’’قدم قدم پر اہمیت ملے، تو زندگی کتنی پُر لطف ہوجاتی ہےناں، جب گھر میں، اپنوں کی زندگیوں میں آپ سے پوچھے بغیر، مشورہ لیےبغیر کوئی کام نہ ہو، تو ایسا لگتا ہے، جیسے پوری دنیا مُٹھی میں ہے۔ لیکن یہ رتبہ، پیار چِھن جانے کا خوف، کسی کے مدّ ِ مقابل آ کھڑا ہونے کا اندیشہ کسی ڈراؤنے خواب سے کم نہیں ہوتا…‘‘نور کو یہ سوچ کر ہی جُھرجُھری سی آگئی۔ ’’محبتوں میں بٹوارہ…ہرگز نہیں۔‘‘ نور زیرِلب بڑبڑائی۔ ’’نور بیٹا! کچھ کہا تم نے…؟‘‘ قریب کھڑی ساجدہ بیگم نے پوچھا۔ ’’نہیں تو، کچھ بھی نہیں کہا امّی، آپ بتائیں رات کو کھانے میں کیا بناؤں؟‘‘ نور نے فوراً بات بدل دی۔ ’’ارے ہاں،آج کھانے میں کچھ اچھا بنا لو۔ صاعقہ آرہی ہے، سارہ کے جوتے بدلوانے بازار جانا ہے، اُسے وہ رنگ بالکل پسند نہیں آیا۔‘‘
ساجدہ بیگم نے جواب دیا۔ ’’ابھی تو مہارانی نے گھر میں قدم بھی نہیں رکھا اور ابھی سے اُن کے نخرے بھی اُٹھائے جانے لگے ہیں۔‘‘جب سے دیور کی بات پکّی اور شادی کی تیاریاں شروع ہوئی تھیں، تب ہی سے نور کے دل و دماغ میں ایک جنگ سی برپا تھی، دل میں ایک خوف سا بیٹھ گیا تھا۔ وہ اپنی نرم مزاجی اور گھر کی بڑی بہو ہونے کے سبب اب تک ساس، نندوں اور دیگر سُسرالیوں کی بےحد لاڈلی تھی۔
سُسرال والوں کی توجّہ، پذیرائی اسے خُوب سرشار کیے رکھتی۔ لیکن جیسے جیسے دیور کی شادی کے دن قریب آ رہے تھے، اسے یہ اندیشہ ستائے جا رہا تھا کہ آنے والی دیورانی کے ساتھ گھر والوں کا پیار، توجّہ اور اختیارات کا بٹوارہ کہیں اُسے بےوقعت نہ کر دے۔سُنا تھا سارہ کے ہاتھ میں ذائقہ بھی ہے اور کھانے کی پریزینٹیشن بھی انتہائی دل کش ہوتی ہے۔ ’’کھانا سجانے اور پیش کرنے کے نِت نئے انداز سے واقف کیوں نہ ہوگی،ہوٹل مینجمنٹ میں بیچلرز جو کیا ہوا ہے۔‘‘ نور نے کھانا پکاتے ہوئے سوچا۔ انہی وسوسوں، خیالات میں شادی کی گھڑی بھی آگئی اور سارہ، نور کی دیورانی بن کر گھرآگئی۔
’’نور! ناشتے پر اتنا اہتمام…؟‘‘ ناشتے کی میز پر غیر معمولی اہتمام دیکھ کر ساجدہ بیگم نے حیرانی سے پوچھا- ’’جہاں تک مجھے یاد ہے، آج کوئی خاص دن تو نہیں ہے، کیا صبح سے کچن میں لگی ہو؟‘‘ ساجدہ نے پوچھا۔ ’’جی امّی! خاص دن نہیں، لیکن مَیں نے سوچا سب کا مَن پسند ناشتا بنالوں۔ آپ تو جانتی ہی ہیں، مجھے آپ لوگوں کا کتنا خیال رہتا ہے اور میرے لیے یہ سب کام مشکل نہیں ۔
سارہ! تم بھی خُوب ڈَٹ کر ناشتا کرو۔‘‘ نور نےزبردستی مسکراتے ہوئے کہا۔آلو کے پراٹھے، حلوہ پوری، آملیٹ، فرینچ ٹوسٹ، رشین سلاد، کچوریاں… اتنا اہتمام دیکھ کر ساجدہ بیگم واقعی حیران تھیں۔ ایسا نہیں تھا کہ نور نے آج سے قبل کبھی ناشتے کا اہتمام نہیں کیا تھا یا وہ عام دنوں میں اچھا ناشتا نہیں بناتی تھی۔ ایسے بہت سے مواقع گزرے تھے، جب نور نے شان دار دعوتوں کا اہتمام کیا تھا،لیکن بے موقع اتنا اہتمام دیکھ کر ساجدہ بیگم حیرت میں مبتلا تھیں۔
دن یونہی گزر رہے تھے، سارہ کی صُورت اور سیرت دونوں ہی بہت پیاری تھیں۔ کھیر پکائی کے بعد سے تو اس نے ایک دو دفعہ بڑے ہی لذیذ کباب بھی بنائےتھے، جن کی سبھی نے بہت تعریف کی۔ ویسے بھی گھر میں سب سے چھوٹی ہونے کے سبب گھروالے اُس کی ذرا ذرا سی کوششوں کی خوب پذیرائی کرتے۔ بظاہر تو گھر میں سبھی ٹھیک چل رہا تھا، لیکن نور کی کچھ باتیں ساجدہ بیگم کو اُلجھن میں ڈال رہی تھیں۔ جیسے آئے دن ناشتوں اور کھانوں پہ بےتحاشا اہتمام، جس کے لیے وہ سارا سارا دن کچن میں جُتی رہتی، نہ اپنے آرام کا خیال کرتی، نہ بچّوں کو توجّہ دے پاتی۔
حاشر سے بھی روز کسی نہ کسی بات پہ جھگڑا ہو جاتا۔ پہلے کسی خاص موقعے پر پارلر جاتی تھی، پر اب ہر ہفتے بلا ناغہ جانے لگی تھی۔ نور کا یہ رویّہ اب ساجدہ بیگم کو حیران سے زیادہ پریشان کرنے لگا تھا۔ وہ چاہتیں تو حاشر کو بھی دبے الفاظ میں نور سے بات کرنے کا کہہ سکتی تھیں، لیکن یوں وہ نور کی اصل کیفیت نہ جان پاتیں۔ لہٰذا انہوں نے خود بات کرنے کی ٹھانی۔
رات کو جب نور انہیں دوا دینے کمرے میں آئی، تو نور اور سارہ کی شادی کے البمزساجدہ بیگم کی مسہری پر بکھرے پڑے تھے اور وہ بڑے اشتیاق سے انہیں دیکھنے میں مگن تھیں۔ نور کو بھی انہوں نے اپنے ساتھ بٹھا لیا۔ اور یوں تبصروں کا ایک سلسلہ چل نکلا۔ لیکن نور اپنی تصویروں سے زیادہ سارہ کی تصویریں دیکھنے میں دل چسپی لے رہی تھی۔ اس کی ہر ہر چیز یوں بغور دیکھ رہی تھی، جیسے پہلی دفعہ دیکھ رہی ہو۔ اور بس، یہی وہ لمحہ تھا، جب ساجدہ بیگم نور کی کیفیت بھانپ گئیں۔
انہوں نے اُسی وقت اس سے بات کرنے کا فیصلہ کیا۔ ’’نور! کیا بات ہے، جو تمہیں پچھلے کچھ دنوں سے پریشان کر رہی ہے؟ مَیں دیکھ رہی ہوں کہ سارہ کے اس گھر میں آنے کے بعد سے تم کچھ بدلی بدلی سی ہو۔ کیا مَیں تم میں اور سارہ میں انصاف نہیں کر پا رہی؟‘‘ نور اس غیر متوقع سوال پر اچانک گڑبڑا سی گئی۔ ’’نہیں امّی! ایسا ہرگز نہیں ہے۔ آپ ایک مثالی ساس ، بلکہ میرے لیے تو ماں ہی ہیں۔ نہ آپ کی محبّت میں کوئی کمی آئی ہے، نہ توجّہ میں۔ وہ تو بس مَیںہی…‘‘ اتنا کہہ کر وہ چُپ ہوگئی۔
ساجدہ بیگم نے اس کا حوصلہ بڑھایا۔ ’’نور! تمہیں یاد ہے، جب تم اس گھر میں بیاہ کر آئی تھیں، تو سب کیسے ہر وقت تمہارے ساتھ ساتھ لگے رہتے تھے، تاکہ تمہیں اپنےمیکےکی یاد نہ آئےاور جانتی ہو، تمہاری شادی کے وقت مَیں تو سب سے زیادہ خوش تھی کہ صاعقہ اور درخشاں کی شادی کے بعد میرے سُونے گھر میں پھر سے رونق آنے والی ہے۔ تم نے بھی تو سب کا دل جیتنے میں کوئی کمی نہیں چھوڑی۔ نور! تم آج بھی اپنے نام کی طرح اس گھر میں نور بکھیر رہی ہو۔ یقین کرو، تم ایک بہترین بہو، بیوی اور ماں ہو۔ بیٹا! اگر تمہیں کوئی بات ستا رہی ہے، تو بلا جھجھک کہو، شاید مَیں تمہاری کچھ مدد کر سکوں۔‘‘
ساس نے بات ختم کی، تو نور کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے کہ وہ خود بھی ان منفی خیالات سے لڑلڑ کرتھک چُکی تھی۔سو، اُس نے اپنے دل کی ہر بات ساجدہ بیگم کے سامنے کہہ ڈالی۔ ساجدہ بیگم خاموشی سے اُسے سُن رہی تھیں۔ ’’مجھے ڈر ہے کہ سارہ کے آنے کے بعد اس گھر میں، آپ سب کے دِلوں میں میری حیثیت پہلے جیسی نہیں رہے گی۔اس کا حُسن اور خوبیاں دیکھتی ہوں، تو لگتا ہے کہ اللہ نے اُسے ہی سب چیزوں سے نواز دیاہے۔میرے پاس نہ اس کے جیسا رُوپ ہے، نہ قابلیت۔
اس کے مقابلے میں میرا پلڑا بہت ہلکا ہے۔‘‘ ساجدہ بیگم نے بڑے پیار سے اس کا ہاتھ پکڑا اور کہا ’’ یہ رشتے، جو تم نے اپنی خدمت اور خلوص سے مضبوط کیےہیں، ان میں اگر مقابلہ لاؤ گی، تو دکھاوا خودبخود آجائے گا اور جن رشتوں میں دکھاوا آجائے، اُنہیں نبھاتے نبھاتے انسان تھک جاتا ہے، لیکن راحت نصیب نہیں ہوتی۔ اس لیے تم جو ہو، جیسی ہو، ویسی ہی رہو۔ بس اپنے حصّے کا کام کیے جاؤ اور نتیجہ اللہ کے ہاتھ چھوڑ دو کہ وہی اجر بھی دیتا ہے اور عزّت بھی۔‘‘
ساس کی بات ختم ہوئی، تو کمرے میں گہری خاموشی تھی۔نور سمجھ چُکی تھی کہ وہ اتنے دنوں سے بے سُکون کیوں تھی۔ وہ نم آنکھوں کے ساتھ ساجدہ بیگم کے گلے لگ گئی ۔ ’’رات بہت ہو گئی ہے، اب تم سوجاؤ اور ہاں، کل کھانے میں میٹھا ضرور بنانا، ہماری نور کی مسکان واپس آنے کی خوشی میں۔‘‘ ساجدہ بیگم نے کہا، تو وہ ’’جی ضرور‘‘ کہتی ہوئی لائٹ بند کرکے چلی گئی۔ساجدہ بیگم جانتی تھیں کہ کل ان کے گھر میں ایک خوش گوار صُبح طلوع ہونے والی ہے، رنگ و نُور، اُجالے، روشنی سے لب ریز صُبح۔