• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بلوچستان کی انتخابی تاریخ کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ یہاں عوامی مینڈیٹ اکثر منقسم رہاہے۔ جہاں، یہاں کے ووٹرزپر قوم پرستوں کا اثرہے وہاں مذہبی جماعتوں میں جمعیت علمائے اسلام کے حلقہ اثر میں بھی یہاں آئے روز اضافہ ہو رہا ہے.

 وفاقی جماعتوں میں اگرچہ پیپلزپارٹی بھی ماضی میں ایک اثر رکھتی تھی لیکن رفتہ رفتہ یہ اثرکم ہونے لگا،البتہ حالیہ بلدیاتی انتخابات میں اس جماعت کو ایک بار پھر پذیرائی ملی ہے۔مسلم لیگ یادیگرایسی جماعتیں جو وفاق کی سیاست کرتی ہیں اُن کااثروفاق میں اُنکی پوزیشن کے تناظرمیں یہاں طے ہوتارہاہے۔

اب جب ہم حالیہ بلدیاتی انتخابات کاان سطورکی تحریر (30مئی) تک کا جائزہ لیتے ہیں تو 9سال بعد 29 مئی کوپہلے مرحلے میں 32اضلاع میں ہونے والے انتخابات میں بھی مینڈیٹ منقسم ہے.

یہ بلدیاتی انتخابات ہیں اور ظاہر ہے یہ صوبائی حکومت سازی کا عمل نہیں لیکن اس سے بہرصورت جو صوبے کا عمومی نقشہ ہے وہ تمام جماعتوں میں تقسیم نظرآتاہے۔

 آزاد اُمیدواروں کے بعد جماعتی اعتبار سے البتہ کامیابی کے تناظر میں جے یو آئی ان انتخابات کی بڑی جماعت ہے۔باپ کے نام سے معروف بلوچستان عوامی پارٹی دوسری بڑی جماعت ہے،اس جماعت کو اسٹیبلشمنٹ کی پروردہ قراردیا جاتا رہا ہے لیکن اب جبکہ یہ جماعت حکومت میں بھی نہ تھی اتنی بڑی کامیابی سمیٹنا یقیناًتوجہ طلب ہے۔حاصل بزنجو مرحوم اور عبدالمالک بلوچ کی نیشنل پارٹی نے ماضی کے مقابلے میں بڑی کامیابی سمیٹی ہے۔

قومی لیڈر محمود خان اچکزئی کی پختونخوامیپ زبردست طور پر ان بلدیاتی انتخابات میں سرخرو ہوئی ہے، پیپلزپارٹی نے کامیاب انٹری کے طور پر سرپرائز دیا ہے۔

عوامی نیشنل پارٹی کی کامیابی اگرچہ قابل ذکر نہیں، لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ ایک طویل عرصے سےاس جماعت کی بلوچستان میں پارلیمانی سطح پر کوئی کارکردگی نہیں رہی.

2018کے انتخابات میں البتہ اس جماعت نے خواتین کی مخصوص نشست سمیت چار نشستیں لی تھیں،یو ں سابقہ ریکارڈ کے تناظر میں  موجودہ پوزیشن بھی اس جماعت کے کارکنوں کیلئے حوصلہ افزا قرار دی جاسکتی ہے،بہرصورت اس جماعت کا تاریخ میں جو قد ہے اُسکےاعتبارسے جہاںیہ جماعت خیبرپختونخوا میں اچھی کارکردگی نہیںدکھاسکی وہاں بلوچستان میں بھی یہ قوم پرستوں جماعتوں کی کامیابی کی اگلی صف میں موجود نہیں۔

 30مئی کی شام تک این این آئی خبررساں ایجنسی کے مطابق غیر حتمی غیر سرکاری نتائج کے مطابق 1882نشستوں پر آزاد امیدوار کامیاب ہوئے ہیں جبکہ جمعیت علمائے اسلام 469، بلوچستان عوامی پارٹی (باپ) 303، نیشنل پارٹی 145، پشتونخواء ملی عوامی پارٹی 135، پاکستان پیپلز پارٹی 130، بلوچستان نیشنل پارٹی102، پی ٹی آئی 71، بی این پی عوامی 68، عوامی نیشنل پارٹی 43، مسلم لیگ (ن) 20،جمہوری وطن پارٹی19اور جماعت اسلامی 16 نشستوں پر کامیاب ہو ئی ہے۔ تاہم ایک ہزار سے زائد حلقوں کے غیر حتمی غیر سرکاری نتائج تاحال موصول نہیں ہوئے الیکشن کمیشن حکام نے رابطہ کرنے پر بتایا کہ فی الحال انتخابی نتائج آنے کا سلسلہ جاری ہے‘‘۔

نتائج چونکہ حتمی نہیں ہیں اس لیے ان میں فرق آسکتاہے،ان سے قطع نظر ہم یہاں آپ کی توجہ اس جانب مرکوز کرنا چاہتے ہیں کہ ان انتخابات میں حیرت انگیز طورپر جے یوآئی کا روایتی ووٹ جو زیادہ ترپختون بیلٹ پرمشتمل ہوتاتھا وہ اب بلوچ علاقوں میں منتقل ہواہے۔

پی ڈی ایم کاحصہ ہونے کے باوصف جے یوآئی اور پختونخواملی عوامی پارٹی میں ماضی کی نسبت اِس وقت بہت زیادہ قربت ہے، افغانستان وطالبان سمیت بعض ایسے امور جن کی جے یوآئی حامی اور قوم پرست مخالف رہے ہیں.

 پختونخوامیپ کے سربراہ محمودخان اچکزئی کی اس حوالے سے پالیسی کو قوم پرست تنقیدکا نشانہ بناتے رہے ہیں لیکن ان انتخابات میں پختونخواملی پارٹی نے اُن علاقوں میں بھی، جہاں سے جے یو آئی کے اراکین اسمبلی 2018میں کامیاب ہوئے تھے.

 جے یوآئی کوشکست سے دوچارکرکے قوم پرست حلقوں کیلئے طمانیت کا سامان فراہم کردیاہے۔بعض حلقے تو ایسے ہیں جہاں سے جے یوآئی کا صفایا ہو گیا ہے۔

 دوسرے مرحلے کے انتخابات میں کوئٹہ میں پشتون ووٹرزکے حوالے سے دیگر جماعتوں کے ساتھ اصل معرکہ جے یوآئی اور پختونخوامیپ میں متوقع ہے اور پختونخوامیپ کی کامیابی کی پیش گوئی کی جارہی ہے۔ یہاں کہنایہ ہے کہ جے یوآئی کا حلقہ اثر خیبرپختونخوا اوربلوچستان کے وہ علاقے رہے ہیں جہاں پشتون ووٹرز زیادہ ہیں۔

خیبرپختونخوامیں جہاں مدرسوں کی تعداد زیادہ ہوئی ہے اُسی نسبت سے جے یوآئی کے ووٹ بینک میں بھی اضافہ ہواہے، پختونخواکے بلدیاتی انتخابات کے نتائج اسکا مظہرہیں.

دوسری طرف بلوچستان کے پختون علاقوں میں مدرسوں کی تعداد میں تو اضافہ ہورہاہے لیکن ان کے ووٹ بینک میں اضافے کی بجائے کمی نظرآئی ہے۔

بلوچ بیلٹ میں جہاں بلوچ قوم پرستوں کے مختلف جماعتوں میں بٹے رہنے سے جے یوآئی آگے ہوئی ہے وہاں پختون بیلٹ میں پختونخواملی عوامی پارٹی نے اس کے ووٹ بینک پر کاری ضرب لگائی ہے۔

 بعض حلقے اس کی ایک وجہ پی ٹی ایم کی اُس آگہی مہم کوقراردیتے ہیں جس کے نتیجےمیں قوم پرست بیانیہ کو تقویت ملی ہے۔

بنابریں کہاجاسکتاہے کہ بلوچستان میں جے یوآئی جہاں اپنی والہانہ کامیابی پر خوش ہوگی وہاں اسے یہ فکربھی دامن گیر ہوگئی ہوگی کہ پختون بیلٹ میںاُن حلقوں میں جہاں انکے اراکین قومی وصوبائی اسمبلی بھی تھے، کیوں مطلوبہ کامیابی حاصل نہ کر سکی!

تازہ ترین