• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

یا خدائے رحمان؛ رحم کہ انسانیت ایک وبا سے نجات نہیں پاتی کہ دوسری حملہ آور ہو جاتی ہے،بیشک تو ہی شفا اور امان دینے والا ہے۔ ابھی دنیا اومیکرون میں مبتلا ہے کہ ’’منکی پاکس ‘‘ سامنے آگئی ہےجو افریقہ میں بندروں میں پائی جاتی تھی اور اسی لیے اس کا نام منکی پاکس رکھا گیا ،اس وائرس کے زیادہ تر کیسز وسطی اور مغربی افریقہ میں سامنے آتے تھے، جہاں یہ بیماری مقامی ہے،چنانچہ ماضی میں صرف افریقہ میں پائی جانے والی اس بیماری کے امریکا اور یورپ میں کیسز رپور ٹ ہونے پر عالمی ادارہ صحت اور وبائی امراض پر نظر رکھنے والے ماہرین نے خدشات کا اظہارکیاہے کہ نئے کیسز میں کچھ تبدیلیاں نوٹ کی گئی ہیںاور 21مئی تک منکی پاکس کے کیسز کی تعداد بھی بڑھ کر 100تک جا پہنچی تھی،جن میں امریکا، برطانیہ، جرمنی، اسپین، اٹلی، کینیڈا، فرانس، بیلجیم، سویڈن، نیدرلینڈز، پرتگال، آسٹریلیا اور کینیڈا شامل ہیں۔سب سے زیادہ کیسز اسپین میں24 سامنے آئے ہیں، چیچک اور جسم پر شدید خارش کے دانوں کی بیماری سے ملتی جلتی اس بیماری کی دو قسمیں ہیں، ایک قسم مغربی افریقی کلیڈ ہے اور دوسری قسم کانگو بیسن (وسطی افریقی) کلیڈ ہے، مغربی افریقی کلیڈ سے متاثرہ افراد میں موت کا تناسب تقریباً ایک فیصد ہے جبکہ کانگو بیسن کلیڈ سے متاثر ہونیوالے مریضوں میں ہلاکتوں کا تناسب 10فیصد تک ریکارڈ کیا گیا ہے،وبا کی علامات میں بخار ہونا، سر میں درد ہونا اور جلد پر خارش ہونا شامل ہیں۔صد شکر کہ پاکستان میں ایسا کوئی کیس سامنے نہیں آیاتاہم جس تیزی سے یہ پھیل رہا ہےاس سے بچائوکے پیشگی اقدامات ضروری ہیں،بتایا جاتا ہے کہ چیچک کی متعدد ویکسینز میں سےکوئی ایک منکی پاکس کے خلاف موثر ثابت ہوتی۔ضروری ہےکہ ہمارا محکمہ صحت مکمل معلومات حاصل کر کے اس مرض سے نمٹنے کیلئے مستعد رہے ۔

اداریہ پر ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں00923004647998

تازہ ترین