سابقہ وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق شیریں مزاری کے ساتھ پیش آئے واقعے کی تحقیقات کے لیے کمیشن بنانے کا تحریری حکم جاری کردیا گیا۔
چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ نے گزشتہ روز کی لیٹ نائٹ سماعت کا حکم نامہ آج جاری کیا ہے۔
تحریری حکم نامے میں کہا گیا کہ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے بتایا کہ وزارت داخلہ، وفاقی حکومت کو شیریں مزاری کی گرفتاری سے آگاہ نہیں کیا گیا۔
حکم نامے میں مزید کہا گیا کہ ایڈیشنل اٹارنی جنرل شیریں مزاری کی گرفتاری اور انہیں دوسرے صوبے کے حکام کے حوالے کرنے کا جواز پیش نہ کر سکے۔
تحریری حکم نامے میں یہ بھی کہا گیا کہ شیریں مزاری نے بتایا کہ انہیں مجسٹریٹ کے سامنے بھی پیش نہیں کیا گیا، یہ واضح ہے کہ گرفتاری کے لیے قانونی تقاضے پورے نہیں کیے گئے۔
عدالت کے تحریری حکم نامے کے مطابق اس عدالت کے دائرہ اختیار میں ہونے والا یہ پہلا واقعہ نہیں، مطیع اللّٰہ جان اور ایس ای سی پی افسر کو دن کی روشنی میں جبری طور پر غائب کیا گیا۔
حکم نامے میں کہا گیا کہ اسد علی طور اور ابصار عالم جیسے صحافیوں کے خلاف جان لیوا کارروائیاں ہوئیں، قانون نافذ کرنے والے اداروں نے اختیارات کا ناجائز استعمال کیا۔
عدالتی حکم نامے میں کہا گیا کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے کے اہلکاروں نے بنیادی حقوق کی مسلسل خلاف ورزی کر کے قانون کی حکمرانی کو انڈر مائن کیا۔
اس میں بتایا گیا کہ عدالت میں پیش ہونے والے حکام شیریں مزاری کی گرفتاری کا کوئی جواز پیش نہ کرسکے۔
حکم نامے میں مزید بتایا گیا کہ ماضی میں بھی ارکان اسمبلی کو گرفتار کر کے انہیں حلقے کے عوام کی پارلیمنٹ میں نمائندگی سے محروم کیا گیا۔
تحریری حکم نامے میں کہا گیا کہ ایک رکن قومی اسمبلی علی وزیر طویل عرصے سے قید ہیں، ان کا کیس اس عدالت کے دائرہ اختیار میں نہیں اس لیے مناسب ہوگا کہ اس پر آبزرویشن سے گریز کیا جائے۔
عدالتی حکم نامے میں درج ہے کہ ایڈیشنل اٹارنی جنرل اور ایڈووکیٹ جنرل نے کہا کہ واقعے کی تحقیقات کر کے ذمہ داروں کے خلاف کارروائی ہوگی۔