مولانا محمّد طارق نعمان گڑنگی، مانسہرہ
حسد(بُغض، کینہ) ایک ایسا جذبہ ہے، جو انسان کواندر ہی اندردیمک کی طرح چاٹ جاتا ہے۔ اس بیماری میں مبتلاحاسدین کو عبادت میں سرور ملتا ہے، نہ ہی دُنیاوی معاملات میں سُکون میسّر آتا ہے، یہاں تک کہ یہ خونی رشتوں سے بھی بیگانہ کر دیتا ہے۔حسد کے لغوی معنی کُھجلانے، کھوکھلا کرنے کے ہیں۔ انہیں معنوں میں یہ حاسد کے دِل کو اندر سے کھوکھلا کر دیتا ہے۔
امام جرجانی ؒحسد کے اصطلاحی معنی یوں بیان فرماتے ہیں،’’حسد سے مُراد ہے،صاحبِ نعمت سے نعمتوں کے زوال کی چاہت کرنا اور حاسد یہ تمنا کرتا ہے کہ دوسروں سے نعمتیں چِھن کر اُسے مل جائیں۔‘‘ یہ ایک خطرناک اخلاقی بُرائی ہے، جو ہر طرح سے بگاڑ کا باعث بنتی ہے۔ رسولِ اکرمﷺنے فرمایا، ’’حسد نیکیوں کو ایسے کھاجاتا ہے، جیسے آگ لکڑیوں کو کھا جاتی ہے۔‘‘ (ابن ماجہ)۔ حضرت موسی علیہ السلام نے ایک شخص کو عرش کے سائے میں دیکھا۔ اُنہیں اس مقام کی خواہش ہوئی، پوچھا کہ ’’اے اللہ! یہ صاحب
کون ہیں‘‘؟ ارشاد ہوا کہ’’ اس نے کبھی حسد سے کام نہیں لیا، اپنے والدین کی نافرمانی نہیں کی اور چغل خوری سے اپنے آپ کو بچایا۔‘‘ اللہ تعالی کا ارشاد ہے ،’’حاسد ہی نعمت کا دشمن ہے۔ وہ میرے حکم سے خفا ہوتا ہے اور اپنے بندوں کی جو قسمت مَیں نے پیدا کی ہے، اُسے پسند نہیں کرتا۔‘‘
حضورِپاکﷺ نے فرمایا ’’دو چیزوں میں حسد نہیں۔ ایک یہ کہ اللہ تعالیٰ کسی شخص کو علم اور مال عطا فرمائے اور وہ اپنے مال کو علم کے مطابق استعمال کرے۔ دوسرا یہ کہ کسی کے پاس علم ہو، لیکن مال نہ ہو اوروہ یہ خواہش کرے کہ اگر اللہ تعالیٰ مجھے بھی مال عطا فرماتا، تو مَیں بھی اسی طرح خرچ کرتا۔ یہ دونوں افراد ثواب کے اعتبار سے برابر ہیں اور اگر کوئی شخص مال کو لغو اور گناہ کے کام میں خرچ کرے اور کوئی دوسرا کہے کہ اگر میرے پاس ہوتا، تو اسی طرح اُڑاتا تو یہ دونوں گناہ میں برابر ہیں۔‘‘
فی زمانہ، ہم لوگ آپس میں جو بدگمانیاں رکھتے ہیں، حسد، جلن کا شکاررہتے ہیں، تو اس عمل سے ہماری نیکیاں خاک میں مل جاتی ہیں، یہاں تک کہ ایمان بھی خطرے میں پڑجاتا ہے۔ حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا’’خدا کی قسم! مجھے یہ ڈر نہیں کہ میرے بعد تم شرک کرنے لگو گے، بلکہ مجھے ڈر اس بات کا ہے کہ تم دُنیا کی محبّت (یعنی مال و دولتِ دُنیا کی حرص) میں مبتلا ہو جاؤ گے۔‘‘یہاں اس بات کی وضاحت ضروری ہے کہ کسی کاعلم یا مال و دولت دیکھ کر خود بھی جائز طور پر اس کے حصول کی کوشش کرنا ،حسد کے زمرے میں نہیں آتا۔ اسے رشک کہا جاتا ہے، جو انسان میں آگے بڑھنے کی جستجو اور ولولہ پیدا کرتا ہے۔
چوں کہ اس جذبے کی وجہ سے انسان ترقّی کرتا، کام یابیاں حاصل کرتا ہے، لہٰذا رشک کی اجازت ہے، لیکن صرف اس صُورت میں کہ ترقّی اور کام یابی کے لیے جائز راستوں ہی کا انتخاب کیا جائے۔ یہ نہیں کہ کوئی امتحان میں اوّل آتا ہے، تو ہم رشک میں مبتلا ہوکر اوّل آنے کے لیے نقل یا سفارش کا رستہ اپنالیں۔ کسی امیرکبیر پر رشک کریں اور حرام ذرائع سے دولت کمانا شروع کردیں۔ اس قسم کی صُورتوں میں تو رشک بھی جائز نہیں۔ حسد کا مفہوم کسی کی نعمت یا خُوبی کا زوال چاہنا یا اس کے چِھننے کی خواہش ہے، جب کہ رشک کا مطلب کسی شخص کی خُوبی سے متاثر ہونا اور اُس جیسا بننے کی کوشش کرنا ہے، لیکن رشک میں صاحبِ نعمت سے نعمتوں کے چھن جانے یا ان کو نقصان پہنچ جانے کی کوئی خواہش نہیں ہوتی۔
چناں چہ حسد ایک منفی، جب کہ رشک ایک مثبت جذبہ ہے، بشرطیکہ نیّت نیک ہو۔ حسد دینی ہی نہیں، دُنیاوی نقصان کا بھی باعث ثابت ہوتا ہے کہ حاسد مسلسل ایک ذہنی کرب میں مبتلا رہتا ہے، جب بھی وہ اپنے دشمن کو راحت میں دیکھتا ہے، تو اس کا خون کھولتا ہے اور دشمن کو حاصل نعمتوں، راحتوں کے خاتمے کی تدبیریں کرتا رہتا ہے اور جب کچھ بن نہیں پاتا، تو دِل ہی دِل میں کڑھتا ہے۔ یعنی حسد دِل و دماغ کے لیے ایک مسلسل عذاب اور تکلیف کے سوا کچھ بھی نہیں۔ اللہ پاک ہم سب کو اس بیماری سے محفوظ رکھے اور ہرحال میں صبر و شُکر کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔