے ہیں کہ کیا انٹرسٹ ہے امریکی پاکستانیوں کا امریکی نزاد پاکستانیوں کا جب آپ دیکھتے ہیں کہ اسرائیل فلسطینیوں کے ساتھ کیا کر رہا ہے آپ سارے مسجد اقصیٰ بھی گئے.

 احمد قریشی صاحب نے اس کی فوٹیج شیئر کی صبح نماز کا وقت تھا اس وقت بھی گئے کیسا محسوس ہوتا ہے جب آپ وہاں جاتے ہیں کہ یہاں پر جو فلسطینی ہیں ان کے ساتھ اتنا ظلم ہوتا ہے جب آپ اسرائیل گئے آپ اسرائیل کے صدر سے ملے تو کسی نے یہ آواز اٹھائی کسی نے یہ بات کی ان سے کہ آپ کیا کر رہے ہیں اتنے عرصے سے جب آپ انٹر فیس ہارمنی کی بات کرتے ہیں تو کبھی اس حوالے سے بھی بات ہوئی کہ یہ جو مظالم کیے جا رہے ہیں فلسطین کے ساتھ یہ بھی ختم ہونے چاہئیں ۔

انیلہ علی نے کہا کہ دیکھئے عرب اگر نہیں چاہتے کہ وہ فلسطینی لوگ ان کے لئے امن ہو اور وہ ٹیبل پر آئیں تو وہ یہ چیز کیوں کرتے ہیں اسرائیلی بھی امن چاہتے ہیں اسی لئے آپ یہ پوچھیں کہ یو اے ای اتنی تعریف کیوں کر رہا ہے اس میں وہ آگے آگے آ رہے ہیں بحرین نے ان کو جوائن کر لیا ہے دوسرے عرب ممالک کیوں کر رہے ہیں اس لئے وہ چاہتے ہیں کہ اسرائیل کو بھی مسلم ممالک جتنے آئیں گے وہ فلسطین کو بھی ٹیبل پر لائیں گی اور دونوں سائیڈ مل کر اپنا مسئلہ حل کرسکتے ہیں ۔

احمد قریشی اور منیب آپ کو میں یہ بھی بتا دوں کہ اسرائیلی جو ہیں وہ بھی تقسیم ہیں بالکل وہاں پر تقسیم ہے ہم نے ان کے پارلیمنٹ گئے ان کے اراکین پارلیمنٹ سے بات کی تو وہ لوگ بھی کہہ رہے تھے بالکل ہمارے ہاں ہر طرح کے ویو ہیں ہمارے ہاں انتہا پسندی بھی ہے ہمارے ہاں جو امن نہیں چاہتے وہ بھی ہیں جو امن چاہنے والے ہیں وہ بھی ہیں.

 فلسطینیوں کے ساتھ بیٹھ کر کام کرنے والے بھی اسرائیلی موجود ہیں وہ اسرائیلی بھی ہیں جو فلسطینیوں کے ساتھ بیٹھنا نہیں چاہتے تو انتہا پسندی ہمارے ہاں بھی ہے ہم نے خود کھل کر بات کی ان کے اراکین کے ممبرز یہ کہہ رہے تھے کہ ہمارے ہاں انتہا پسندی ہے اسرائیلی جو ہیں اور وہ امن نہیں چاہتے لیکن ہم ان کو بھی بول رہے ہیں ہم چاہتے ہیں کہ آپ بھی ہاتھ آگے بڑھائیں اور ان کو بھی نظر آئے جو ان کے انتہا پسند ہیں کہ دیکھیں یہ کام ہو سکتا ہے اور مسئلہ حل ہو سکتا ہے.

 ویسے میں آپ کو بتاؤں منیب کہ ہم جہاں جہاں گئے ہمیں فلسطین پر امن مذہب ملا ہم فلسطینی ہم ویسٹ بینک میں مغربی کنارے میں گئے ہم فلسطینی جو اسرائیل کا سب سے بڑا شہر ہے جس میں عرب مسلمان کی آبادی ہے اس کا نام ہے اناسرا وہاں پر بڑی قدیم چرچ بھی ہیں اور بہت اہم جگہ ہے ہمارے مسیحی بھائیوں کے لئے اور سب سے بڑا شہر ہے عرب آبادی کا وہاں پر اور بہت ہی اگر میں آپ کو ویڈیو سے بھی دیکھاؤں ہم وہاں پر کسی یہودی سے نہیں ملے کسی اسرائیلی سے نہیں ملے ۔

منیب فاروق کے سوال کہ آپ کو وہاں امن بھی نظر آیا ہوگا لیکن بات کر رہے ہیں پچھلے مہینے اپریل کے اندر وہاں مسجد اقصیٰ کے اندر وہاں کیا ہوا وہ بھی میرے خیال میں آپ کو اچھے سے پتہ ہوگا آپ بھی ماشاء اللہ بڑے پڑھے لکھے انسان ہیں آپ کو پتہ ہے وہاں پر کیا ہوا لیکن سوال یہ ہے کہ جن ممالک کا اگر کوئی ذکر کر رہا ہے بہت سارے ممالک تو ایسے ہیں جن کو اسرائیل کے ساتھ بارڈر جڑتے ہیں کچھ ملک ایسے ہیں .

دنیا کے اندر جو ظاہر ہی بات ہے وہ غیر مسلم ممالک سے کوئی انڈیا کے ساتھ تعلق اپنے اچھے بنا رہا ہے کوئی کشمیر کے اندر جا کر کانفرنس کر رہا ہے کوئی میڈلز دے رہا ہے انڈین پرائم منسٹر کو اور پتہ نہیں کیا کیا ایوارڈ دے رہا ہے وہ اور چیزیں ہیں لیکن سارے ممالک میں لوگ یہ سمجھنا چاہتے ہیں کہ انٹر فیتھ ہارمنی کے لئے امن کے لئے تو چلیں یہ اقدام کسی کو منا بھی سکتا ہے کوئی سوچ بھی سکتا ہے کہ انٹرفیتھ ہارمنی کے لئے ہونا چاہیے.

 پاکستان کا اینگل اس کے اندر ابھی آپ نے خود کہا وہ بڑا کلیئر ہے کہ ایک پالیسی ہے اور وہی رہے گی یہاں اس بات کو غلط پیش کیا جا رہا ہے آپ کے خیال میں یا نہیں آپ اس محنت سے نقصان پہنچا رہے ہیں پاکستان کی حکومت کو ریاست پاکستان کو کہ آپ بھی اپنے تعلقات اسرائیل کے ساتھ اچھے کریں آپ بھی اسرائیل کو تسلیم کریں کوئی ایسی محنت ہو رہی ہے یہ بڑا کوئی اہم سوال ہے لیکن مجھے پتہ ہے آپ اس کو سنبھال لیں گے ۔

 احمد قریشی نے کہا کہ یہ ہمارا کام نہیں ہے یہ حکومت پاکستان کی پولیٹیکل لیڈر شپ ہے ان کا یہ وہ ہے میں آپ کو ایک چیز بتا دوں کہ اس سے پہلے کہ پاکستان اور اسرائیل کے تعلقات کی بات کروں یا عرب ممالک کی میں آپ کو یہ بتا دوں کہ سب سے پہلے جو تعلقات ہیں اسرائیل کے ساتھ وہ فلسطینیوں کے ہیں فلسطینی جو ہیں ان سے آپس میں جو اور اسرائیلی مل کر بیٹھتے بھی ہیں روز کام کرتے ہیں ساتھ ان کا فلسطینی ریاست کی جو ریوینیو ہے جنریشن ٹیکس ہیں وہ آدھے ٹیکس اسرائیلی حکومت جمع کرتی ہے اور وہ ہر مہینے کے آخر میں جو ٹرانسفر ہوتے ہیں مطلب میرا کہنے کا مقصد یہ ہے کہ فلسطینی بھی بیٹھ رہے ہیں اسرائیلیوں کے ساتھ عرب بھی بیٹھ رہے ہیں مصری بھی بیٹھ رہے ہیں ترکی بھی بیٹھ رہے ہیں آپ کو پتہ ہے ہم پچھلے جمعے کو فجر کی نماز میں ہم وہاں گئے مسجد اقصیٰ تو وہاں پر جو سب سے زیادہ لوگ نماز پڑھنے آئے ہوئے تھے فلسطینیوں کے بعد وہ ہمارے ترک بھائی تھے خواتین تھی نوجوان تھے بچیاں تھیں بوڑھے تھے اور سب سے زیادہ پچھلے ساٹھ سالوں سے آرہے ہیں کیوں کہ ترکی اور اسرائیل کے تعلقات ہیں ۔

منیب فاروق نے کہا کہ سمیع خان صاحب آپ امریکا میں ہیں، آپ کا پاکستان سے تعلق ہے، آپ نے امریکا میں اپنا کیریئر بنایا، آپ جب اس وفد کے ساتھ گئے، آپ کی کیا feeling ہے وہاں جاکر.

 سمیع خان نے کہا کہ میں پاکستانی امریکن بزنس مین ہوں، میری دلچسپی اس وفد میں یہ تھی کہ جو اپنے خیالات ہیں اسرائیل کے بارے میں، یہودیوں کے بارے میں اور اس تنازع کے بارے میں، اس چیز کو آزمایا جائے جاکر، مل کر، بغیر کسی ایجنڈا کے، بغیر کسی گورنمنٹ انوالومنٹ کے، یہ جو آرگنائزیشن ہے انیلہ علی کی اس کی کافی پہنچ ہے امریکن سینیٹ کے ساتھ، کانگریس کے ساتھ، صرف اس مقصد کیلئے کہ یہ ایک ملٹی فیتھ پاکستانی امیگرنٹ کیلئے کس طرح ہم enhance کرسکیں، اسرائیل جانے کا یہ مقصد تھا کہ ان کے ساتھ بھی جو ہمارے baises ہیں ، جو perceptions ہیں، جو hatered ہے اس کو کس طرح ہم وہاں جاکر پتا کرسکیں، ان کو آزماسکیں، ان سے خود مل کر سکیں کہ آیا یہ سنجیدہ ہے یا نہیں ہیں، یہ people to people grass root effort ہے یہ کس طرح help کرسکے جو اور سارے سیاسی حل ڈھونڈ ریہ ہیں، یہ ہم اپنی طرف سے گراس روٹ لیول پر اس کو آزمائیں.

 ری ایکشن یہ تھا کہ وہاں پہنچ کر جس طرح فخر جو تھا مجھے پاکستانی ہونے کا وہ ان کے ویلکم کے ذریعہ آپ کو پتا ہے کہ امریکن اتنا emphasis نہیں رہا جتنا اپنے پاکستانی ہیریٹج پر رہا ہے، ان میں کوئی bais نہیں ملا، انہوں نے کوئی چھپایا نہیں، بڑے خلوص سے ہمیں ویلکم کیا، ہر جگہ لے گئے، کوئی رکاوٹ نہیں تھی۔ کہ کوئی سوال پوچھنا یا کس سے ملنا.

یہ نتیجہ رہا ہے کہ ان سے ایک قسم کی اپنی خود کی baises ہیں وہ ہمیں discard کرنی ہیں تاکہ یہ peace process grass root level پر اسی طرح آگے بڑھے گا اگر ہم ایک دوسرے سے ایک trust daficit eliminate کردیں، اس لحاظ سے ہمارا یہ دورہ تھا، احمد قریشی نے کہا کہ ڈاکٹر شیریں مزاری نے ایک طرح سے ریاستی ادارے کو دھمکی دی ہے کہ میں اسٹیٹ سیکرٹس نشر کردوں گی اگر کسی نے آکر یہ بات کی کہ اگر عمران خان کے دور میں اسرائیل سے روابط ہوئے.

 اول تو یہ ری ایکشن بذات خود میرے لئے ،بطور صحافی میں نیشنل سیکیورٹی کی چیزوں پر کور کرتا رہا ہوں، ہم بہت سارے لو گ ہیں صرف میں نہیں ہوں ہمارے بہت سارے کولیگز ہیں صحافی جوا ن چیزوں کو کور کرتے رہے ہیں، ہمارے لیے تو سب سے پہلے ریڈ فلیگ یہ ہے کہ ڈاکٹر صاحبہ جو بڑی محترم ہیں اور میری ان سے بہت اچھی سلام دعا ہے تو وہ اتنا savior reaction آپ سمپل سا کہہ سکتی تھیں کہ یہ بالکل غلط ہے اور عمران خان کے دور میں اسرائیل سے کوئی رابطہ نہیں ہوا اور بات ختم ہوگئی اور اگر کوئی ہے تو آپ ثبوت دکھادیں.

 لیکن انہوں نے اتنے extreme پر ری ایکشن دیا کہ نہ صرف انہوں نے مجھے بلکہ مجھے تو سائڈ پر چھوڑ کر انہوں نے ڈائریکٹ ٹیگ کر کے ڈی جی آئی ایس پی آر کو دھمکی دیدی کہ اگر آپ لوگ چپ نہیں ہوئے تو آپ کی مزید چیزیں کچھ سیکرٹس ہیں یا جو بھی ان کے ذہن میں ہیں ، اول تو یہ مشکوک کردیتا ہے ان کے اس جواب کو، نمبر ون۔ نمبر ٹو جو ہے وہ میں آپ کو بتاؤں کہ عمران خان کے دور میں دو تین رپورٹس آئیں.

 ایک رپورٹ آئی کہ ان کے کوئی اسپیشل ایڈوائزر ہیں جو اسرائیل کا خفیہ دورہ کر کے آئے ہیں اور وہاں لوگوں سے مل کر آئے ہیں، یہ خبر جو ہے پاکستانی میڈیا میں شائع ہوئی، اسرائیلی میڈیا میں شائع ہوئی اور میرے خیال میں ایک دو باہر کے اخبارات میں بھی شائع ہوئی، اسرائیلی میڈیا میں جہاں پر شائع ہوئی وہ اسرائیل کا سب سے بڑا اخبار ہے، میرے خیال میں اس کا نام ہے .

”اسرائیل ہیوم“وہ ان کا سب سے زیادہ شائع ہونے والا نیوز پیپر ہے، انہوں نے quote کیا اسرائیلی سیکیورٹی فورسز کو، اور ان کو کلیئرنس ملی کہ وہ یہ خبر نشر کریں، یہ وہ کہہ رہے ہیں میرے پاس اس کا کوئی ثبوت نہیں ہے، ایک ملک کا بڑا اخبار یہ کہہ رہا ہے کہ ہمارے ہاں پاکستانی وزیراعظم کے ایک اسپیشل ایڈوائزر آئے تھے، ایک تو یہ خبر آئی تھی، ایک خبر آپ کو یاد ہوگا کہ اسی دور میں آئی تھی کہ کوئی طیارہ کارگو کا چھوٹا تل ابیب سے اردن آیا ، اردن سے دبئی، دبئی سے پاکستان اور پھر واپس گیا ہے۔

اہم خبریں سے مزید