پاکستان کی مشکلات میں آئے روز اضافہ ہوتا جا رہا ہے، جمہوریت کے خمار نے سیاسی اشرافیہ اور اسٹیبلشمنٹ کے تال میل کو ایک نئی جہت دی ہے۔ سونے پر سہاگہ الیکشن کمیشن آف پاکستان کا کردار ہے، الیکشن کمشنر نوکر شاہی سے تعلق کو اپنی شناخت بتاتے ہیں۔ آئینِ پاکستان کے مطابق الیکشن کمشنر کا تقرر حکمران جماعت اور اپوزیشن رہنما کی باہمی مشاورت سے کیا جاتا ہے مگر ہوا کیا، کپتان سرکار اور اپوزیشن رہنما کسی ایک نام پر متفق نہ ہو سکے پھر ایک نام طاقتور حلقوں نے تجویز کیا۔ سابق وزیراعظم عمران خان نے جانکاری شروع کی پھر اپنی ذات میں انجمن، فرزندِ راولپنڈی، شیخ رشید نے نوید سنائی کہ موصوف ان کے ساتھ ریلوے کی وزارت کے دنوں میں کام کر چکے ہیں اور قابلِ اعتبار ہیں، سو کپتان نے رضا مندی ظاہر کر دی۔ دوسری طرف اپوزیشن نے بھی اعتراض نہیں کیا۔ موصوف کو الیکشن کمیشن کی باگ ڈور دے دی گئی پھر کچھ ہی عرصہ کے بعد حکومت کی جانب سے ان پر جانبداری کے الزامات لگنے لگے، اب جو تفتیش ہوئی تو معلوم ہوا کہ حضور طاقتوروں کی طرف سے آئے تھے۔ پاکستان کی موجودہ مشکلات میں ایک بڑی وجہ مشکوک انتخابی طریقۂ کار اور الیکشن کمیشن ہے، ہمارا نظامِ انصاف بھی پاکستان کی مشکلات میں اضافہ کرتا رہا ہے۔ عدلیہ فیصلے سنانے میں زیادہ تاخیر تو نہیں کرتی مگر ان فیصلوں پر عملدرآمد کے لیے کوئی واضح طریقہ کار موجود نہیں ہے اور کسی فیصلے پر عمل نہ ہوا ہو تو توہینِ عدالت کا قانون ہمارے وکلا صاحبان کے کام آتا ہے۔ توہینِ عدالت ایک ایسا معاملہ اور مسئلہ ہے جو ابھی تک قابلِ تشریح ہے اور کمال یہ ہے کہ کوئی بھی عدالت توہینِ عدالت پر حرکت میں آسکتی ہے اور عموماً معافی تلافی پر انصاف مل جاتا ہے۔
عمران خاں کا دعویٰ ہے کہ اُن کے خلاف سازش میں شریک لوگ اداروں پر تنقید کرنے میں بہت نمایاں رہے ہیں۔ ان کی تنقید کو کافی عرصہ تک خاموشی سے در گزر کیا جاتا رہا۔ اپوزیشن کے اہم لوگوں نے بھی ماضی میں اداروں پر خاصی تنقید کی۔ ان کے امریکہ اور برطانیہ کے خاص لوگوں سے بہت تعلقات ہیں، بلاول بھٹو زرداری جو اِس وقت وزیر خارجہ ہیں، پہلے انہوں نے سعودی عرب کا دورہ کیا، وہاں بھی وزیراعظم پاکستان سے فاصلہ رکھا اور اب خصوصی دورۂ پر امریکہ سے ہو کر آئے ہیں۔ اس میں شبہ نہیں کہ امریکہ پاکستان کے لیے ایک خطرناک حلیف رہا ہے، امریکہ کو پاکستان کی ضرورت ہے اور وہ گزشتہ دورِ حکومت میں تمام تعلقات براستہ عسکری انتظامیہ رکھتا رہا ہے۔ اس بات پر عمران خاں کو کافی تشویش رہتی تھی۔ بظاہر تو سابق وزیراعظم عمران خان نے بہت حد تک مالی معاملات پر کنٹرول حاصل کر لیا تھا اور آئی ایم ایف کی شرائط کو نظرانداز کیا اور معاشی خودمختاری کے بامقصد اقدامات کئے اور ان کے نتائج بھی مثبت نظر آ رہے تھے۔ دوسری طرف امریکہ پاکستان سے تعاون میں شک و شبہات کا شکار تھا، اپوزیشن کا کہنا تھا کہ 2018کے انتخابات میں سازش کی گئی ہے اور کچھ اداروں نے عمران خان کی ضرورت سے زیادہ مدد کی۔ یہ فقط الزام تھا لیکن اُن اداروںنے اس بات کی کبھی تردید نہیں کی۔ پھر الزام لگانے والوں نے اِنہی اداروں سے مدد بھی مانگی۔ سابق وزیراعظم کو جیل ہونے کے باوجود خصوصی توجہ کے بعد باہر جانے کی راہ ہموار کی گئی، عدلیہ نے بھی خصوصی مہربانی فرمائی اور ان کے بھائی نے 50روپے کے اسٹامپ پیپر پر ضمانت دی۔ طاقتور مہربان اس مہربانی پر خاموش اور لاتعلق سے ہیں۔
امریکہ جیسے مہربان اور برطانیہ جیسے قدردان نے پاکستان کی سیاست میں نمایاں کردار ادا کیا اور جلاوطن سیاسی اشرافیہ کو خصوصی توجہ سے نوازا، پاکستان سے بیشتر سیاسی لوگ غیرملکی مہربانوں سے رابطہ رکھتے ہیں۔ عمران خان سرکار نے سابق خادم اعلیٰ پنجاب کے سفر پر پابندی لگائی اور مریم نواز کا نام بھی ان کے مقدمات اور سزا کی وجہ سے ای سی ایل میں شامل کیا۔ پھر ایک وقت آیا جب تحریکِ عدم اعتماد کی کامیابی کے بعد مخلوط سرکار نے اپنا کاروبار شروع کیا تو سب سے پہلے باہر جانے کی پابندی کو ختم کیا گیا اور بہت سارے لوگ ملک سے باہر روانہ بھی ہو گئے۔ میاں نواز شریف کی بیٹی نے درخواست دی کہ عدالت ان کا پاسپورٹ واپس کرے پھر درخواست واپس لے لی گئی، درونِ خانہ کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ طاقتوروں کو ان کے باہر جانے پر اعتراض ہے۔
جیسے ہی تحریک عدم اعتماد کامیاب ہوئی اور مخلوط سرکار بنی، امریکہ نے بھی اپنی جون بدلی، سب سے پہلے ایک اہم ادارے کے عہدیدار اپنے خصوصی طیارے میں اسلام آباد سے لندن گئے، کچھ لوگوں سے مشاورت کے بعد وہ امریکی صدارتی شہر واشنگٹن چلے گئے، وہاں پر امریکی افواج کی اعلیٰ قیادت سے گفت و شنید ہوئی۔اس وقت طاقتور حلقوں کو عمران خان کو حاصل ہونے والی عوامی توجہ خطرناک لگ رہی ہے پھر کپتان عمران خان کے ماضی کے دو اعلیٰ افسر وں نے بھی بےاصولی کی اور کپتان نے ان کے فون نمبر بلاک کر دیے، فوج پر تنقید سے مکمل گریز کیا اور فوج کو شرمندہ بھی نہیں کیا اور اس وجہ سے فوج کے اندر بھی ان کی مقبولیت میں بہت اضافہ ہوا، جب بھی چیف صاحب کسی کور کا دورہ کرتے تو کور کمانڈر عمران کی مقبولیت کا ذکر کرکے رہنمائی کی درخواست کرتے، عمران نے فوج کو شرمندہ نہیں کیا، الزام نہیں لگایا۔ مخلوط سرکار کم وقت میں بہت کچھ حاصل کرنا چاہتی ہے جو مشکل ہے، کہنے والے کہتے ہیں کہ زرداری صاحب نے شہباز شریف کو استعمال کیا ہے، نواز لیگ پریشان ہے، سیاست اور جمہوریت بہت بدنام ہو رہی ہے، عمران خان کے سب مخالف انہیں بےبس کرنے میں مشغول ہیں، اب دیکھنا یہ ہے کہ ملک کی معیشت ان کی مدد کرتی ہے یا پاکستان کے عوام کی قسمت میں مزید آزمائش لکھی ہے۔